اسکولوں کی بھاری فیسیں اور حکومتی بے حسی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 3 مارچ 2020
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں سفید پوش طبقے کے لیے تعلیمی اخراجات ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے، تعلیمی اخراجات میں مہنگی کتب اور بھاری فیسیں والدین کے لیے بوجھ ہیں، فیسوں کے ضمن میں اسکول انتظامیہ ہمیشہ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسیں ایڈوانس میں لیتی آئی ہے مگرگزشتہ برس عدالتی فیصلے کے باعث اسکول انتظامیہ نے ایسا نہیں کیا، جس سے والدین کو ایک بڑے مسئلے سے نجات ملی گئی تھی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کے ساتھ ہی یہ فیصلہ ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا اور اسکول انتظامیہ کی جانب سے والدین کو پھر سے نوٹس ارسال کر دیے گئے کہ وہ اپنے بچوں کی ماہ جون اورجولائی کی چھٹیوں کی فیس مارچ اور اپریل کے مہینوں کی فیس کے ساتھ جمع کرا دیں۔

نارتھ ناظم آباد میں رہنے والے ہمارے ایک دوست کے تین بچے ایک نجی اسکول میں پڑھتے ہیں، چیف جسٹس کے فیصلے کے بعد یہ بڑے خوش تھے کہ انھیں آیندہ اپنے بچوں کی یکمشت ڈبل فیس نہیں دینا پڑے گی۔ حال ہی میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے نہایت افسردہ لہجے میں کہا کہ نجی اسکول نے ان کے بچوں کوگرمیوں کی چھٹیوں کی فیس دوبارہ سے ایڈوانس میں جمع کرانے کا نوٹس دے دیا ہے۔ ہمارے ان دوست کا کہنا ہے کہ پہلے ہی تین بچوں کی فیس نکالنا مشکل تر ہوگیا تھا ، مہنگائی میں اضافے سے مالی مشکلات بڑھ گئی تھیں اس پر اب یہ مزید مشکل آن پڑی ہے۔ اب دو ماہ تک بچوں کی ڈبل فیس ادا کرنا ہوگی ،جوکہ بڑا مشکل کام ہے۔

ہمارے ہاں قانون کی دھجیاں اڑانا تو معمول بن ہی چکا ہے مگر اب حکومتی فیصلوں کو نظرانداز کر کے دیدہ دلیری سے اسکول کے بچوں کو ڈبل فیس کی ادائیگی کا نوٹس بھیج رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام کیا اس قدرکمزور ہوگیا ہے کہ نجی اسکول جیسے چھوٹے ادارے بھی عدالت کے فیصلے کی کھل کر خلاف ورزی کر رہے ہیں؟ کیا ایک چیف جسٹس ریٹائر ہوجائے تو ان کے فیصلوں پر عمل نہ کیا جائے؟ راقم کا خیال ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو فوراً اس اہم مسئلے پر از خود نوٹس لینا چاہیے ، یہ محض والدین اور اسکول انتظامیہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ ویسے بھی فیسوں سے متعلق سابق چیف جسٹس کے فیصلے کو عوامی سطح پر بہت سراہا گیا تھا کیونکہ یہ سراسر ظلم تھا کہ چھٹیوں کی فیس چھٹیوں سے دو ماہ قبل لے لی جائے۔

اچھی تعلیم پاکستان میں والدین کا خواب تو ہے مگر اس شعبے کو جس قدرکمرشل بنیادوں پر کھڑا کرکے مہنگا کر دیا گیا ہے ، اسی قدر والدین خاص کر مڈل کلاس خاندان کو اپنے بچوں کے لیے اچھی تعلیم دلوانا ایک خواب بن چکا ہے۔ مڈل کلاس کے والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانے کے لیے بہت قربانیاں دے رہے ہیں۔

کسی نے اپنی گاڑی فروخت کر دی توکوئی چھٹیوں کی ڈبل فیس ادا کرنے کے لیے اپنے ادارے سے ہر سال لون لیتا ہے، صرف اس لیے کہ ان کے بچے بہتر اسکول سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ دوسری طرف ان بہتر اسکولوں کا یہ حال ہے کہ بھاری تعداد میں اسکول رہائشی عمارتوں میں قائم ہیں جہاں بچوں کو کھیلنے کے لیے مناسب جگہ بھی دستیاب نہیں ہوتی، گویا یہ نجی اسکول بڑی بڑی فیسیں تو وصول کر رہے ہیں لیکن ایک اسکول میں جو سہولیات ہونی چاہیے وہ ان اسکولوں میں نہیں ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اسکول کے بچوں کو جسمانی مصروفیات بھی حاصل نہیں۔

قانوناً جو سہولیات نجی اسکولوں میں طلبہ کو فراہم کرنا چاہیئیں بیشتر اسکولوں میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ ذمے داری محکمہ تعلیم کی ہے کہ وہ تمام نجی اسکولوں کا از سرے نو انسپیکشن کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ کون سا نجی اسکول کتنی فیس لے رہا ہے اور ان فیسوں کے عوض کتنی سہولیات طلبہ کو فراہم کر رہا ہے۔ شہری علاقوں میں بڑے نامور اسکول عام طور پر رہائشی بنگلوں میں قائم ہیں اور مڈل یا لوئر مڈل علاقوں میں ایک سو بیس گز سے لے کر ساٹھ گزکے چھوٹے چھوٹے کئی منزلہ عمارتوں میں بھی قائم ہیں جہاں روشنی اور ہوا بھی بمشکل دستیاب ہوتی ہے ،کوئی کھیل کا میدان ہونا تو دورکی بات۔ ایسے اسکولوں میں صبح کی دعا ( اسمبلی) کے لیے بچوں کی قطاریں گلیوں میں لگی ہوتی ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو خوبصورت انگریزی ناموں والے اسکول محض نام ہی کے اسکول ہیں جہاں فیسیں تو بھاری بھاری وصول کی جاتی ہیں مگر سہولیات نا پید ہیں۔ اسی طرح ان اسکولوں میں ایسے اسٹاف کو رکھ لیا جاتا ہے جنھیں خود انگریزی نہیں آتی مگر انگریزی کی کتابیں بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ہیں، اساتذہ کا گرا ہوا معیار بھی نجی اسکولوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔

عام والدین اسکول کا نام اور نصاب کی خوبصورت کتابیں دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے آگے چل کر بہت اچھی انگریزی بھی بولیں گے مگر انھیں شاید یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ جس اسکول میں پڑھ رہا ہے وہاں کے استاد کو تو خود انگریزی بولنا نہیں آتی۔

ایسے اسکولوں میں سوائے اردو اور اسلامیات کے تمام کورسزکی کتابیں انگریزی ہی میں ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم اپنے کسی دوست سے ملنے گئے، ان کا بچہ ڈرائنگ روم میں پڑھ رہا تھا، ہم نے اس بچے کے پاس ہسٹری کی ایک بڑی خوبصورت کتاب دیکھی جس میں پہلا باب سندھ کے تاریخی مقام ٹھٹہ کے بارے میں تھا، ہم نے بچے سے کہا بیٹا یہ پڑھ کر بتاؤ گے اس میں کیا لکھا ہے؟ بچہ شرما کر ادھر ادھر دیکھنے لگا، ہم نے پوچھا کہ کلاس ٹیچر نے آپ کو یہ کتاب پڑھائی ہے؟ بچہ بولا کہ ٹیچر ہمیں کہتے ہیں کہ خود ریڈنگ کر لو اور پھر لکھ کر دکھا دو۔

اس کے بعد ہم نے بچے سے کہا کہ یہ صفحہ پڑھ کر بتاؤ گے ! بچہ پھر شرما کر ادھر ادھر دیکھنے لگا، ہمارے دوست نے کہا کہ پڑھو بیٹا، پھر اس بچے نے جو انگریزی کا حشرکیا وہ نا قابل بیان ہے۔ یہ تو محض ایک مثال ہے ورنہ اکثریت میں ایسے ہی انگلش میڈم اسکول ہمارے ہاں گلی، گلی قائم ہیں جو نام سے تو بہت بڑے بڑے معلوم ہوتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ان کے اساتذہ کو خود انگریزی نہیں آتی جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ اسکول فیسیں تو انگریزی اسکول کے حساب سے وصول کرتے ہیں مگر سب سے کم تنخواہ پر اساتذہ کو بھرتی کرتے ہیں، ظاہر ہے جب اسکول کو کمرشل ازم پر کمانے کی غرض سے چلایا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا تجزیہ ظاہرکرتا ہے کہ ہمارے ہاں اسکولوں کے معاملات کو دیکھنے والا کوئی نہیں، وفاقی اور صوبائی محکمہ تعلیم کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ نجی اسکولوں کے معاملات اور خاص کر والدین کی شکایات کا جائزہ لیں خصوصاً فیسوں میں من مانے اضافے اور عدالتی حکم کے باوجود چھٹیوں کی فیس کی یکمشت وصولی پر ان اسکولوں سے باز پرس کریں۔ عدالتی فیصلوں کے خلاف فیس وصولی پر بھی ایکشن لیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔