افغانستان : شطرنج کا نیا کھیل

زاہدہ حنا  بدھ 4 مارچ 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

21 ویں صدی میں 9/11 کے بعد دوسرا سب سے اہم بین الاقوامی سیاسی واقعہ امریکا ، افغان امن معاہدے کی شکل میں رونما ہو چکا ہے۔ اس تاریخی واقعہ پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور آیندہ بھی لکھا جاتا رہے گا، جیسا کہ عمومی روایت رہی ہے کہ کسی بھی اہم پیشرفت کا تجزیہ روایتی انداز میں کیا جاتا ہے جس سے کوئی خاص نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس حوالے سے ایک روایتی انداز یہ نظر آئے گا کہ زیادہ تر تجزیہ نگار اس معاہدے کو طالبان کی فتح اور امریکا کی شکست سے تعبیر کریں گے اور یہ دلیل دیں گے کہ انھوں نے سابق سوویت یونین کے بعد اب امریکا کو بھی اپنے ملک سے نکل جانے پر مجبورکر دیا ہے۔ بعض دانشور یہ کہہ کر پاکستان کے مقتدر حلقوں کی پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ افغان امن معاہدے میں دراصل پاکستان کی کاوشوں کا دخل زیادہ ہے۔ مذہبی جماعتوں کے حامی تجزیہ کار اسے اسلام کی فتح کہہ کر مستقبل میں مغرب کی مزید ہزیمتوں کی نوید سنائیں گے۔

افغانستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ گزشتہ 40 برسوں سے مسلسل عدم استحکام سے دوچار ہے جب کہ طالبان اور امریکا کا موجودہ تنازعہ محض 18 سال پرانا ہے لہٰذا اس امن معاہدے کو 18نہیں بلکہ 40برسوں کے تاریخی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی معروضی نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب سوویت یونین نے 24 دسمبر 1979کو افغانستان  میں فوجی مداخلت کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس مداخلت کا مقصد نور محمد ترکئی کی اشتراکی حکومت کو بچانا تھا جو 1978میں سردار داؤد کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئی تھی اور جسے زبردست اندرونی شورش اور خلفشارکا سامنا تھا۔

سوویت مداخلت کے نتیجے میں امریکا اور مغرب میں کہرام برپا ہوگیا۔ امریکا کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اگر افغانستان پر اس کے سب سے بڑے عالمی حریف سوویت یونین کا تسلط مستحکم ہوگیا تو اس خطے میں امریکی مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ یہ وہی دور تھا جب جنرل ضیا الحق جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد 4 اپریل 1979 کو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکو تختہ دار پر لٹکا چکے تھے۔ اس خوفزدہ فوجی ڈکٹیٹر کے لیے افغانستان میں سوویت مداخلت ایک مبارک شگون ثابت ہوئی، کیونکہ بھٹو کی پھانسی کے8ماہ بعد سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا۔

افغانستان میں سوویت مداخلت کا مقابلہ پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا لہٰذا امریکا نے جنرل ضیا الحق سے مدد طلب کی جو بھٹوکے عدالتی قتل سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انھوں نے انتہائی معمولی مالی سودے کے عوض سوویت یونین کے خلاف امریکا کی اس جنگ میں پاکستان کو امریکا کی طفیلی ریاست بنا دیا۔

جنرل ضیا الحق کے ذریعے امریکا نے پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کیا۔ افغان مجاہدین کو اربوں ڈالر کا اسلحہ اور سازوسامان پہنچانے میںان کی حکومت نے مکمل سہولت فراہم کی۔ امریکا نے دنیا کے مسلمانوں کو اس ’’مقدس جہاد‘‘ میں شامل ہونے کی دعوت دی جسے قبول کرنے والوں میں اسامہ بن لادن بھی شامل تھا۔ طویل سرد جنگ پہلے ہی سوویت معیشت کو تباہ کرچکی تھی افغانستان میں اسے غیر معمولی جانی ومالی نقصان پہنچ رہا تھا۔ لہٰذا سوویت یونین ، 15 فروری 1989 کو افغانستان سے رخصت ہو گیا۔ افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد امریکا کا مقصد حل ہوگیا اور وہ مجاہدین اور پاکستان کو تنہا چھوڑ کر افغانستان سے باہر نکل گیا۔

امریکا کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اس کے باعث افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ بالآخر طالبان نے ستمبر 1996 میں پورے ملک کو فتح کرتے ہوئے دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا، طالبان حکومت 2001 تک قائم رہی۔ طالبان حکومت کے پاکستان سے بہتر تعلقات تھے لیکن ملا عمر امریکا کے حامی نہیں تھے۔ ان کے دور حکومت میں عالمی شدت پسند اسلامی تنظیموں نے ملا عمر کی حمایت کی اور افغانستان میں اپنے مضبوط مراکز قائم کر لیے۔ القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن نے  افغانستان سے 11 ستمبر 2001 کو امریکا کے ٹوئن ٹاورز پر دہشتگرد کارروائی کی منصوبہ بندی کی، اس واقعے کے بعد پوری دنیا کا نقشہ تبدیل ہو کر رہ گیا۔ امریکا نے ملا عمر کو الٹی میٹم دیا کہ وہ اسامہ کو اس کے حوالے کردے اور حملوں کے لیے استعمال ہونے والے تربیتی کیمپ ختم  فوراًکردیے جائیں۔ طالبان کے امیر ملا عمر نے امریکی مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔

7 اکتوبر2001کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کردیا، محض چھ دنوں کے اندر طالبان کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ کابل سے فرار ہوکر قندھار چلے گئے۔ دو ماہ بعد جرمنی کے شہر بون میں ایک معاہدے کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی کی زیر قیادت ایک حکومت قائم ہوگئی اور ملا عمرکو قندھار سے بھی بھاگنا پڑا۔ تاہم گزشتہ 5 برسوں کے دوران طالبان دوبارہ منظم ہوگئے اور انھوں نے افغان حکومت اور امریکی فوجیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں شدت پیدا کردی۔

صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ دنیا سے امریکی فوجوں کو واپس بلا لیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ سمیت دیگر انتہا پسند تنظیموں کے خلاف سخت حکمت عملی اختیارکی، جس کے نتیجے میں وسط ایشیائی ممالک میں ان تنظیموں کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کا شیرازہ بکھرگیا اور سعودی عرب بھی مذہبی عناصرکی حمایت سے دست کش ہونے لگا۔ ان تبدیلیوں نے طالبان کو بھی اپنے سابقہ موقف سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس سے قبل وہ امریکا سے براہ راست مذاکرات کرنے پر تیار نہیں تھے لیکن حالات کے دباؤ نے انھیں امریکا سے غیر مشروط اور براہ راست مذاکرات پر مجبور کر دیا۔

افغان امن معاہدے میں یوں تو اس مسئلے سے وابستہ ہر سٹیک ہولڈرکا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہے لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ امریکا اور طالبان نے دیگر سٹیک ہولڈرزکو الگ رکھ کر ایک دوسرے سے براہ راست معاملات طے کیے ہیں۔ افغان حکومت نے اُس معاہدے کو تسلیم کیا جو امریکا نے طالبان سے طے کیا ہے۔

اس طرح پاکستان کو بھی ان مذاکرات میں زیادہ فعال اور سرگرم کردار نہیں دیا گیا۔ اس تلخ حقیقت کی، ایک واضح مثال یہ ہے کہ قطر، جس کا افغانستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا اسے دونوں فریقوں نے اپنا میزبان بنایا۔ یہ حکمت عملی پہلے سے طے شدہ تھی۔ طالبان نے امریکا کی حمایت سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 2013 میں اپنا دفتر کھولا تھا۔ یہ دنیا میں کہیں بھی اس کا پہلا دفتر تھا۔ اس پیشرفت کے بعد طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مکالمے کی راہ کھل گئی اور اس تنازعہ میں نہ صرف پاکستان بلکہ افغان حکومت کا کردار بھی محدود ہو کر رہ گیا۔

10 مارچ کے آنے میں صرف چند دن باقی ہیں۔ طالبان اور افغان حکومت کو بعض اہم اقدامات کرنے ہیں جن میں دونوں جانب سے ہزاروں قیدیوں کی رہائی اورایک دوسرے پر حملوں سے گریز جیسے اقدامات سرفہرست ہیں۔ تاہم، اس دوران دونوں فریق اور ان کی حامی قوتیں یہ چاہیں گی کہ وہ ان مذاکرات کے ذریعے طے پانے والے مستقبل کے سیاسی نظام میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش حاصل کریں۔ لہٰذا 10 مارچ سے قبل دونوں جانب سے ایک دوسرے پر سیاسی اور نفسیاتی دباؤ ڈالا جائے گا تاکہ مذاکرات کی میز پر اپنے لیے ساز گار فضا قائم کی جاسکے۔ اس حوالے سے بیانات کا آغاز ہوگیا ہے۔ افغان صدر کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کوئی پیشگی شرط نہیں ہے، اس طرح صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس معاہدے کو نقصان پہنچا تو امریکا اتنی بڑی فوج کے ساتھ دوبارہ افغانستان میں واپس آئے گا ، جس کا تصور بھی کوئی نہیں کرسکے گا۔

امریکا طالبان امن معاہدہ کامیاب ہو یا ناکام اس کا پورا فائدہ صدر ٹرمپ کو ہوگا جو ستمبر کے صدارتی انتخابات کی مہم میں یہ کہہ سکیں گے کہ انھوں نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ دوسرا فائدہ افغان حکومت کو ہوگا، اس دوران  اسے اندرونی طور پر سیاسی ، معاشی اور فوجی طور پر مستحکم کرنے کا سازگار وقت میسر آسکے گا۔ اس معاہدے سے طالبان بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے حامی ملک ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، مالی مدد کے ذرایع مسدود ہوچکے ہیں اور داخلی طور پر افغان حکومت پہلے سے کہیں مضبوط ہے۔ ان حالات میں ان کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ سیاست کی بساط پر شطرنج کا کھیل شروع ہوگیا ہے، جوکھلاڑی غلط چال چلے گا وہ کھیل سے باہر ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔