امن کی جیت ہو گئی

عبدالقادر حسن  بدھ 4 مارچ 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کروسیڈ کا نعرہ لگا کر امریکی صدر جارج بش نے مسلمانوں کے خلاف جہاد شروع کیا تھا، اس نعرے  نے مسلمانوں میں ہی نہیں پوری دنیا میں ناراضگی کا طوفان برپا کر دیا ۔ لیکن امریکا نے اپنی طاقت کے زعم میں دنیا بھر کے تسلیم شدہ بے گناہ افغانستان اور عراق میں جس سفاکی کا مظاہرہ کیا وہ کوئی بے حس قوم ہی کر سکتی ہے، اس لیے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شرم دلانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ بھی امریکی  حکمرانوں کی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جیسے ان کے پیشترو تھے۔

مسلمانوں کے لیے کسی حد تک دو باتیں اطمینان کی ہیں، ایک تو یہ کہ دنیا کا ضمیر ابھی تک زندہ ہے اور وہ ان لوگوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے جو بے گناہوں پر ظلم کرتے ہیں، دوسرے یہ کہ مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا ہے جس نے خاموشی توڑ دی اور وہ ایمان کے اس مقام پر پہنچ گیا جو سب سے اعلیٰ ہے یعنی وہ ظالم کا ہاتھ طاقت کے ساتھ مروڑتا رہا، صرف زبان سے یا دل سے اسے برا نہیں سمجھا کہ اس کے ایمان کو کمزور سمجھا جائے ۔

حقیقت میں دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد امریکا اور اس کے ساتھی ان مظلوموں کو دہشتگرد کہتے رہے اور اس وقت سے ڈرتے رہے جب یہ دہشتگرد اس قدر طاقتور ہو جائیں گے کہ ان کو ان کی دہشتگردی کی سزا دے سکیں گے اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا ان درویشوں سے ہار گئی ہے اور امریکا تقریباً دو دہائیوں تک افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکرانے کے بعد ان سر فروشوں سے مذاکرت کی میز پر بیٹھ کر امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے ۔ امریکا نے گزشتہ اٹھارہ برس میں دنیا بھر میں دہائیاں دیں کہ افغانستان میں دہشتگرد ہیں انھیں کچل دینا ہو گا، اسی خوف اور دہشت میں وہ دنیا بھر سے فوجیں اکٹھی کر کے افغانستان میں جمع کرتا رہا لیکن بالآخر ہ نہتے افغانوں سے ہار گیااور دنیا نے دیکھا کہ امریکا انھی دہشتگردوں سے امن کی بھیک مانگ رہا ہے ۔

امریکا نے افغانستان پر یلغار میں جس تباہ کن اسلحہ کا ستعمال کیا اور اپنی بے پناہ فوجی اور بے مثال فوجی طاقت کا جس بے باکی کے ساتھ مظاہرہ کیا اس نے ایک بار تو دنیا پر امریکا کی دہشت طاری کر دی تھی، دنیا سکتے میں آ گئی اور ہر دل یہ ماننے پر مجبور ہو گیا کہ اب امریکا جو چاہے وہ کرے اس کا ہاتھ کوئی روک نہیں سکتا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دل ایسے بھی تھے جن کے اندر خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں تھا۔ انھوں نے بڑے صبر و تحمل کے ساتھ ٹھنڈے دل سے امریکی جارحیت کے خلاف منصوبہ بندی کی، وہ امریکا کی طاقت کا اس جیسی طاقت سے تو مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، انھوں نے مظلوموں کے آزمودہ ہتھیار کو اٹھا لیا اور اس کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔

گوریلا جنگ جو دنیا میں پہلی بارفاتح نپولین کے خلاف ہسپانیہ میں شروع کی گئی تھی اور جس سے شکست کھا کر یہ جرنیل واپس چلا گیا تھا۔ پھر یہ جنگ مشرق بعید کے مظلوم ملکوں میں پہنچی اور چین سے ہوتی ہوئی ویت نام میں ا س نے اپنا ایسا جلوہ دکھایا کہ ایک دہائی تک وہاں امریکا کے قدم نہ جمنے دیے اور امریکا کو رسوا ہو کر وہاں سے نکل جانا پڑا ۔ آج وہی امریکا ہے جو ویت نام کے زمانے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اور وہی کمزور مظلوم و مقہور لوگ ہیں جو اپنے آزمودہ ہتھیار سے امریکا کو رسوا کر چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کی قابض فوج اور اس کے ایجنٹوں کی بری حالت ہے اور یہ ملک ایک بار پھر طالبان طالبان پکار رہا ہے ۔ افغانستان کے ایک بڑے حصے پر طالبان عملاً قابض ہیں اور افغانستان کے اشرف غنی کی حکومت کا کنٹرول پورے کابل شہر پر بھی نہیں ہے ۔

اسی افغانستان میں جب قابض روسی فوجوں کے خلاف افغانی جنگ کر رہے تھے تو امریکا ان کو مجاہدین کہتا تھا اور امریکی لیڈر پاک افغان سرحد پر کھڑے ہو کر ہاتھوں میں کلاشنکوف لہرا کر ’’اﷲ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے تھے، اسامہ بن لادن امریکا کا ہیرو تھا لیکن جب روس افغانستان سے نکل گیا، امریکا کا مطلب پورا ہو گیا تو اس نے دیکھا کہ یہ نئی فاتح طاقت جو افغان جنگ سے برآمد ہوئی ہے، ایک خطرناک طاقت ہے اور امریکی عزائم کی راہ میں ویسی ہی مزاحمت کر سکتی ہے جیسی اس نے روس کے خلاف کی تھی چنانچہ امریکا نے فوراً ہی اس طاقت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کو تباہ کرنے کے لیے افغانستان کی سرز مین کو تہہ و بالا کر دیا۔

زمین گڑھوں سے بھر گئی اور پہاڑ روئی کی طرح اڑ گئے لیکن اس کے باوجود نہ صرف طالبان زندہ رہے بلکہ دنیا میں ان کے ایسے جانثار ساتھی سامنے آ گئے جن کے کارناموں کو دنیا حیرت زدہ ہو کر دیکھتی رہی ۔ امریکا نے اہل ایمان کے اس بر گزیدہ اور بلند مرتبہ گروہ کو القاعدہ کا کوئی فرضی نام دے دیا ۔ امریکا کی لغت میں مسلمانوں کا کوئی بھی گروہ اور دہشتگرد ہم معنی لفظ ہیں اور وہ دنیا بھر میں اپنے حامیوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بھی اسی امریکا لغت میں بات کریں چنانچہ امریکا کی پیروی میں غیر مسلموں کے علاوہ مسلمان حکمران بھی اپنے ان مجاہد اور جانباز بھائیوں کو دہشتگرد کہتے رہے۔ کل جو امریکا کے حکم پر انھیں مجاہدین کہتے تھے وہی انھیں امریکا کے حکم پر دہشتگرد کہتے رہے ۔ ان کے دل و دماغ خدا جانے لیکن ان کی زبان ان کی اپنی نہیں ہے وہ طوطے بن چکے ہیں۔

دلوں میں پیدا ہونے والا جہاد کا جذبہ ایسا ہے کہ دنیا کی کوئی تلوار اس کو کاٹ نہیں سکتی۔ خود کش حملوں کا تو کوئی توڑ نہیں ہے ان کا کسی ہتھیار اور سپاہ سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اگر ایسا کیا جا سکتا تو آج امریکا سے زیادہ کس کے پاس طاقت ہے ۔ زمینوں اور سمندروں اور آسمانوں پر امریکا کی حکمرانی ہے اور ہر خطہ اراضی اس کی طاقت سے گونج رہا ہے لیکن جب اس کی سپاہ کی آنکھوں کے سامنے کوئی عمارت گرنے لگتی ہے، کسی جگہ آگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور کسی جانباز کا جسم ہوا میں اڑ جاتا ہے تو بڑی سے بڑی طاقت بھی بے بس ہو کر اسے دیکھتی رہ جاتی ہے۔

نہتے افغانیوں نے جان پر کھیل کر اپنے ملک کو کسی در انداز سے جس طرح بچایا ہے، آج کی طاقتور دنیا میں اس کی مثال نہیں ہے۔ امریکا جیسی سپر پاور طالبان سے مذاکرات کر کے امن معاہدے پر مجبور ہو گئی ہے ۔ امن معاہدے کی شرائط پر کس طرح عمل ہو گا وقت کے ساتھ ساتھ یہ سامنے آتا جائے گا البتہ امن مخالف طاقتیں سر گرم ہو چکی ہیں ۔ لیکن بد امنی کے مقابلے میں امن کی جیت ہو گئی ہے، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دلوں کو سرور پہچانے والے اور آنکھوں کے تارے جیت گئے ہیں، امریکا ہار گیا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔