صرف دوحہ معاہدہ کافی نہیں، مستحکم افغانستان بھی ضروری ہے

احتشام بشیر  بدھ 4 مارچ 2020
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کردیے گئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کردیے گئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سابق سوویت یونین نے جب 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت خیال کیا جارہا تھا سوویت یونین کا افغانستان میں فوجیں اتارنے کا مقصد صرف افغانستان نہیں بلکہ روسی فوج کو آگے بڑھانا ہے۔ اس لیے روس کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے پس پردہ مختلف قوتیں بھی سرگرم رہیں لیکن مقابلے میں افغان مجاہدین سامنے آئے اور انہوں نے روسی فوج کا خوب مقابلہ کیا۔ روس کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکا بھی اس خطے میں داخل ہونے کی کوشش میں تھا اور روس کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکا کا اس خطے میں اثر و رسوخ بڑھ گیا۔

روس کے افغانستان پر حملے کے وقت اگرچہ امریکا براہ راست سامنے نہیں آیا تھا لیکن امریکا نے افغانستان میں روس کا راستہ روکنے کےلیے کسی نہ کسی طریقے سے مداخلت ضرور کی۔ افغان مجاہدین کی امداد کی گئی۔ روس تو شکست کے بعد افغانستان سے چلا گیا لیکن افغانستان میں اقتدار کی جنگ جاری رہی۔ افغانستان میں مجاہدین جو طالبان کے نام سے سامنے آئے، انہوں نے افغانستان کے اکثریتی علاقوں پر قبضہ کرلیا اور کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ طالبان نے افغانستان میں اسلامی ریاست قائم کی لیکن افغانستان کے کچھ علاقوں میں جنگی صورتحال برقرار رہی۔

جب امریکا کو طالبان کی ضرورت تھی تو وہ امریکا کےلیے برے تصور نہیں کیے جاتے تھے، لیکن جب امریکا کو ان کی ضرورت نہیں رہی تو افغان طالبان گڈ بک سے نکال دیے گئے۔ اور وہی مجاہدین امریکی زبان میں دہشت گرد کہلائے جانے لگے۔

روس کے افغانستان پر حملے نے اس خطے پر بہت خوف ناک اثرات چھوڑے۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان نے نہ صرف افغان مہاجرین کے بوجھ کو برداشت کیا بلکہ افغانستان میں جنگ کے اثرات پاکستان پر دہشت گردی، بم دھماکوں کی صورت میں بھی پڑے۔ پاکستان کو بھی افغانستان کی جنگی صورتحال کے باعث مالی اور جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
9/11 واقعے میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکا کے افغانستان پر حملے کا زیادہ نقصان بھی پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ دہشت گردی کے نام پر اس جنگ میں ساتھ دینے پر پاکستان کو بم دھماکوں کا تحفہ ملا۔ پاکستانی افواج، سیکیورٹی فورسز اور شہریوں نے اپنے جان ومال کی قربانی دی۔

امریکا میں جب 9/11 کا واقعہ رونما ہوا تو الزام القاعدہ پر لگا اور اسامہ بن لادن کی موجودگی افغانستان میں ظاہر کی گئی۔ امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا اور امریکی فوج نہ صرف افغانستان میں اتاری گئی بلکہ امریکا نے پاکستان میں بھی بیس کا استعمال کیا۔

افغانستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کوئی بھی حملہ آور افغانستان میں فتح یاب ہوکر نہیں لوٹا۔ امریکا کو افغانستان میں لڑتے 19 سال کا عرصہ گزر گیا لیکن وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا۔ بالآخر امریکا کو بھی طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنانا پڑا۔ ماضی میں بھی امریکا نے مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امریکا کے افغانستان میں فوجیں اتارنے کے 19 سال بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس تاریخی لمحے کو رپورٹ کرنے کےلیے پوری دنیا کا میڈیا دوحہ میں موجود تھا۔

یہ خبر پڑھئے: امریکا اور طالبان میں امن معاہدے پر دستخط؛ امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی

معاہدے پر اماراتِ اسلامیہ افغانستان کی جانب سے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکا کی جانب سے خصوصی نمائندے زلمی خلیل زاد نے دستخط کیے۔ معاہدے کے بعد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’اگر افغان طالبان امن و امان کی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے وعدے پر عمل درآمد نہیں کرتے تو ہم اس تاریخی معاہدے کو ختم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے‘۔

معاہدے پر دستخط کے بعد دوحہ ہی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ’افغان طالبان القاعدہ کے ساتھ تمام روابط ختم کرنے کا وعدہ پورا کریں۔ معاہدے کے مطابق اگر طالبان معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے تو امریکا اور ان کے نیٹو اتحادی اگلے 14 ماہ میں افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لیں گے‘۔

یہ خبر بھی پڑھئے: طالبان کا افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھنے کا اعلان

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط تو کردیے گئے ہیں، لیکن کابل میں افغان حکومت کے اس بیان کہ وہ قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے اور طالبان کا یہ بیانیہ کہ وہ افغان افواج کے خلاف لڑیں گے لیکن غیر ملکی افواج کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ معاملہ سلجھتا نہیں الجھتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکا کے افغانستان میں حملے سے قبل بھی افغانستان میں اقتدار کی جنگ جاری تھی اور اگر امریکا افغانستان سے نکل بھی جاتا ہے تو افغانستان میں امن کی ضمانت کون دے گا؟ اس لیے دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا اس میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جاتا اور افغانستان میں جتنے بھی سیاسی گروہ ہیں ان کو بٹھا کر مستحکم افغانستان کی جانب پیش قدمی کی جاتی۔ دوسری جانب ماہرین کے مطابق ابھی بھی افغان طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کی پائیداری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

یہ خبر بھی پڑھئے: ٹرمپ کا طالبان رہنما ملّا برادر کو ٹیلی فون

وہ قوتیں جو اس خطے میں امن کو مستحکم ہوتے نہیں دیکھ سکتیں، وہ ایک بار پھر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گی۔ جس طرح ماضی میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لیے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے بعد افغانستان کے اندر فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ مستحکم افغانستان بناکر خطے کو مستحکم کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔