عورت مارچ حقیقت اور تاثر کے درمیان

مزمل سہروردی  جمعرات 5 مارچ 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

عورت مارچ کے حوالہ سے ایسے ہی ایک تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جیسے پاکستان میں باقی سب مارچ کرنے کی مکمل آزادی ہے ایسے ہی آئین و قانون کے دائرے میں عورت مارچ کرنے کی بھی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ اس پر کسی بھی قسم کا اعتراض یا قدغن جمہوریت اور آزادی اظہار کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ معاشرہ کے ایک بڑے حصہ کو عورت مارچ میں لگائے جانے والے نعروں اور وہاں ڈسپلے کیے جانے والے پلے کارڈزپر شدید اعتراض ہے۔ لیکن جیسے وہ پلے کارڈز اٹھانا اور نعرے لگانا عورت مارچ کے منتظمین کا بنیادی حق ہے ویسے ان پر اعتراض کرنا بھی اعتراض کرنے والوں کا بنیادی حق ہے۔ یہی ایک صحت مند معاشرہ کی نشانی ہے۔

ہمیں نہ عورت مارچ کے منتظمین کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے اور نہ ہی ان پر اعتراض کرنے والوں کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دونوں کو جمہوری دائرے اور آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنا اپنا نقطہ نظر آزادی سے بیان کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

جب دونوں فریقین اپنا اپنا موقف دلیل سے پیش کریں گے تو معاشرہ کو اپنی رائے بنانے میں آسانی ہوگی۔ جب ایک طرف میرا جسم میری مرضی کا نعرہ ہوگا دوسری طرف مکمل حجاب کا نعرہ ہوگا۔ لوگ خود ہی طے کرلیں گے کہ کیا ہونا چاہیے۔ کسی کی رائے کو بھی مسلط نہیں ہونا چاہیے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ عورت مارچ ایک صحت مند جمہوری روایت ہے۔ اس سے معاشرہ میں سوچ اور بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ بات ہوتی ہے، بحث ہوتی ہے جو اپنی جگہ ایک آزاد معاشرہ کی نشانی ہے۔

اب پاکستان میں عورت کو بہت آزادی حاصل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ چند قوانین ابھی ایسے موجود ہوں جن کو بدلنا چاہیے۔ اور یہ عورت مارچ ان قوانین کو بدلنے میں راہ ہموار کرے گا۔ آج کئی شعبوں میں خواتین نے مردوں کو مکمل شکست دے دی ہے۔ اور پاکستان کے معاشرہ میں مردوں نے وہ شکست تسلیم کی ہے۔ میڈیکل کے شعبہ میں جس طرح لڑکیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ آج خواتین ڈاکٹروں کی تعداد مرد ڈاکٹروں کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ  میں سمجھتا ہوں کہ خواتین پر ذمے داری بھی بڑھ گئی ہے، جس کا بھی احساس ہونا چاہیے۔

خواتین کو تمام شعبہ زندگی میں برابر حقوق اور برابر مواقع حاصل ہونے چاہیے۔ وہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق برابر شہری ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ایسے امتیازی قوانین موجود ہیں جہاں خواتین کو مردوں پر فوقیت حاصل ہے۔ جن میں خواتین کی خصوصی نشستیں شامل ہیں۔ جب آئین و قانون کے تحت مردوں کی کوئی خصوصی نشستیں نہیں ہیں تو خواتین کی خصوصی نشستیں کیوں ہیں۔پاکستان میں خاتون وزیر اعظم کسی خصوصی نشست پر جیت کرنہیں آئی ہیں۔ وہ مردوں کا مقابلہ کر کے جیت کر آئی ہیں۔

خواتین کی خصوصی نشستوں نے پاکستان کی جمہوریت کی کوئی خاص خدمت نہیں کی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خواتین کی خصوصی نشستوں نے ہماری جمہوریت کو آلودہ کیا ہے۔ اس لیے عورت مارچ کی منتظمین کو ان خصوصی نشستوں کے خاتمہ کے لیے آواز اٹھانی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ خواتین کو ایسی کوئی خصوصی مراعات نہیں چاہیے۔ دنیا کے جن ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیکر عورت مارچ کی منتظمین ہمیں لاجواب کر دیتی ہیں انھیں ان خصوصی مراعات کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہیے تاکہ انصاف ہو سکے۔

پاکستان میں اسکول کی سطح سے مخلوط نظام تعلیم ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے اکٹھے پڑھنے اور کام کرنے کا سبق سکھانا ہوگا۔ اسکولوں میں مخلوط نظام تعلیم کے خاتمہ نے ہمارے معاشرے میں کوئی صحت مند رجحانات پیدا نہیں کیے ہیں۔ جب تک ہم بچوں کو اکٹھے بیٹھنا اکٹھے پڑھنا اور اکٹھے کھیلنا نہیں سکھائیں گے تب تک ہمیں کل کو اکٹھے کام کرنا کیسے سکھا سکتے ہیں۔ اس لیے میری عورت مارچ کے منتظمین سے درخواست ہے کہ اسکولوں میں مخلوط نظام تعلیم کے لیے آواز اٹھائیں۔ جب اسکولوں میں مخلوط نظام تعلیم ہو جائے گا تو کالجز میں بھی مخلوط نظام تعلیم ممکن ہوگا۔ جب لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم نہیں حاصل کریں گے تب تک اکٹھے کام بھی نہیں کر سکتے۔

پاکستان میں جب مخلوط نظام تعلیم پر پابندی لگائی گئی۔ تب لڑکیوں اور خواتین کے الگ تعلیمی ادارے بنائے گئے۔ خواتین کے الگ میڈیکل کالج بنائے گئے۔ خواتین کی الگ یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ اب وقت کے ساتھ عجب منظر نامہ بن گیا ہے۔ تمام بڑی یونیورسٹیوں میں مخلوط نظام تعلیم رائج ہوگیا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر مخلوط نظام تعلیم کی پابندی ابھی تک موجود ہے۔

لیکن تمام یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ہو گئی ہے۔ لیکن جو خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے الگ ادارے بنائے گئے تھے، ان میں لڑکوں کا داخلہ ابھی تک بند ہے۔ اس پر بھی عورت مارچ کے منتظمین کو آواز اٹھانی چاہیے۔ اب جب کہ خواتین کو باقی تمام یونیورسٹیوں میں لڑکوں کے ساتھ میرٹ پر داخلے مل رہے ہیں تو لڑکیوں کے الگ میڈیکل کالج اور الگ یونیورسٹیوں کی کیا ضرورت ہے۔ اگر مرد اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو برا بن جائیں گے۔

اس لیے یہ بات بھی عورتیں کو ہی کرناچاہیے۔ ملک میں ایسے تمام امتیازی تعلیمی ادارے بند ہونے چاہیے۔ نہ کوئی ایسا تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے جس میں لڑکوں کا داخلہ ممنوع ہو اور نہ ہی ایسا کوئی تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے جہاں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع ہو۔ میرٹ کا بول بالا ہونا چاہیے۔ جس کو میرٹ پر جہاں داخلہ ملے اسے ملنا چاہیے۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو پاکستان کی خاتون کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہوگا۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو پاکستان کی لڑکیوں کو لڑکوں کے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔جن مردوں کو عورت مارچ پر اعتراض ہے، انھیں چاہیے کہ وہ مرد مارچ کا انعقاد کریں۔

جنھیں میرا جسم میری مرضی کے نعرہ پر اعتراض ہے وہ مردوں کے مارچ میںاس کے جواب میں اپنی مرضی کا کوئی نعرہ لگا لیں۔ ہمیں ایسے معاملات میں عدالتوں کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی باتیں ایک سخت معاشرہ کو اپنے اندر بحث اور ڈائیلاگ سے حل کرنا چاہیے۔ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔میں عورت مارچ کے اس مطالبہ کی بھی بھر پور تائید کرتا ہوں کہ تنخواہوں اور دیگر مالی مراعات میں عورتوں کو برابری ملنی چاہیے۔ بلکہ میرا موقف ہے کہ کوئی بھی نوکری ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ صرف عورتوں کے لیے ہے اور یہ صرف مردوں کے لیے ہے۔ سب کو ہر نوکری کے لیے برابر موقع ملنا چاہیے۔ویسے  عورت مارچ کی منتظمین کو خواتین کو سمجھانا چاہیے کہ وہ مردوں کے ساتھ نخرہ سے مت پیش آیا کریں بلکہ انھیں بھی اپنا جیسا برابر کا انسان سمجھیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔