- حکومت سے مذاکرات میں بجٹ پر توجہ مرکوز کی جائے گی، آئی ایم ایف پاکستان چیف
- عمران خان کی گرفتاری میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، وزیر دفاع
- عمران خان کی رہائش گاہ کا سرچ وارنٹ غیر مؤثر قرار
- مہسا امینی کی زیرحراست موت کی خبر دینے والی صحافی کیخلاف عدالتی کارروائی
- صدر مملکت دو روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچ گئے
- پی ٹی آئی کے مزید رہنماؤں کو حراست میں لینے کا فیصلہ، فہرستیں تیار
- جسٹس اقبال حمید الرحمٰن چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ تعینات
- عمران خان کی اے ٹی سی اور ہائیکورٹ آمد، ضمانتی مچلکے جمع کروادیے
- 9 مئی؛ حمزہ کیمپ حملے میں ملوث 30 ملزمان کی شناخت پریڈ مکمل
- حکومت کا آڈیو لیکس کمیشن بینچ کے تینوں ججز پر اعتراض
- مہندر سنگھ دھونی نے فینز کے لیے کون سا بڑا اعلان کردیا؟
- مقبوضہ کشمیر میں ہندو یاتریوں کی بس کھائی میں گر گئی؛ 10 ہلاک اور55 زخمی
- 9 مئی کے واقعات پر خیبر پختونخوا میں 2528 افراد گرفتار ہوئے، رپورٹ
- سعودی بریگیڈیئر جنرل جوان بیٹے کو بچاتے بچاتے سمندر میں ڈوب گئے
- کراچی میں شادی کی تقریب کے دوران فائرنگ، مدرسے کا طالبعلم جاں بحق
- ایک اور بھارتی فوجی نے سرکاری رائفل سے اپنی جان لے لی
- ریاستی علامات پر حملہ کرنے والے مذاکرات کے حقدار نہیں، وزیراعظم
- جسٹس (ر) ثاقب نثار کے بیٹے نے مبینہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیٹی کا قیام چیلنج کردیا
- میڈیکل رپورٹ پر پریس کانفرنس؛ عمران خان کا وزیر صحت کو10 ارب ہرجانے کا نوٹس
- جوڈیشل کمپلیکس ہنگامہ آرائی؛ اسد عمر کی دہشتگردی کے مقدمے میں مستقل ضمانت منظور
نیا بھارت

بھارت میں حالات کس طرف جا رہے ہیں، اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ نریندر مودی وہی ہیں، جنھوں نے نوے کے عشرے میں گجرات میں خون خرابہ کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا ، مسلمانوں کے خون کو بے دریغ بہانے اور بھارت کی زمین پر صرف ہندو ازم کا خواب دیکھنے والے چائے والے ‘ کو قدرت نے ایک اعلیٰ عہدے پر ایک بار نہیں بلکہ دوسری بار فائزکر دیا ، اس میں کیا راز ہے کیا اسرار ہے، اس میں اس بارے میں محض باتیں ہی کی جا سکتی ہیں۔
سی اے اے اور این آر سی کا تماشا دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے لیکن اس پر تنقید کرنے والے کم نظر آ رہے ہیں کیونکہ خود بھارتی حکومت نے اپنے تئیں ایک رسہ کشی کا ماحول گرم کر رکھا ہے۔ پہلے الیکشن میں کھینچا تانی اور اب ماحول کو سنوارنے کے بجائے اسے صرف دیکھنے پر گزارا کیا جا رہا ہے اور محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جیسے اب حکمران یہ سوچ رہے ہیں کہ اس شیر اور مینڈھے کی لڑائی میں جیت کس کی ہو گی اس بات کا تعین بھی نہیں ہو سکا ہے کہ شیر کون ہے اور مینڈھا کون ہے؟
شاہین باغ کا اجتماعی پڑاؤ دو مہینے سے جاری ہے لوگ بیٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سرکار کے لوگ آ کر ان سے بات چیت کریں تا کہ مسئلے کا کوئی تو حل نکلے لیکن یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ گولی مارو اس مسئلے کو۔ جیسے آپس میں لوگ بات چیت کرتے کسی کہانی کے کردار پر زیادہ الجھنے لگیں تو پھر چڑ کر اسی طرح گولی مارنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ نہ تو کہانی ہے اور نہ افسانہ ، اس کی جڑیں زمین میں اس قدر گہری ہیں اس کا ذکر پھر کبھی کرینگے لیکن بھارتی سرکار نے شاہین باغ اور اس کے احتجاج کرنیوالوں کو جیسے یوں نظرانداز کر رکھا ہے جیسے ان تمام لوگوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہو۔
سی اے اے کے مسئلے کو سپریم کورٹ تک کے ایوانوں تک پہنچانے کی باتیں بھی سن رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسے تسلیم کر لیا جائے گا لیکن فیصلہ سنانے والے کیا کہہ سکتے ہیں اور تسلیم کرنیوالے کیا کر سکتے ہیں، کس جانب جھکاؤ ہو گا یا اکڑ کر یہ پرانی شکست خوردہ ڈنڈی ٹوٹ ہی جائے گی البتہ پٹنہ تک کی صدائیں تو تسلیم کر لینے کی اٹھ رہی ہیں۔
پچیس فروری کو دہلی کے جعفر آباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے خواتین اور بچوں کے ہمراہ احتجاجی جلوس بیٹھا تھا جو دو دن پہلے یعنی 23 تاریخ کو ڈیڑھ بجے دوپہر بیٹھا تو اس وقت اندازہ نہ تھا کہ اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں اور پھر خبریں پھیلتی گئیں دہلی میں آگ، خون اور دنگا یوں پھیلا کہ جس نے کئی معصوم جانوں کو نگل لیا، اس تمام فساد میں طاہر حسین کی بلڈنگ کا تذکرہ سنا گیا یہ بلڈنگ جس انداز سے مشہور ہوئی اس سے تاثر یہی دیا جا رہا تھا کہ جیسے یہاں ایک فوجی چھاؤنی قائم ہے جو آگ تیر اور گولیوں کی بوچھاڑ اپنے ارد گرد برسا رہی ہے۔ یاد رہے یہ بلڈنگ ایسے علاقے میں قائم ہے جہاں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے ہیں۔
جعفر آباد کی یہ بلڈنگ اور اس کے مالک طاہر حسین کو چند دنوں میں ہی ایک بھیانک دہشتگرد، فسادی اور جھگڑالو کے حوالے سے اتنی شہرت ملی کہ شاید اگر وہ حضرت الیکشن میں کھڑے ہوتے تو کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی ملتا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ میٹرو اسٹیشن کے نیچے ہونیوالے اس دھرنے کی پلاننگ کا مقصد ہی دراصل فساد اور دنگا تھا جس نے پچاس لوگوں کی زندگیاں نگل لیں اور نہ جانے کتنے سو لوگوں کو زخمی کر دیا۔
اس سوچے سمجھے منصوبے میں واقعی سچائی کا کوئی پہلو چھپا ہے یا اسے ڈرامائی کہانی بنایا جا رہا ہے اس ڈرامائی کہانی کا تعلق شاہین باغ کے پرسکون احتجاجی لوگوں سے جڑ سکتا ہے یا خدانخواستہ یہ ان لوگوں کو دھمکانے کا طریقہ ہے کیونکہ حکومتی عہدیداروں نے تو طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے سی اے اے کو ہر طرح سے لاگو کر کے چھوڑنا ہی ہے ، چاہے اب اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے اس کچھ کے سرے جعفر آباد سے جوڑنے میں کیا ان کا ہی ہاتھ ہے یا۔۔۔۔!
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت میں آمد کے لیے جو تاریخی پنڈال یا میلہ سجایا گیا تھا اور مودی کو امید تھی کہ وہ ٹرمپ کا سر سہلا کر ان کا بھیجا کھا سکتے ہیں لیکن ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہیں جو نقصان کا سودا نہیں کرتے، پاکستان دہشتگردی کے خلاف ٹھیک کر رہا ہے کہہ کر انھوں نے مودی اور ان کے حواریوں کا منہ بند کر دیا اور ان کی ترکیبیں جو انھوں نے ٹرمپ کو بنانے کے لیے بُنی تھیں ساری پانی ہو گئیں۔ بھارت کے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب بھی امریکی صدر بھارت کا دورہ کرتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسی پلاننگ کی جاتی ہے کہ دورے کو ناکام بنایا جائے ماضی میں بھی اس طرح ہو چکا ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنے منہ میاں مٹھو۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت جا کر اپنے حصے کی داد عوام سے وصول کر لی اور ان کے سپنے چکنا چور کر دیے جس میں انھوں نے اپنے اوپر ان کی جانب سے عائد ٹیکسز کی چھوٹ اور تجارتی معاہدوں کو دیکھا تھا جس نے بھارت کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا تھا۔
آیندہ وقتوں میں بھارت کے نقشے میں کس طرح تبدیلی دیکھی جائے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ انسان اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتا ہے پھر بھی کئی بار اسی شاخ کو کاٹنے پر جت جاتا ہے جس پر اس کا بسیرا ہو۔ نریندر مودی میں ایسا کچھ تو ہے جسے ہم نہیں جان سکتے لیکن جنھوں نے اسے اتنا بڑا عہدہ دیا وہ تمام اسباب وہی جانتے ہیں کہ سب کچھ ان کا ہی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔