بہتری کے راستوں کی تلاش

نصرت جاوید  بدھ 27 نومبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جن قوموں کو اپنی سلامتی اور بقاء کی حقیقی معنوں میں فکر ہوتی ہے اس کے سیاسی ہی نہیں دوسرے شعبوں کے نمایاں افراد بھی بہت غور وخوض کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی حکومتوں کی جو پالیسیاں ناکام ہوتی ہیں ان کے بارے میں فقط سیاپا فروشی اور لعن طعن نہیں کی جاتی۔ بڑے ٹھنڈے دل سے اس امر کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ یہ پالیسیاں ناکام کیوں ہوئیں۔ سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ’’قومی مفادات‘‘ کو ایک جامد شے نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے اپنے اقبال کی طرح ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ کی حقیقت کو دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد چند بہت ہی واضح وجوہات کی بناء پر ہماری قیادت کو احساس ہوا کہ خود کو اکبر اعظم اشوکا اور سب سے بڑھ کر برطانوی سامراج کے بنائے ’’انڈیا‘‘ کی وارث سمجھنے والی کانگریس اور اس کے سب سے متحرک اور موثر رہ نما جواہرلال نہرو کو تقسیم ہند نے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ وہ اس تقسیم کی وجہ سے قائم ہونے والے پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا تو دور کی بات ہے اس کے وجود کو بھی برداشت نہیں کر پا رہے۔ اپنے وجود اور اس کی بقاء کی فکر میں ہم اپنی دفاعی قوت کو مضبوط بنانے پر مجبور ہوئے۔ ایک نیا اور نسبتاََ پسماندہ ملک ہوتے ہوئے پاکستان کے پاس وہ وسائل موجود نہ تھے جن کی بنیاد پر اس کے تحفظ کے لیے ایک ناقابلِ تسخیر دفاعی حصار تعمیر کیا جا سکے۔

ہماری خوش بختی کہ اس وقت دُنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی تھے اور دوسری طرف سوویت یونین اور اس کا کمیونسٹ بلاک۔ ہم نے امریکی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور بالآخر غازی ضیاء الحق کی قیادت میں ’’افغان جہاد‘‘ کے ذریعے سوویت یونین کو توڑ کر اپنی اہمیت کو اجاگر کر دیا۔ ’’افغان جہاد‘‘ میں اپنی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے ہم اپنے ہی شاعر مشرق کی ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ والی سوچ بھول گئے۔ حالانکہ یہ وقت تھا کہ جب ہمارے سیاسی اور عسکری رہ نما قوم کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر مسلسل غور و فکر کرتے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ ’’سردجنگ‘‘ کے بعد نمودار ہونے والی حقیقتوں کی روشنی میں اپنی بہتری اور بقاء کے راستے کس طرح تلاش کیے جائیں۔ ہم نے ایسا نہ کیا اور اب اس غفلت کی سزا بھگت رہے ہیں۔

امریکا بھی سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد دنیا کی واحد سپر طاقت ہونے کے گھمنڈ میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اپنی بالادستی کے اس گھمنڈ میں اس ملک کے عوام نے نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی جسے ’’امریکی صدی‘‘ بھی کہا جانے لگا تھا صدر بش کو اپنا صدر منتخب کیا۔ اس کے صدر بنتے ہی سوویت یونین کو توڑنے والے ’’سچے مجاہدوں‘‘ کے ایک گروہ نے نائن الیون کر دیا۔ امریکا نے پوری رعونت کے ساتھ اس کا بدلہ چکانے کے لیے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں جب طالبان کی حکومت ختم ہو گئی تو امریکا کا غصہ ٹھنڈا ہو جانا چاہیے تھا۔ صدر بش اور ان کے ساتھی مگر افغانستان کو ایک ایسی ’’نئی قوم‘‘ بنانے میں مصروف ہوگئے جو سیاسی اور ثقافتی حوالوں سے فرانس یا جرمنی جیسا معاشرہ نظر آئے۔ افغانستان میں Nation Building ایک احمقانہ خیال تھا۔ برطانوی سامراج نے اس حماقت کو پہلی افغان جنگ میں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد بڑی ہوشیاری سے دریافت کر لیا تھا۔ سوویت یونین کے میخائیل گورباچوف کو بھی اس حماقت کا ادراک بہت دیر کے بعد ہوا۔ ایسے تاریخی حوالوں کے ہوتے ہوئے بھی امریکا اگر ایک احمقانہ مشن میں مشغول ہو گیا تھا تو اس پر ڈٹا رہتا۔ مگر افغانستان میں ایک ناممکن دکھنے والے مشن کے ہوتے ہوئے بھی وہ عراق پر چڑھ دوڑا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بیان کرنے کی اس وقت ضرورت نہیں۔

فی الوقت تو میرا مقصد آپ سے بس یہ التجا کرنا ہے کہ خدا کے لیے یہ دریافت کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے کہ اوباما کو صدر منتخب کرنے کے بعد وہاں کی فیصلہ ساز اشرافیہ نے اپنی تازہ ترین غلطیوں پر انتہائی غور و فکر کے بعد کیا نتائج اخذ کیے اوران کے نتیجے میں وہ کونسی نئی پالیسیاں بنائیں جن کے نتائج اب ہمارے سامنے بتدریج کھل کر ہمیں حیران کر رہے ہیں۔

ایک اخباری کالم میں اس سارے فکری عمل کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ اس کے لیے تو شاید ایک کے بجائے کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے۔ صرف چند نمایاں نکات ہیں جنھیں بس سرسری طور پر بیان ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ان نکات میں سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ امریکی اشرافیہ اس بات پر بہت پریشان ہو کر بڑا غور کرتی رہی کہ دنیا بھر کے مسلمان اس سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے وہاں کی اشرافیہ نے نتیجہ یہ نکالا کہ مسلمانوں کی نفرت کی اصل وجہ امریکا کی اسرائیل سے ضرورت سے زیادہ دوستی ہے۔ یہ دوستی مسلمانوں کو اس وقت مزید تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے جب ’’جمہوریت اور انسانی حقوق‘‘ کا اپنے تئیں چیمپیئن بنا امریکا مشرقِ وسطیٰ میں ہر اس حکومت کا بھرپور ساتھ دیتا ہے جو اپنے شہریوں کو ریاستی جبر کے ذریعے غلام بنائے رکھتی ہے۔

’’اسرائیل کے تحفظ‘‘ کے ساتھ ہی ساتھ امریکا ان جابر حکومتوں کا ساتھ دینے کو اس لیے بھی مجبور تھا کہ وہ اور اس کے اتحادی اپنی معاشی بقاء کے لیے وہاں موجود تیل اور گیس کے ذخائر پر بے بسی کی حد تک انحصار کرنے پر مجبور تھے۔ ایسے بے بس انحصار کے توڑ کے لیے اوباما حکومت نے پوری تن دہی سے Fracking نام کی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔ اس کی وجہ سے تیل کی پیداوار اب بہت آسان ہو گئی ہے اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ صرف دو سال بعد یعنی 2015ء میں امریکا تیل درآمد نہیں بلکہ برآمد کرنے والا ملک بن جائے گا۔ تیل کے مسئلے کا اپنے طور پر حل ڈھونڈنے کے بعد امریکا نے کمال ہوشیاری سے نیٹو کے ’’واحد مسلم رکن‘‘ ترکی کو عرب دنیا کا ’’تھانیدار‘‘ بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس ملک کی ’’اسلامی حکومت‘‘ نے اس ’’تھانے داری‘‘ کو خلافتِ عثمانیہ کی یاد میں بڑے جوش سے قبول کیا۔ ترکی کی مناسب پشت پناہی کے بعد اوباما نے اپنے انتہائی قابل اعتماد مشیروں کو خاموشی سے ایران کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی راہیں ڈھونڈنے میں مصروف کر دیا۔

اس حوالے سے اس کی سب سے زیادہ مدد ان بھارتی نژاد امریکی دانشوروں نے کی جو  بہت عرصے سے انتہائی خاموشی مگر لگن کے ساتھ امریکی یونیورسٹی اور انتظامیہ میں اپنا مقام بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس وقت امریکی وزارتِ خارجہ میں جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطی کے ساتھ تعلقات کو طے کرنے والے دونوں دفاتر کے سربراہان بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ ان میں سے ایک پنیت تلوار نے ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے پورے 6 ماہ تک کام کیا۔ 2014ء کی آمد کے ساتھ ہی اب ’’امریکا ۔ ایران بھائی بھائی‘‘ جیسی فضاء بن رہی ہے۔ ہم بھول چکے ہیںکہ ایران بھی افغانستان کا ہمسایہ ہوتا ہے اور ہرات ان دونوں کو ویسے ہی ملاتا ہے جیسے چمن اور طورخم ہمیں افغانستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ امریکا۔ایران معاہدے کے بعد طورخم کو افغانستان کے لیے PTIکے کارکنوں کے ذریعے بند کروانے کی کوشش اس تناظر میں محض ایک خودکش جنونی حرکت ہے۔ مگر ہماری سیاسی اور عسکری اشرافیہ اور قومی غیرت پر سیاپافروشی کرنے والے اینکرز اس کے بارے میں سفاکانہ حد تک غافل ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔