میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا

مقتدا منصور  بدھ 27 نومبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

شاعر نے کہا تھا کہ:

جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی

اس دور کے حاکم سے کوئی بھول ہوئی ہے

یہاں تو نصف صدی سے صرف غریبوں کی کمائی ہی لٹ رہی ہے۔اہل ثروت تو روزاول سے عیش وعشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔بلکہ گزشتہ30 برسوں کے دوران تو غریب، غریب تراور امیر، امیر تر ہوا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ وطن عزیز کے لیے جان بھی غریب دیتا ہے۔اسلام کے نام پر خود کش حملوں کا نشانہ بھی غریب بنتا ہے۔ محلوں،شاہراہوں اور بازاروں میں مسلح لٹیروں کے ہاتھوں لٹتا بھی وہی ہے ۔ہر ٹیکس اس کی گردن پراورہر یوٹیلٹی بل کی ادائیگی اس کی ذمے داری۔مگر پھر بھی وہ معزز نہیں ہے۔ معزز اور قابل احترام وہ قرار پاتے ہیں، جو بینکوں کے اربوںکروڑوں کے قرضے ہڑپ کرجائیں،بجلی، گیس ،پانی،غرض کہ ہر یوٹیلٹی کی چوری جن کا وطیرہ ہے اور ٹیکسوں میں ہیر پھیر جن کی مہارت کہلاتی ہے ۔ غریب جس پولیس کی تنخواہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے اداکیے گئے ٹیکسوں سے دیتا ہے،وہ اس کی حفاظت کے بجائے ان وزراء، سفراء اور اراکین اسمبلیوں کے تحفظ پر مامور رہتی ہے، جنہوں نے ٹیکس کے نام پر کبھی دمڑی بھی قومی خزانے میں جمع نہیں کرائی۔ گویا عجب طرفہ تماشہ ہے کہ یہ ملک غریبوں اور بے وسیلہ لوگوں کے لیے جہنم اور بااثر و بدعنوان اور جرائم پیشہ افراد کی جنت بن چکاہے۔

اب جہاں تک حکمرانوں کی بھول کا تعلق ہے،تو کسی ایک کی بات ہو تو صبرکرلیں۔یہاں تو روزِ اول ہی سے سوائے بھول اور غلطیوں کے حکمرانوںسے اور ہوا ہی کیا ہے۔البتہ عوام کو بیوقوف بنانے اور ان کی کمائی کو لوٹنے میں ہر طرح مستعدی اور چوکسی کا مظاہرہ ضرورکیا ہے۔ابن صفی مرحوم نے لکھا تھا کہ دعوے ہمیشہ بزدل کیا کرتے ہیں۔ مگرہم نے جب سے ہوش سنبھالاہے، حکمرانوں اور رہنمائوں کو سوائے دعوے کرنے کے کچھ اور کرتے نہیں دیکھا۔ اس پر طرہ یہ کہ اپنی نااہلی  چھپانے کے لیے ہمیشہ عوام کوکسی نہ کسی جذباتی مسئلے میں الجھائے رکھتے ہیں۔چلیے مذہب کے نام پرجداگانہ ملک بنالیا، اس کے بعد تو ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنا چاہیے تھیں؟ مگریہ ہونہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ نہ ہم دین کے رہے اور نہ دنیاکے ہوسکے۔دین کے کسی معیار پہ اترتے ہیں نہ دنیا کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جمہوریت، وفاقیت اور حکمرانی میںعوام کی حقیقی شرکت سے انکار نے اندرونی خلفشارمیں مبتلا کردیا۔جب کہ مذہب کے نام پرپوری دنیا سے محاذ آرائی کی سوچ نے عالمی تنہائی کا شکار کردیا۔ مگراس کے باوجود حکمرانوںکی آنکھوں پر چڑھی چربی کی دبیز تہیں پگھلنے کا نام نہیں لے رہیں۔

یہ ملک جو مملکت خداداد کہلاتا ہے،اس کی تاریخ کے ابواب بھی عجیب ہیں۔اسٹبلشمنٹ کی اس  چابکدستی کوکیا نام دیا جائے ،جس نے بانیِ پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو قیام وطن سے تین روز پہلے ہی سنسر کرکے نئے ملک پر اپنی بالادستی کا پیغام دیدیا تھا۔ اس تاریخی حقیقت کو کس طرح جھٹلایا جائے کہ قائد کی زندگی میں کسی کو قراردادِ مقاصد پیش کرنے کی جرأت نہیں ہوئی لیکن ان کے انتقال کے فوراً بعد اسے دستور ساز اسمبلی سے منظور کرا لیاگیا۔ اس کے مسودے کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل مزید تھیوکریٹک بنانے کے لیے جیل میں قید ایک مذہبی رہنماء سے حسب خواہش ترمیم و اضافہ کرایا گیا۔تاریخ کے اس سیاہ باب کو کیا عنوان دیا جائے کہ وہ لوگ جو1946ء تک یونینسٹ پارٹی کے جھنڈے تلے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے،قیام پاکستان کے بعد اس ملک کے سپید وسیاہ کے مالک بن بیٹھے۔وہ بنگالی عوام جن کی جدوجہد کے طفیل یہ ملک معرضِ وجود میں آیا،اپنی حب وطنی کے اظہار کے لیے ان کے سرٹیفیکٹ کے محتاج رہے۔یہ کیا کم حیرت کی بات ہے کہ اس ملک کی پہلی کابینہ میں وزارت قانون ایک ہندو جگندرناتھ منڈل،جب کہ وزارت خارجہ قادیانی سرظفر اللہ چوہدری کے حصے میں آئی۔یوں اپنے قیام کے وقت وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنے والی ریاست محض 66 برس بعد تنگ نظری کی ایک ایسی دلدل میں پھنسی ہے، جس سے نکلنا محال ہے۔یہی وہ معاملے اور متضاد رویے ہیں جن کی بدولت وہ ملک جس نے اپنے قیام کی پہلی دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی کا ریکارڈ قائم کیاتھا، رفتہ رفتہ مضمحل ہوتے ہوئے بدحالی کی بدترین تصویر بن چکاہے۔

آج پاکستان جن مسائل و مصائب کا شکار ہے، وہ ان غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جن کی مسلسل ناکامیوں کے باوجود منصوبہ ساز اس پر اصرار کررہے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں اور سیاست کے میدانوں میں ہے کوئی، جو ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ قومی مسائل کی ترجیحات کا تعین کرسکے۔ جرأت مندی کے ساتھ کہہ سکے کہ بیشک امریکا کی حد سے بڑھی ہوئی کاسہ لیسی ہمارے قومی وقار کے لیے ایک مسئلہ ضرور ہے، لیکن سب سے بڑاچیلنج دہشت گردی ہے، جس کا کسی بھی طورڈرون حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس مسئلے پر صرف سیاست گردی ہورہی ہے۔حالانکہ ڈرون ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ان کی زد میں  10 فیصد سے بھی کم غیرمتعلقہ افرادآئے ہیں۔وزارت دفاع کے اعدادوشمار سے بھی اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ دہشت گردی ،توانائی کے بحران،امن و امان کی مجموعی ابتر صورتحال اورٹیکسیشن کا فرسودہ نظام سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ گزشتہ 8برسوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری تو کجا ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل ہورہاہے۔جس کی وجہ سے بے روزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔مگر یہ بات نہ مولانا کی سمجھ میں آرہی ہے نہ مسٹر کی۔دونوں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے ڈرون حملوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر فکری ابہام پیدا کررہے ہیں،جب کہ قاتلوں کو شہید قرار دے کر ان سے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ جس سے  عوام کے درمیان تصادم کی ایک نئی راہ ہموارہورہی ہے ۔نتیجتاً ملکی سالمیت اور بقاء کے ان گنت مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔

ایران آج 34برس بعد امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات درست کررہاہے۔کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ عالمی برادری سے بگاڑ کر دنیا میںبقاء ممکن نہیں ہے۔اس نے دانش مندی کا ثبوت دیا، آم بھی لے لیے اور پیڑبھی بچالیے۔یہی کامیاب ڈپلومیسی ہے۔مگر ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔میری سمجھ میںتو یہ بات بھی نہیں آرہی کہ ایک مذہبی جماعت امریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت زیادہ رطب اللسان ہے۔وہ امریکا سے تعلقات کے فوری خاتمے کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ وہ جماعت ہے،جو کل تک سوویت یونین کے خلاف جنگ میںامریکا کا ہراول دستہ بنی ہوئی تھی،آج امریکادشمنی پرکیوں آمادہ ہیں؟ یہ منطق بھی حلق سے نہیں اتر رہی کہ 1980ء کے عشرے میں افغانستان میں امریکی مداخلت اگر برحق تھی،تو اب کفرکی علامت کیسے بن گئی؟مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر آمریت بری ہے، توان جماعتوں نے جنرل ضیاء کی آمریت کو شرف قبولیت کیوں بخشی؟ جنرل پرویزمشرف کی سترھویں ترمیم کی منظوری میں کلیدی کردار کیوںادا کیا؟اور اب کس بنیاد پر اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں؟

مجھے تو اپنے ان صحافی اور اینکردوستوں کی لاف گزاف بھی سمجھ میں نہیں آرہی،جو پرویز مشرف کو تو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، مگر بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے ہر جرنیل کو معصوم اور بے گناہ سمجھتے ہیںاور انھیں عدالت کے کٹہرے تک میں لائے جانے کے مخالف ہیں۔جب کہ اکتوبر 1999ء اور 3نومبر2007ء کے اقدامات میںان سب کی شمولیت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ کچھ صحافی،اس قدر عالم وفاضل ہوچکے ہیں کہ انھیں ڈاکٹر پرویز امیر علی ہود بھائی جیسا عالمی سطح پرتسلیم کردہ سائنسدان اوردانشورجاہل نظر آتا ہے۔ وہ خود کو حق و انصاف کی علامت اور صحافتی اقدار کے امین کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر جنرل ضیاء الحق کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہوئے صبح شام پرویز مشرف پر تبرہ بھیجتے ہیں۔ کیا یہ صحافتی اقدار کے مطابق ہے اور کیا یہ لسانی عصبیت نہیں ہے؟اس کا فیصلہ خود وفاقی دارالحکومت میں بیٹھے صحافی کریں۔ مگر شاید مصلحتیں یہی ہیں۔انھی مصلحتوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔1971ء میں ہم نوجوان تھے،لیکن اس وقت ہمارا وجدان بتارہا تھا کہ حکومت اور اس کی بغل بچہ تنظیمیںبنگالیوں کے ساتھ جو زیادتیاں کررہی ہیں،اس کے نتیجے میں کچھ ہونے کو ہے۔مگر کسی نے دھیان نہیں دیا۔اب ڈھلتی عمر ہے،مگر پھر وہی مسائل درپیش ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں ۔آج پھر کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگ رہی۔خدا نہ کرے جو کچھ 41برس پہلے دیکھا ،یہ آنکھیں پھر وہی منظر دیکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔