ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟

عابد محمود عزام  بدھ 27 نومبر 2013

عالم اسلام پر چھائی ظلم و ستم کی تاریک رات اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ قریب و دور کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ چہار سو خوف و ہراس کا بسیرا ہے۔ ہر طرف موت رقص کرتی دکھلائی دیتی ہے۔ ہر جانب گولیاں، بم دھماکے، بارود اور لاشے ہیں۔ کہیں ہم خود ہی خود کو قتل کر رہے ہیں اور کہیں دشمن کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک قتل کرنے والا کوئی بھی ہو لیکن قتل ہونے والے ہم ہی ہیں۔ شام کو ہی لے لیجیے! مارچ2011ء کے بعد سے اب تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ 22 لاکھ سے زاید شامیوں نے اس دوران ہمسایہ ممالک میں پناہ لی ہے جب کہ ساڑھے 42 لاکھ شامی ملک کے اندر ہی مجبوراً نقل مکانی کر چکے ہیں۔ شام میں انسانیت زندگی کو ترس رہی ہے۔

کوئی نہیں جانتا کی کس موڑ پہ موت آ دبوچے۔ ایک ہی ملک کے باسی ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ کوئی بھی نہ تو ہار ماننے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی امن کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں جانب موت کے سوداگر ہیں۔ جو شام سے انسانیت کو نیست و نابود کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اپنی جنگ کوئی بھی نہیں لڑ رہا، دونوں جانب لڑانے والے دشمن ہیں۔ اسلحہ دشمن فراہم کرتا ہے اور لڑتے یہ خود ہیں۔ جی ہاں! دشمن کے اسلحہ و بارود کے ساتھ اپنے ہی ملک کے باسیوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اپنے ہی ملک کے شہروں اور بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے۔ دوسرے کی جنگ لڑنے والے یہ عاقبت نااندیش مسلح جنگجو تعصب و نفرت میں اس قدر آگے جا پہنچے ہیں کہ اپنے مخالفین کے علاقے میں بنی ہوئی عبادت گاہوں کو بھی نہیں بخشتے۔ لیکن اب تو معاملہ اس سے بھی بہت دور جا چکا ہے۔

شام میں اغیار کی جنگ لڑنے والے ظالم و سفاک جنگجو اب تو معصوم بچوں کو بھی اپنے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان بچوں کی اموات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ شام میں فریقین کی لڑائی میں مارے جانے والے بچوں کی خوفناک حد تک تعداد کا اندازہ چند روز قبل منظر عام پر آنے والی ’’برطانوی تھنک ٹینک آکسفرڈ ریسرچ گروپ‘‘ کی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق شام میں مارچ 2011ء سے اگست 2013ء تک 11420 شامی بچے جنگ کی بھینٹ چڑھا کر قتل کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سے 389 کو نشانہ بازوں نے دور مار بندوقوں سے قتل کیا ہے اور تقریباً 764 کو فوری موت کا حکم نامہ سنایا گیا اور ایک سو کے قریب بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ درندگی کی انتہا دیکھیے کہ لڑائی کے دوران مارے جانے والے ان بچوں میں ایک اور دو سال کی عمر کے بچے بھی شامل تھے، جن کو درندہ صفت جنگجوئوں نے انتہائی سفاکیت کے ساتھ ہمیشہ کی نیند سلا دیا اور قتل کرنے سے پہلے ان بچوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، تشدد کے ذریعے قتل کیے جانے والوں میں ایک سالہ بچے بھی شامل تھے۔ جب کہ زیادہ تر بچوں کی موت بموں یا شیلنگ میں ہوئی ہے۔

رپورٹ کی شریک مصنفہ ’’ہانا سلمیٰ‘‘ کا کہنا ہے کہ جس طرح سے بچوں کو قتل کیا گیا ہے، وہ پریشان کن ہے۔ ان کی موت گھروں میں ہوئی اور قتل کیے جانے والے بچوں کی اکثریت روز مرہ کے کاموں میں مشغول تھی۔ جیسے کہ روٹی کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے ہونا، اسکولوں میں جاتے ہوئے یا اسکولوں میں پڑھتے ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کو حتمی نہ تصور کیا جائے۔ یہ اعداد و شمار نامکمل ہیں کیونکہ ایسے علاقوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جہاں تک رسائی ممکن نہ ہو سکی اور ان علاقوں میں بچے کافی زیادہ تعداد میں قتل کیے گئے۔ یہاں انتہائی قابل حیرت بات یہ ہے کہ اپنی جنگ میں بچوں کو کیوں جھونکا گیا ۔ حالانکہ بچے تو کسی کے ساتھ لڑ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی جنگ میں کسی کا ساتھ دے سکتے ہیں اور خصوصاً ایک دو سال کے بچے تو بالکل معصوم ہوتے ہیں جو اپنی توتلی زبان کے ساتھ اگر کسی سے بات بھی کریں تو ان پر سب کو ہی پیار آ جاتا ہے۔ بچے تو کسی دشمن کے ہوں یا پھر اپنے، سب قابل رحم ہوتے ہیں۔

بچے تو خدا تعالیٰ کے گھر کے پھول ہوتے ہیں اور ان پھولوں کو مسلنے کا سلسلہ صرف شام تک ہی محدود نہیں بلکہ سرزمین مقدس فلسطین میں بھی بچوں کو اسی درندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینی بچے، مظلومیت کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں، یرغمال ہونا، قید ہونا، حتیٰ کہ قتل ہونا، معمول بن چکا ہے۔ فلسطینی بچے جن کو تحفظ دینے کی بجائے صیہونی صرف ان کی زندگی کا سکون ہی نہیں چھینتے بلکہ پوری زندگی چھین لیتے ہیں۔ ایک فلسطینی ’’جیہان عبداللہ‘‘ لکھتا ہے: ’’سیکڑوں فلسطینی بچے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہر سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر تے ہیں، معصوم بچے اکثر خوف و ہراس کی وجہ سے راتوں کو کپڑے گیلے کر دیتے ہیں، اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں، چیخ و پکار کرتے ہیں۔‘‘ ملٹری کورٹ کے پراسیکیوٹر کے بیان کے مطابق اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی وہ نسل جو ابھی پوری طرح 12 سال کی عمر تک نہیں پہنچی یا 13 سال کی عمر کو پہنچ رہے ہیں، اسرائیلیوں کی طرف پتھر پھینکنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے۔ پتھر پھینکنے کے جرم میں کل آبادی کا 98% جیلوں کے لاک اپ میں بند کیے جاتے ہیں اور یہ کہ ان بچوں پر مقدمات ملٹری کورٹس میں چلائے جاتے ہیں اور سرسری سماعتوں کے ذریعے ان کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ان تمام قیدی بچوں کا رہائی کے بعد طرح طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا، اسرائیلی درندوں کے خوف و ہراس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء کے بعد سے صرف بارہ سال میں 8000 سے زاید فلسطینی بچے مغربی کنارے سے پکڑے گئے، کچھ قتل کر دیے گئے اور کچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے۔

جنگ زدہ تمام مسلم ممالک میں بچوں کے ساتھ شام اور فلسطین کے بچوں سے مختلف سلوک نہیں کیا جاتا، جو سراسر انسانیت کے خلاف ہے۔ انتہائی افسوسناک بات تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں انسان نے بہت ترقی تو کر لی ہے اور وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ انسانی اصولوں کی پاسداری نہ کر سکا۔ حالانکہ قدیم ادوارِ جہالت میں بھی جب جنگیں ہوتی تھیں تو بچوں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا اعلان کیا جاتا تھا، چہ جائیکہ انھیں قتل کیا جائے، لیکن چونکہ اب ’’تہذیب و تمدن‘‘ کا دور دورہ ہے، دنیا عالمی ’’دیہات‘‘ بن چکی ہے۔ آج کے انسان نے ماضی کے ’’جاہل‘‘ اور ’’اجڈ‘‘ انسان سے اپنا پیچھا چھڑا کر ترقی کی تمام حدود تو پار کر لی ہیں، لیکن یہ ترقی آج کے انسان کو یہ نہ سکھا سکی کہ اپنی جنگ کی سزا بچوں کو نہیں دیا کرتے۔ ان پھول سے بچوں کو مسل کر ہمیشہ کی نیند سلانے والے روز قیامت کیا جواب دیں گے جب یہ مقتول بچے اپنے ہاتھوں میں اپنے قاتلوں کا گریبان پکڑ کر پوچھ رہے ہوں گے : ’’ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔