صرف تبدیلی ہی حقیقت ہے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 7 مارچ 2020
barq@email.com

[email protected]

پشاور ٹی وی سینٹر میں ہمارے پاس ایک حضرت ہوتے تھے جو حضرت سے زیادہ ’’چیز‘‘ کے زمرے میں آتے تھے کسی نہ کسی طرح جگاڑ کرکے بطور اسکرپٹ پروڈیوسر بھرتی ہوگیاتھا لیکن جگاڑ کے علاوہ اسے کچھ بھی آتاجاتا نہیں تھا چنانچہ جب بھی کوئی نیا جی ایم آتا تھا تو اس کے خاندان کو لے کر اپنی بے پناہ تحقیق سے شاہی گھرانا  بنا دیتاتھا اور جب بھی موقع ملتا اس خاندان کے تاریخی کارناموں کے حوالے دیتاتھا۔

ہم بھی اس کی صحبت میں رہے ہیں اور پھر یہ توہم بتا چکے ہیں کہ اکیڈمیوں اور قانون نافذ کرنے والوں سے اسناد لے چکے ہیں اس لیے جب بھی کوئی لفظ سامنے آتا ہے ہم اس کی تحقیق میں لگ جاتے ہیں۔ موجودہ ریاست مدینہ میں ویسے تو اور بھی بہت کچھ ہمارے زیرتحقیق ہے لیکن فی الحال اس آئٹم گرل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں جس کانام’’تبدیلی‘‘ہے۔

اور آپ یہ سن کر یا پڑھ کر حیران پریشان اور انگشت بدنداں بلکہ ناطقہ سربگریباں ہوجائیں گے کہ دنیا میں بلکہ کائنات میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جو’  ’تبدیلی‘‘سے شروع نہ ہوتی ہو یا تبدیلی پرختم نہ ہوتی ہو اور اس کے درمیان میں بھی تبدیلیاں ہی تبدیلیاں بھری ہوتی ہیں اور تبدیلیوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں بھرا ہوتا۔اپنی بات کی تائید میں سب سے پہلے توہم علامہ اقبال کا حوالہ پیش کریں گے جو اس تبدیلی کے آفریدہ گار ہیں جو ان کے ایک خواب پرمشتمل اور تعبیرہے۔خواب کے بارے میں توہم فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے کسی اور وقت پرتحقیق کریں گے کہ انھوں نے یہ خواب کب اور کہاں دیکھا تھا۔یہ سب بعد میں کسی وقت تحقیق کریں گے، فی الحال ’’تبدیلی‘‘ جس کو ’’تغیر‘‘بھی کہتے ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک’’تغیر‘‘کوہے زمانے میں

اس شعر اور اس کے اندر کے فلسفے پرغور کرنے سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ یہ جو پاکستانی لوگ ’’سکون‘‘کوترس رہے ہیں یہ بھی اس خواب بلکہ اس ’’تغیر‘‘یا مسلسل تغیر یا تبدیلی کا نتیجہ ہے جب سکوں محال اور ہرطرف تغیر ہی تغیراور تبدیلی ہی تبدیلی ہے تو کسی بھی چیز میں، مہنگائی میں، روپیہ میں، نرخوں میں، محکموں میں، وزیروں مشیروں میں، دفتروں میں، گھروں میں، بازاروں میں ،گلیوں اور چوباروں میں یہاں تک آلو پیاز ٹماٹر میں، آٹے گھی دالوں میں ’’سکون‘‘تلاش کرنا؟ہے نا احمقوں کا کام۔ جب خواب کے دیکھنے والے نے کہہ دیا کہ ’’سکوں محال‘‘اور ’’ثبات‘‘ صرف تغیراور تبدیلی کوہے تو بات ہی ختم ہوگئی۔علامہ نے تبدیلی کو مزید ہمہ گیر بنانے کے لیے ایک اور دلیل بھی دی ہے

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

اور جب بھی تبدیلیاں ہی گزر رہی ہوں تغیر کا دورہ ہو تو اس فیکون میں سکون ڈھونڈنا کسی مجنون کا مضمون ہوسکتا ہے۔اور تو اور تمام دنیا کے لیے دانش وعقل کے سرچشمے جاری کرنے والے یونان اور وہاں کے ان تمام دانشوروں سے بھی یہ دانش برآمد ہوئی ہے کہ تبدیلی ہی سب کچھ ہے اوریا یہ کہ تبدیلی ہی کانام کائنات اور کائنات کانام تبدیلی ہے ان تمام یونانی دانشوروں کے دم قدم سے دنیا میں تبدیلی کی اتنی قسمیں ہوچکی ہیں کہ صرف تبدیلی ہی کی خاطر ساری دنیا کے دانشور طرح طرح کی ایجادات اور اختراعات کررہے ہیں۔ یونانی دانشوروں اور تبدیلی کے علمبرداروں میں سب سے پہلے ’’ایناکسی مینڈر‘‘ نے توتبدیلی کے سمندرکو اس کوزے میں بند کیا ہے کہ تم کسی دریا میں دو دفعہ ہاتھ نہیں دھو سکتے۔

کیونکہ دوسرے لمحے وہ دریا وہ پانی بہہ چکا ہوتا ہے اور نیاپانی نیا دریا نئی تبدیلی یا ’’نیا پاکستان‘‘ ظہور پذیر ہوچکا ہوتا ہے۔اس بنیاد پر دیکھا جائے تویہ ہمارے وزیر مشیر اور کبیر ہر روز نئے نئے اور نویلے نویلے ہوتے ہیں مثلاً ہمارے وزیراعظم آج وہ نہیں جو ترسوں یا برسوں پہلے تھے۔ہم سمجھتے ہیں کہ محترمہ فردوس عاشق اعوان،شوکت علی یوسف زئی، محمود خان، فواد چوہدری، مرادسعید وغیرہ وغیرہ اور پھر وغیرہ مزید وغیرہ وہی ہیں لیکن نہیں، تبدیلی کا عمل جاری ہے ثبات ایک تغیر کوہے زمانے میں۔ارسطو نے انواع حیوانی میں ارتقاء جسے بعد میں ڈارون نے بھی فالو کیا کہ ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیلی اتنی غیرمحسوس ہوتی ہے کہ پہلے درجے اور دوسرے درجے میں فرق کرنا مشکل ہوتاہے کیونکہ تبدیلی کا پہلا درجہ دوسرے درجے سے بے حد مماثل ہوتا ہے۔ رحمان بابا نے بھی تبدیلی کے حق میں ایک استعاراتی بیان سورج کے استعارے میں بیان کیاہے کہ روز جو سورج نکلتاہے وہ نیاسورج ہوتا ہے۔

رحمان بابا کی اس بات کولے کر ایک اور دانشور نے استعارہ نکال کر سورج کے بارے میں بتایا کہ دن بھر کے سفر کے بعد جب یہ ڈیٹ ایکسپائر ہوکر فیکٹری میں پہنچتاہے تو اسے توڑتاڑکر ستارے سیارے بنا دیے جاتے ہیں جو ہرنئے سورج کے ساتھ گھومتے ہیں۔ ہمارے ایک سالک مولانا کوثر نیازی نے اسی لیے کہاتھا کہ ’’وہ‘‘سورج ہے اور ہم اس کے ستارے سیارے ہیں۔جس کی پیروڈی کرتے ہوئے حاسدوں اور منفی تنقیدیوں نے یوں بنایا کہ وہ دیگ ہے ہم اس کے چمچمے ہیں۔ لیکن یہ بھی کچھ ایسی غلط بات نہیں ہم سامنے دیکھ ہی رہے ہیں کہ پرانی دیگ کے چمچمے ہی نئی دیگ کے بھی زیراستعمال ہیں بس تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کہ تبدیلی رواں دواں اور جاری وساری ہے، جس طرح پرانے سورج کے ’’مغرب‘‘ میں ڈوبنے کے بعداس کے بنے ہوئے ستارے نئے سورج کے ساتھ ہولیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔