جانا کدھر ہے؟

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 8 مارچ 2020
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

’’ہیروں کے کھیت‘‘ رسل ایچ کانویل کی اس تقریرکا عنوان تھا جو اس نے 20 ویں صدی کے آغاز میں کی تھی رسل ایک امریکی تھا وہ مقرر تھا اور اس نے فلاڈلفیا میں ٹمپل یونیورسٹی قائم کی۔ اس کی یہ تقریر اس قدر مقبول ہوئی کی رسل کو دنیا بھر میں یہ تقریر 5000 ہزار سے زیادہ بار دہرانی پڑی۔ اس تقریر کی روح ایک چھوٹی سی داستان ہے۔

داستان کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دفعہ رسل کانویل نے دریائے تگریس کے کناروں کے ساتھ ساتھ سفرکیا تھا، یہ علاقہ عراق میں واقع ہے اس نے بغداد سے ایک گائیڈ لے لیا تھا وہ گائیڈ بربروں جیسی زبان بولتا تھا اور دریا میں سفر کرنے کا ماہر تھا اس لیے دونوں سفرکرتے ہوئے خلیج فارس تک پہنچے۔ سفر میں گائیڈ نے رسل کو ایک کہانی سنائی۔ گائیڈ کا کہنا تھا کہ یہ کہانی بالکل سچی ہے۔ گائیڈ نے بتایا کہ دریائے سندھ کے کنارے ایک بہت ہی خوبصورت اور زرخیز زمین تھی اس زمین پر ایک باغ بھی تھا اس زمین اور باغ کا مالک الحافظ تھا وہ بہت دولت مند شخص تھا اس کی ایک خوبصورت بیوی تھی اور بچے تھے وہ بہت ہی خوشگوار زندگی گزار رہا تھا۔

ایک رات اس کے گھر ایک مذہبی عالم ٹھہرا، اس نے الحافظ کو بتایا کہ زمین کیسے تخلیق ہوئی پہاڑ اور سمندر خدا نے کیسے بنائے اس کے علاوہ چاندی، سونا اور ہیرے کیسے وجود میں آئے اس کے بعد اس مذہبی عالم نے الحافظ سے کہا کہ اگر وہ چند ہیرے کہیں سے حاصل کرلے تو وہ اس کھیت اور باغ جیسے کئی کھیتوں اور باغوں کا مالک بن سکتا ہے۔

الحافظ نے جب یہ بات سنی تو اس نے بے چینی میں رات گزاری وہ جلد سے جلد اپنے اس کھیت اور باغ جسے کئی کھیتوں اور باغوں کا مالک بننا چاہتا تھا ،الحافظ نے دوسرے دن اپنا کھیت اور باغ بیچ دیا اور اپنے خاندان کو لے کر ایران، فلسطین اور مغربی ممالک کی طرف ہیروں کی تلاش میں چلا گیا دو سال گزر گئے الحافظ کئی ممالک کی آوارہ گردی میں تمام دولت خرچ کر بیٹھا اسے ہیرے تو نہ ملے مگر وہ انتہائی غربت کا شکار ضرور ہو گیا۔ ایک دن وہ سمندر کے کنارے بیٹھا تھا ایک بڑی لہر سمندر سے اٹھی اور وہ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا جس شخص نے الحافظ کا کھیت اور باغ خریدا تھا وہ شخص ایک دن کھیت میں سے گزرنے والی ندی سے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ندی میں کسی چمکتی ہوئی چیز پر پڑی اس نے وہ چیز اٹھا کر دیکھی تو وہ ایک بہت بڑے سائز کا ہیرا تھا دراصل یہ کھیت دنیا کے بہترین ہیروں کے کھیت تھے کیونکہ گوکنڈہ کی کانوں سے ہیرے بہہ کر ان کھیتوں میں آئے تھے دنیا کا سب سے بڑا ہیرا کوہ نور بھی ان ہی سے نکالا گیا تھا۔

یہ کہانی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ آپ کی قسمت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس لیے اس کو کہیں اور تلاش نہ کریں۔ آپ کو اپنی خوش قسمتی تلاش کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ نے خوش قسمتی کا بیج بویا ہے تو آپ کو یہ ضرور ملے گی خواہ حالات کیسے بھی ہوں۔ اسی اہم بات کو دنیا کے عظیم مصنفین ہوراشوالگر، نپولین ہل اور ویلس ڈی واٹلز بھی اپنی کتابوں میں لکھ چکے ہیں۔

یاد رکھیں ہم جن مقاصد کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں وہ ہمارے اپنے پاؤں کے عین نیچے موجود ہوتے ہیں ، اکثر زیادہ کے حصول کے لالچ میں آکر ہم کہیں اور نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے خواب پر یقین رکھیں اور اپنے آپ پر کلی یقین رکھیں۔ اپنے خواب ہرگز تبدیل نہ کریں اپنا خرگوش ہرگز تبدیل نہ کریں۔ اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے علی بابا ڈاٹ کام کا بانی جیک ما کرشماتی شخصیت بن چکا ہے وہ کہتا ہے ’’کہ اگر آپ کے اردگرد نو خرگوش دوڑ رہے ہیں اور آپ ایک خرگوش پکڑنے کے خواہش مند ہیں تب محض ایک ہی خرگوش پر فوکس کریں اگر آپ ان تمام خرگوشوں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے تب آپ کے ہاتھ ایک خرگوش بھی نہیں آئے گا۔

آپ جس خرگوش کا تعاقب کر رہے ہیں اگر اس کے تعاقب میں آپ کو دقت محسوس ہو رہی ہے تو آپ اپنی تدابیر بدلیں لیکن خرگوش ہرگز تبدیل نہ کریں محض اسی کا تعاقب کریں آپ کو بہت سے مواقع میسر آئیں گے۔ پہلے ایک خرگوش کو پکڑیں اسے اپنی جیب میں محفوظ کریں اس کے بعد دیگر خرگوشوں کو پکڑنے کی کوشش کریں‘‘ اکثر لوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں ’’میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں تبدیلی آجائے مگر میں نہیں جانتا کہ کیسے شروعات کروں۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خوف نے مفلوج کر رکھا ہے اسی خوف نے کہ انھیں معلوم نہیں کیا اور کب کرنا ہے ایسے لوگ عمر بھر اسی کیفیت میں رہتے ہیں اور ان کے خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتے۔ اس صورتحال کو Niagara Syndrome کہا جاتا ہے لوگ زندگی کے دریا میں بغیر سوچے سمجھے چھلانگ لگا دیتے ہیں انھوں نے یہ فیصلہ ہی نہیں کیا ہوتا کہ کہاں جانا ہے منزل کدھر ہے اور کون سی ہے بس حالات کے دھارے پر بہتے بہتے جب ایسی جگہ آجاتے ہیں جہاں مختلف راستے ہوں تو یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کہاں جائیں کدھر مڑیں۔

ذہن میں رکھیں وہ تین فیصلے جو آپ کی تقدیر کو کنٹرول کرتے ہیں یہ ہیں (1) آپ کے وہ فیصلے کہ آپ کو کدھر توجہ دینی ہے کہاں جانا ہے (2)وہ فیصلے کہ چیزوں یا باتوں کا آپ کے لیے کیا مطلب ہے (3) وہ فیصلے کہ آپ نے کیا کرنا ہے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے۔

یہ بھی بات ذہن میں رکھیں کہ پانچ چیزیں زندگی پر بہت اثرانداز ہوتی ہیں۔(1)۔ جذبات پر قابو۔ (2)۔جسم پر قابو۔ (3)۔تعلقات پر قابو۔(4)۔اخراجات و آمدن پر قابو۔ (5)۔وقت پر قابو۔ بس فیصلہ کریں کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور اسی پر عمل شروع کردیں اور اپنے خوابوں کو سچا کرلیں کیونکہ دنیا میں دیکھا گیا کوئی خواب ایسا نہیں ہے جو سچا نہ ہوا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔