ایشیا کپ پاکستان میں ہی کرائیں

سلیم خالق  اتوار 8 مارچ 2020
شاید کبھی کوئی ایسا مرد کا بچہ بورڈ میں آئے جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔  فوٹو؛ فائل

شاید کبھی کوئی ایسا مرد کا بچہ بورڈ میں آئے جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ فوٹو؛ فائل

’’پاکستان زندہ باد‘‘ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ چند دن قبل جب میں ایک پی ایس ایل میچ دیکھ کر قذافی اسٹیڈیم لاہور سے باہر نکلا تو شائقین کو ایسے ہی فلک شگاف نعرے لگاتے پایا، نوجوانوں کی ٹولیاں رقص کر کے خوشیاں منا رہی تھیں، اسٹیڈیم سے لبرٹی چوک تک پورے راستے شائقین کا ہجوم نظر آیا، ان کے چہروں کی رونق بتا رہی تھی کہ وہ ملک میں کرکٹ کی واپسی پر کتنا خوش ہیں، کوئی اس بات پر شاداں تھا کہ لاہور قلندرز نے آخرکار میچ جیت ہی لیا تو کسی کو بین ڈنک کے چھکوں نے باغ باغ کر دیا تھا، بدقسمتی سے یہ پوری نسل ملکی میدان ویران ہونے کے سبب ٹی وی پر میچز دیکھ کر ہی جوان ہوئی، اب متواتر کرکٹ ہونے لگی تو انھیں اپنی تشنگی مٹانے کا موقع مل رہا ہے۔

کھلاڑی بھی اپنے لوگوں کے سامنے پرفارم کرنے پر خوشی سے سرشار ہیں، یہ صرف میدان میں کرکٹ نہیں ہو رہی بلکہ پورے ملک خصوصاً میزبان شہروں میں میلے کا سماں ہے، ایونٹ کا نہ صرف پی سی بی بلکہ پاکستانی معیشت کو بھی بیحد فائدہ ہوگا، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غیرملکی کرکٹرز یہاں سکون سے کھیل رہے ہیں،وہ ایونٹ کے بعد اپنے ملک جا کر پاکستان کے بارے میں مثبت تبصرے کریں گے جس سے منفی تاثر زائل کرنے میں مدد ملے گی، ملک میں اب تسلسل سے انٹرنیشنل مقابلے ہو رہے ہیں، پی ایس ایل سے ایک بہترین پلیٹ فارم مل گیا، اب وقت آ چکا جب ہمیں کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ کی بھی میزبانی کرنی چاہیے، خوش قسمتی سے رواں برس ایشیا کپ کے ذریعے یہ خواہش پوری کرنا ممکن بھی ہے مگر افسوس پی سی بی بیک فٹ پر نظر آ رہا ہے، ایک طرف یہ باتیں سننے میں آئیں کہ آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کیلیے کوشش جاری ہے دوسری جانب خود ایشیا کپ نیوٹرل وینیو پر منتقل کر رہے ہیں۔

اس سے کیا حاصل ہو گا؟ چیئرمین احسان مانی نے حال ہی میں کہا کہ ’’اگر ہم نے اپنے ملک میں ایشیا کپ کرانے کی ضد برقراررکھی تو بھارتی ٹیم کھیلنے نہیں آئے گی‘‘، یہ کیا بات ہوئی اس طرح تو آپ کوئی ایونٹ کرا ہی نہیں سکتے، مانی صاحب کا کہنا ہے کہ ایشیا کپ چھوٹے ممالک کیلیے فنڈز جمع کرنے کیلیے ہوتا ہے تو آئی سی سی کے ایونٹس کیا خدمت خلق کیلیے کرائے جاتے ہیں، مقصد تو سب کا پیسے کا حصول ہی ہے، بدقسمتی سے یہاں ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ والا معاملہ ہے، میڈیا میں بھارتی دباؤ میں نہ آنے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ بی سی سی آئی چیف سارو گنگولی اپنے ملک میں بیٹھ کر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ’’ایشیا کپ یو اے ای میں ہوگا اور پاکستان و بھارت دونوں اس میں شرکت کریں گے‘‘ جھینپ مٹانے کیلیے پی سی بی کو کہنا پڑا کہ ہم میزبان ہیں اور ہم ہی وینیو کا فیصلہ کریں گے،اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارا بورڈ بھارت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمت نہیں رکھتا، ہمارے ملک میں ان دنوں ڈیل اسٹین اور لیوک رونکی سمیت کئی بڑے کرکٹرز موجود ہیں، پہلے بھی کئی اسٹارز کھیل کر گئے، وہ ڈنر کیلیے باہر جاتے اور شاپنگ بھی کرتے ہیں، کسی نے سیکیورٹی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا، مجھے یقین ہے کہ بھارتی ٹیم بھی اگر یہاں آئی تو اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا۔

اگر آپ کا جواز یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر انتہا پسند بھارتی ویسے ہی پاکستان میں کرکٹ ہونے پر جل بھن رہے ہوں گے وہ کیوں اپنی ٹیم کو یہاں بھیجیں گے تو چلیں ٹھیک ہے پھر کرا لیتے ہیں ایشیا کپ نیوٹرل وینیو پر، البتہ پھر اگلے برس ٹی 20ورلڈ کپ اور پھر 2023میں 50 اوورز کے ورلڈکپ کی بھارت بھی کسی تیسرے ملک میں میزبانی کرے، سب جانتے ہیں وہاں کتنی انتہا پسندی بڑھ چکی، دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم کیا گیا اس پر پوری دنیا کا میڈیا شور مچا رہا ہے، اگر دیکھا جائے تو وہاں پاکستانی ٹیم کوحقیقتاً سیکیورٹی رسک ہوگا۔

پی سی بی کو بھی چاہیے کہ ابھی سے اس حوالے سے کہنا شروع کر دے کہ ہماری ٹیم بھارت کھیلنے نہیں جائے گی، یہ آئی سی سی کا ایونٹ ہے تو وہی سوچے کہ کیا کرنا ہے، یہ کیا بات ہوئی کہ بھارتی ٹیم پاکستان کھیلنے نہیں آ سکتی لیکن ہم اپنے کھلاڑیوں کو وہاں بھیج کر خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں، مجھے یقین ہے کہ بی سی سی آئی کبھی ورلڈکپ کو اپنے ملک سے منتقل نہیں کرے گا، جب ڈالرز اپنی جیب میں آ رہے ہوں تو برا نہیں لگتا البتہ دوسرے کو ملیں تو دکھ ہوتا ہے، پی سی بی حکام باتیں بڑی کرتے ہیں مگر بھارت نوازی کا سلسلہ جاری ہے۔

میں نہیں مان سکتا کہ بورڈ حکام کو پتا نہیں تھاکہ پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب کوئی بھارتی خاتون ڈائریکٹ کر رہی ہیں، آج احسان مانی یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس براڈکاسٹنگ کیلیے قابل کریو موجود نہیں اس لیے بھارت سے بلانا پڑتا ہے، وہ یہ کیوں بھول گئے کہ گذشتہ برس کیا ہوا تھا جب بھارتی پروڈکشن اسٹاف پی ایس ایل کو درمیان میں چھوڑ کر بھاگ گیا اور ایونٹ کو جاری رکھنے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا پڑے تھے، اب بھی اگر ایسا ہوا تو کیا کر لیں گے؟ میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ صرف بھارت میں ہی پروڈکشن کریو موجود ہے۔

آپ اپنے لوگوں پر اعتماد تو کریں یا گوروں کو بلا لیں، بات یہی ہے کہ صرف میڈیا میں آ کر بھارت کو آنکھیں دکھانے کا راگ الاپا جاتا ہے حقیقت اس کے برعکس ہے، جہاں تک ایشیا کپ کی بات ہے تو اس کی میزبانی پر کافی پہلے ڈیل ہو چکی، اب صرف اسکرپٹ پر عمل کیا جا رہا ہے، بیچارے سادے شائقین کو 2040میں کسی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کا لالی پاپ تھما کر خاموش کرا دیا جائے گا، ملک میں کرکٹ کی واپسی سابقہ دور میں ہی ہو چکی تھی اب اس کاکریڈٹ لینے کے بجائے موجودہ حکام آگے کیا کرنا ہے یہ سوچیں، اتنی مشکل سے میدان آباد ہوئے ہیں اب کیوں انھیں ویران کرنے پر تلے ہیں، واضح اسٹینڈ لیں کہ بھارتی ٹیم آئے یا نہیں ہم ایشیا کپ اپنے ملک میں کرائیں گے، یا اگر ایونٹ کو منتقل کیا تو پھر ورلڈکپ بھی بھارت نیوٹرل وینیو پر کرائے، مگر میں جانتا ہوں کہ فی الحال پی سی بی میں ایسی بات کرنے کی ہمت نہیں لہذا آپ بھی صبر کریں، شاید کبھی کوئی ایسا مرد کا بچہ بورڈ میں آئے جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔