فقط تمہارا پاکستان

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 9 مارچ 2020

14اگست1947کی صبح دیگر صبحوں کے مقابل میرے لیے یوں منفرد تھی کیونکہ اْس دن کلمہ طیبہ کے نظریے سے غسل دے کر میری زمین کو قربانیوں کا امین بنایا گیا تھا ، میں بہت خوش تھا اور مجھے یقین تھا کہ غلامی کے اِن سیاہ بادلوں کے چھٹنے کے بعد جو سویرا ہوگا وہ تاریکیوں کو بھی ہمیشہ روشن رکھے گا۔

ایک طرف محمد علی جناح کی قیادت تھی تو دوسری جانب امنگوں کا سیل رواں، ایک جانب جذبوںکی کیاریوں میں سپنوں کے بیج بوئے جا رہے تھے تو دوسری جانب کونپلوں کے پھوٹنے کے انتظار میں چمن کے مالی اپنا اپنا فرض نبھا رہے تھے، پھر میں نے تم سے اْس وقت بھی شکایت نہ کی جب قائد کی آنکھیں بند ہوتے ہی مجھ سے میرا حیدرآباد چھین لیا گیا، کشمیر پر برچھیاں چلائی گئیں اورنفرت و تعصب کے ہتھیاروں سے میرا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا۔

میں نے تب بھی شکوہ نہ کیا جب بار بارمیرے ماتھے پر لکھے گئے آئین زندگی کو پامال کیاگیا ، اْسے کبھی بوٹوں تلے روندا گیا اورکبھی جوتوں تلے مسلا گیا ، کسی نے بچانے کے لیے مجھے لوٹا اور کسی نے لوٹنے کے لیے مجھے بچایا ، میں سہتا رہا ، ہر ظلم، ہر مارشل لا، ہر جمہوری تماشا اور ہر وہ تقریر جو ’’میرے ہم وطنو!‘‘ سے شروع ہو کر ’’پاکستان پایندہ باد! ‘‘ پر ختم ہوجاتی تھی۔

محبت کے ہر دعوے دار نے مجھے بھنبھوڑا، جنت نظیر کہنے والوں نے مجھے نوچا، کھسوٹا اورمیں یہ سب کچھ اِس لیے برداشت کرتا رہا کہ ’’ بوٹیاں کھینچنے والے وہی تو ہیں جنھیں ہندوؤں کی غلامی سے کھینچ کر میں اپنی آغوش میں لے آیا تھا‘‘میں نہیں جانتا کہ اِن اکسٹھ برسوں میں کوئی دن ایسا بھی آیا ہو جب مملکتوں کے ہجوم میںفخر سے سر اٹھا کر میں نے یہ کہا ہو کہ’’ میں پاکستان ہوں‘‘ البتہ ایسا متعدد بار ہوا جب سر جھکا کر میں نے اعتراف کیا کہ ’’ ہاں! میں ہی پاکستا ن ہوں‘‘ میری ہی آغوش میں وہ بچے پل رہے ہیں جو ایک دوسرے پر دشمنوں کی طرح پِل رہے ہیں، میرے ہی سائے تلے جوان ہونے والے اپنے ہی بھائیوں کو ذبح کرکے اْن کی سر بریدہ نعشوں کے ٹکڑے مجھ ناتواں کے جسم پر یوں پھیلا دیتے ہیں کہ گویا کہہ رہے ہوں ’’ اے پاکستان !ہم نے تجھے  اپنے بھائیوں کی نعشیں بچھانے کے لیے ہی توحاصل کیا تھا ‘‘ اور میں چپ چاپ لہومیں تر بتر ہو کر اپنے مرنے والوں کے لیے دو خون کے آنسو ٹپکا دیتا !

تم کیا جانو کہ درد کی آگ میں جلتا ہوں جب اپنے ہی وجود پر انسانوں کوگرتا ہوا دیکھتا ہوں،کاش کہ تم جان سکتے کہ میں آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہوں ، نفرتوں کے اِس کثیف ماحول میں اب جینا دشوارہے، فرقہ واریت نے سینہ چھلنی کر دیا ہے، مرد و عورت کی معاشرتی تقسیم نے مجھے عورت ذات پر جملے کسنے والوں سے نفرت دلا دی ہے ، چہرے کی لالی اورگلستاں کی ہریالی کسی غیر نے نہیں اپنوں نے ہی چھین لی ہے، شاید کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ ’’ اب کے غیر نہیں تھا کوئی، گھر والے ہی دشمن نکلے‘‘آنکھوں میں کتنے خواب سمو کر تمہارے لیے اپنے آپ کو سجایا تھا۔

اِس قدر جلد بھول گئے کہ کتنی قربانیوں کے بعد میں نے تمہاری خاطر اپنا آپ بنایا تھا ، تمہیں الگ گھر کی آرزو تھی، میں نے تمہارے واسطے چھت بنائی، تم اپنی مرضی سے جینا چاہتے تھے ، میں اِسی خواہش کی تکمیل کا صحیفہ بنا، تمہیں اپنے اصولوں کے باغ کی طلب تھی ، میں پھول بن کر تمہیں آزادی کی خوشبوؤں کا تحفہ دے گیا…مگر… میری ہی چھاتی پر حسد و عناد کے خنجروں سے پے درپے وار کر کے تم کن مقاصد کی تکمیل چاہتے ہو؟آدھا دیس تو گنوا بیٹھے اب کیا باقی ماندہ وطن بھی انا کے جبڑوں سے چبانا چاہتے ہو؟کیا تم اِس حقیقت کو نہیں جانتے کہ ہر شے کو فنا ہوجانا ہے ، آفتاب کا مقدر بے نور ی اور سمندرکا مقدر بے آبی ہے پھرکیوں سورج کی روشنی کو ’’ قصر برتری‘‘ میں محصور کرکے دریا کو صرف اپنے دروازے کے سامنے بہنے کا پابند کرنا چاہتے ہو؟… یہ وحشی، جنونی، بات بات پرکاٹنے مارنے والے کہاں سے پیدا ہوگئے؟مجھ میںایسی کون سی ماں بس رہی ہے جو انسان ہو کر حیوان جَن رہی ہے۔

انتہاؤں کو چھونے والے یہ کیسے بھول گئے کہ جس کی کوئی انتہا نہیںوہ سب دیکھ رہا ہے، اْس سے بھی واقف ہے جو اْس سے چھپایا گیا اور اْسے بھی جانتا ہے جواب تک بتایا نہیں گیا!… ’’طبقاتی فرق ‘‘کا سنگ بنیاد رکھنے والے آخر یہ کیسے فراموش کر بیٹھے کہ طبقے صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ جہنم میں بھی ہیں، یہاںتو طبقے اشراف کی خواہشات سے بنتے ہیں مگر وہاں اعمال خود بناتے ہیں ، تو پھر انسان کے سامنے نخوت و غرورکا مظاہرہ کرنے والے جان لیں کہ کبریائی صرف اللہ کی ہے اور سب کو لوٹ کر اْسی کی جانب جانا ہے، شایداسی لیے آنسوؤں کی جھڑیاں رکتی نہیں جب دیکھتا ہوںکہ ایک طرف سر چھپانے کے لیے معمولی پناہ گاہیں، پائپ کے ٹکڑے، فٹ پاتھوں پہ بسیرے اور تنکوں سے جٹی جھونپڑیاں ہیں اور دوسری طرف شاندار، پرشکوہ، منقش اور روشن عمارتیں ہیں۔ ایک طرف بوسیدہ، کچیلے اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں لپٹے بدن ہیں اور دوسری طرف زرنگار قباؤں میں ملبوس جسم ہیں۔

ایک طرف شکم کی آگ بجھانے کے لیے دو روٹیوں کا انتظار اور دوسری طرف قدم قدم پر آسائشوں کے انبار!…کہاں وہ معرکہ حیات میں انسانی لب و رخسار پر جلتی ہوئی دھوپ کے نشان! اور کہاں یہ پرسکون زندگی، شاداب چہرے اور سروں پر عافیت کے سائبان!…دونوں میں کوئی توازن نہیں، ایک جانب مسائل کی آگ برس رہی ہے اور دوسری طرف مراعات کی شبنم افشان میںتو اب تقریباً لٹ چکا ہوں، مجھے میرے اپنوں نے برباد کردیا اور بغض و عداوت نے میرے اندر موجود خوش حالی کے کھیتوں کو بانجھ کردیا۔ افسوس کہ سچائی کے نام پر لڑنے والوں کے پیشِ نظر بھی صرف ’’اپنی جیت‘‘ ہے اور اللہ اور اْس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر فتوے صادر کر کے مغلظات بکنے والوں کی منزل بھی’’ہم جیت گئے‘‘ جیسے نعرہ تفاخرکی صدا ہے۔

اب تو لگتا ہے کہ چند ہی سانسیں بچ رہی ہیں، سو چھین لو مجھ سے میری یہ سانسیں بھی، ڈھا دو جتنے ستم ڈھانے ہیں اور لگادو وہاں بھی زخم جہاں اب تک ستم پرستوںکی نگاہ نہیں پڑی۔ میں ٹوٹ رہا ہوں،مجھے بچالو!میرے دل و دماغ کی سوزش اْسی وقت دور ہوسکتی ہے جب میرے بچوں کے حرف شیریں بن جائیں اور گفتگو میں ٹھنڈک در آئے… دیکھو! غلطی کا اعتراف بڑی چیز ہے ، اِس سے علم کے نئے نئے دروازے کھلتے رہتے ہیں مگر جب کوئی انسان اپنی ذات کو اہمیت دینے لگتا ہے تو یہی دروازے ایک ایک کرکے بند ہوجاتے ہیں۔

یہاں تک کہ بے خبری کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا، تو کیا تم سب بے خبری کی موت مرنا چاہتے ہو؟جنون سے خون بہا کر نفرت کی آبیاری کرنا چاہتے ہو؟ مجھ پر ہی قدم جما کر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہو نا ! سوچو اگر یہ زمین ہی نہ رہی تو کہاں کھڑے رہ کر کس سے لڑو گے؟ آخر میں کب تک غیض و غضب کا بوجھ اپنے سینے پر ڈھوتا رہوں، کب تک سنتا رہوں کہ فلاں غدار، فلاں ملک دشمن، فلاں کافر اور فلاںواجب القتل ہے۔ خاکم بدہن میں ہی ختم ہوگیا تو فتوے کی یہ دکانیں کہاں کھولو گے ؟غداری اور ملک دشمنی کی سندیں کہاں سے لاؤ گے اور کسے بانٹو گے ؟ خدا کے واسطے اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانوجو تمہیں فروعات میں الجھا کر چپے چپے میں آگ لگانا چاہتا ہے ،جو میری تقسیم کے درپے ہے اور مجھے توڑدینا چاہتا ہے۔ میری دعا ہے کہ تم قیامت سے پہلے ہی سنبھل جاؤاوروقت بدلنے سے پہلے ہی صرف ایک باربدل جاؤ…!

فقط تمہار ا اپنا پاکستان

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔