قلم چہرے

رفیع الزمان زبیری  پير 9 مارچ 2020

ضیا شاہد اپنی کتاب ’’قلم چہرے‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے والوں میں سے جو نامور لوگ میری زندگی میں سامنے آئے ہیں میں نے ان پر قلم اٹھایا ہے۔ یہ سوانح عمریاں ہیں، اپنی یادوں کے حوالے سے ان کا تذکرہ ہے۔ لیکن ان شخصیتوں کے ضمن میں ان کے عہد کا جو پس منظر سامنے آیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔

ضیا شاہد کی کتاب میں پہلا خاکہ ’’لاہور کا دل‘‘ ہے۔ یہ آغا شورش کاشمیری کا خاکہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’آغا صاحب کی بہت سی کہانیاں ایسی ہیں جنھیں صرف یاد کیا جاسکتا ہے لکھا نہیں جاسکتا کیونکہ دنیا کا نرم سے نرم سنسر بھی ان کی اشاعت کی اجازت نہیں دیگا۔ تاہم ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک شریر بچہ چھپائے پھرتے تھے۔ سارے ادب، ساری شاعری، ساری مقرری، ساری سیاست ایک طرف کبھی کبھار وہ شریر بچہ باہر آجاتا تو دیکھنے والے حیران رہ جاتے۔‘‘

نسیم حجازی کا ذکر کرتے ہوئے ضیا شاہد لکھتے ہیں کہ وہ ان کے آئیڈیل تھے۔ وہ پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے جب نسیم حجازی سے ان کا قلبی تعلق پیدا ہوا۔ انھوں نے ان کی ناولیں پڑھی ہی نہیں، ان کے صفحے کے صفحے ان کو زبانی یاد تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’’نسیم حجازی کی زندگی کی داستان حقیقت میں تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کی داستان ہے اور شاید کم ہی لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہو۔‘‘

اخبار ’’مشرق‘‘ کے بانی عنایت اللہ سے وابستہ اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ضیا شاہد لکھتے ہیں ’’مجھے صحافت میں کم و بیش پچاس برس ہوچکے ہیں۔ میںبعض اخبارات کے صحافی مالکان سے بہت متاثر ہوں تاہم عنایت اللہ کو صحافت کے میدان کا جادوگر سمجھتا ہوں۔‘‘ ضیا شاہد نے عنایت اللہ کی جادوگری کے بہت سے واقعات لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’عنایت صاحب ہر وقت کام میں مصروف رہتے۔ کبھی آرٹسٹ کے سر پر کھڑے ہیں تو کبھی نیوز روم میں کاتب کے پاس بیٹھے سرخیاں لکھ رہے ہیں۔ سادگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ جدت طرازی کے وہ ماہر تھے۔ انھوں نے زندگی بھر محنت کے ساتھ ساتھ دیانتداری کو اپنایا۔ وہ ایک سچے اخبار نویس تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے اخباری منصوبے بنائے اور انھیں کامیاب کروایا۔ اقبال زبیری ان کے سب سے پسندیدہ اخبار نویس تھے وہ سب سے زیادہ ان پر اعتماد کرتے تھے اور انھوں نے ہمیشہ ان کو اپنے جانشین کے طور پر پروموٹ کیا۔‘‘

’’تذکرہ مجید نظامی‘‘ کے عنوان سے ضیا شاہد لکھتے ہیں ’’مجید نظامی مرحوم صحافت میں میرے آئیڈیل تھے۔ میں نے ہمیشہ انھیں اپنے والد کی جگہ قرار دیا۔ ان کے ادارے میں دو مرتبہ کام بھی کیا لیکن ’’نوائے وقت‘‘ سے منسلک ہونے سے بہت پہلے میں انھیں جانتا تھا۔ اکثر ملنے جاتا تھا۔ یہ میری طالب علمی اور نوجوانی کے دن تھے۔‘‘

مجید نظامی کی طبیعت اور مزاج کا ذکر کرتے ہوئے ضیا شاہد لکھتے ہیں کہ وہ خاموش طبع اور کم بولنے والے انسان تھے مگر ان کی مختصر گفتگو میں بھی اتنی کاٹ تھی کہ اکثر سننے والا ان کے جملے کے ایک ایک لفظ سے جھلس جاتا تھا۔ وہ اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی طرح اصولوں پر ڈٹ جانے والے انسان تھے۔

ضیا شاہد نے جب ’’نوائے وقت‘‘ میں ملازمت کا فیصلہ کیا اور وہ مجید نظامی سے ملنے گئے تو پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے ان کی خواہش کے مطابق میگزین ایڈیٹر کی ذمے داری انھیں سونپ دی اور پھر ان سے کہا ’’ضیا صاحب! آپ نے اخبار بند کیے، مقدمے درج کروائے اور جیلوں میں وقت گزارا۔ میں نے کبھی جیل نہیں کاٹی اور نہ جیل جانا پسند کرتا ہوں۔ قائد اعظم نے بھی کبھی جیل نہیں کاٹی تھی۔ آئین اور قانون کے اندر رہ کر جس حد تک ہو سکے اپنی لڑائی لڑتا ہوں۔ لہٰذا کان کھول کر سن لیں کہ اخبار بند کروانے سے بہتر ہے کہ جس حد تک سچ لکھا جاسکتا ہے لکھو۔ آپ نے یہاں کام کرنا ہے تو کوئی ایڈونچر نہ کرنا۔‘‘ ضیا شاہد نے جواب دیا ’’جناب! آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ میں ڈسپلن کا پابند ہوں۔ آپ جو پالیسی دیں گے اس پر سو فیصد عمل کروں گا۔‘‘

ضیا شاہد اس کے بعد ’’نوائے وقت‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر بنے۔ برسوں بعد انھیں ’’نوائے وقت‘‘ کراچی کا ریزیڈنٹ ایڈیٹر بناکر بھیج دیا گیا۔ پانچ سال یہ وہاں رہے۔ اور اب مختار مسعود۔ ضیا شاہد لکھتے ہیں ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ مختار مسعود کے بارے میں قلم اٹھاؤں گا۔ میرے گھر میں مختار مسعود کی کتابوں کے بہت سے ایڈیشن تھے۔ آواز دوست، سفر نصیب اور ’’لوح ایام‘‘ ان کی تینوں کتابیں میرے پاس ہیں۔ میری شریک سفر یاسمین کے پاس مختار مسعود کی تینوں کتابیں اپنے طور پر موجود ہیں۔ ’’آواز دوست‘‘ تو سرہانے دھری رہتی ہے اور کبھی کام کرتے کرتے تھک جاؤں تو اسے اٹھا کر پڑھنے لگتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک اہل قلم کا تعلق ہے تو بہت لوگ آئے اور بہت گئے، مگر مختار مسعود کے نصف جملے کے برابر بھی شاید کوئی لکھ سکا ہو اور نہ لکھ سکے گا۔ یہ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ زبان بولنے والا اس زمین کی مٹی کا باسی نہیں، وہ بہت اوپر ہے، بہت اوپر اور بھی اوپر۔‘‘

ضیا شاہد نے ارشاد احمد حقانی کا ذکر بڑے جذبے سے کیا ہے۔ وہ ان کے پسندیدہ کالم نویس ہی نہیں پسندیدہ شخص بھی تھے۔ حقانی کی کالم نویسی کے بارے میں ضیا کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے موضوع کا انتخاب کرتے، پھر اپنے وسیع مطالعے کی بنیاد پر اس موضوع کا مکمل احاطہ کرتے۔ ان کا تجزیہ واقعتاً بے لاگ اور ان کی زبان انتہائی شستہ اور معیاری ہوتی تھی۔ وہ دلیل کے ساتھ بات کرتے اور بہ وقت ضرورت تاریخی ریکارڈ پر اپنے استدلال کی عمارت تعمیر کرتے۔ ضیا شاہد لکھتے ہیں ’’وہ مثبت سوچ کے حامل تھے، انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ ان کا نام لیتے ہی ذہن اور چشم تصور میں ان کا شفیق اور خلیق چہرہ ابھر آتا ہے۔ میرا خیال ہے اپنی زندگی میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جسے انھوں نے نقصان پہنچایا ہو۔‘‘ سادگی اور کفایت شعاری ان کی دو خصوصیات قابل ذکر ہیں جن کا ضیا شاہد کو سفر اور حضر میں بارہا تجربہ ہوا اور ان کی حقانی صاحب سے وابستہ یادوں کا حصہ ہیں۔

خواجہ محمد سلیم یونیورسٹی اورینٹل کالج کی بی اے آنرز کلاس کو انگریزی پڑھاتے تھے۔ وہ استادوں کے استاد تھے گورنمٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے تھے۔

ضیا شاہد لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی زندگی کا ایک پہلو عشق رسولؐ میں آبدیدہ ہوجانا تھا۔ جب کبھی رسول اللہؐ کا ذکر آتا وہ کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیتے۔ کئی مرتبہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔ رسول پاکؐ کا نام لینے کی بجائے ہمیشہ میرے آقاؐ کہتے۔ تعلیم و تعلم میں وہ بار بار آپؐ کا ذکر کرتے۔ وہ علامہ اقبال کے بھی عاشق تھے۔ برسوں ان کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔ انھیں ان کے بے شمار واقعات یاد تھے جو وہ دہراتے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔