صنف نازک کی کامیابی

سعد اللہ جان برق  منگل 10 مارچ 2020
barq@email.com

[email protected]

پچھلے پسماندہ زمانوں میں ’’اقوال زریں‘‘کی پروڈکشن کا کام دانا دانشور نامی نامور اور کامی کامور لوگ یا بزرگ کیاکرتے تھے لیکن آج کے ماڈرن بلکہ الٹرامارڈن دور میں یہ کام شوبزکے اسٹاروں اور سیلبڑیز نے سنھبالا ہواہے۔ میرا، ریما، ریشم اور نہ جانے کتنی، دوسری  طرف ودیا بالن، پریانکا چوپڑا، ملکہ شراوت اور بپاشاباسو ’’اقوال زریں‘‘کے بڑے بڑے ماخذات ہیں کیونکہ ان کے اقوال صرف زریں ہی نہیں، شیریں اور رنگیں بھی ہوتے ہیں۔چنانچہ ایک پاکستانی دانشورہ نے یہ قول زریں ارشاد فرمایا ہے کہ عورت کے صنف نازک ہونے کا خیال یا تصور یا نظریہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔

مطلب یہ کہ عورت اب صنف نازک نہیں بلکہ صنف کرخت کے منصب پرفائز ہوگئی ہے اور ہم سوچ رہے کہ کیا اس سے بھی زیادہ کوئی برادن ہم پر آئے گا۔ آنے والے زمانے میں پھول کو بھی ’’بم‘‘بنایاجانے والا ہے۔ نزاکت، لطافت، حسن وخوبی تودنیا کی بڑی قیمتی صفات ہیں، اگرآپ پھول کی ٹہنی کو تلوار یا نیزہ یا بندوق بنالیں تو یہ کوئی اچھا کام ہوگا؟ تریاق کو زہر، دوا کو مرض اور زندگی دینے والے کو زہر بنادینا کارنامہ ہے؟توپھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ رب عظیم نے یہ جو منفی ومثبت کے جوڑے یا ازواج بنائے ہیں، نغوذ  بااللہ غلط بنائے ہیں اور اس کا ذکر یوں کیاہے،’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب کچھ ازواج (جوڑے) بنائے ہیں۔

ان میں بھی جو زمین سے اگتے ہیں،خود تمہارے اندر ہیں یا جن کے بارے میں تم نہیں جانتے(یسٰین)پھردوسری جگہ فرمایاہے۔اس نے سب کچھ جوڑوں میں پیدا کیاہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو(الزاریات)آخرکیوں؟منفی ومثبت کے یہ جوڑے کیوں اس نے بنائے ہیں اس لیے کہ تخلیق وتکوین اور انسانی نسل کو آگے بڑھائے اور تخلیق کاعمل جاری رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا جب دو منفی اور مثبت ازاوج آپس میں ملتے ہیں تو ایک تیسری تخلیق وجود میں آتی ہے، اگر صرف منفی ہی منفی ہوجائیں یا مثبت ہی مثبت۔اور منفی، منفی سے اور مثبت مثبت سے ملے توکچھ بھی نہیں ہوگا۔ بجلی کے منفی ومثبت جب مل جاتے ہیں تو کچھ ہوتا ہے ورنہ الگ الگ یہ کچھ بھی نہیں ہوتے اس طرح مادہ وانرجی کا جوڑا ہے۔

حیوانات کے علاوہ بے جان چیزوں کے بھی ازاوج ہیں۔ خیروشر،اوپرنیچے،اندھیرا اجالا، سیاہ وسفید، نرومادہ، غربت امارت،علم وجہالت،آگ اور پانی سب کچھ جوڑوں میں ہے جس کے لیے اس عظیم کارساز موحد، خالق اور اس کارخانہ قدرت کے آفریدہ کار نے اپنے دائرے بنائے ہیں، اپنے اپنے خواص ان میں ڈالے ہیں۔

جوتوں کے جوڑے، جرابوں کے جوڑے، آستینوں کے جوڑے، آنکھوں کانوں،ہاتھوں پیروں سب کچھ جوڑوں میں ہیں، دل ودماغ کے بھی دو دوحصے ہوتے ہیں۔کیوں؟جو یکساں نظرآتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتے ہیں چنانچہ اگرہزار مثبت بھی آپس میں ملیں توکچھ بھی نہیں ہوگا، اسی طرح منفی منفی کے ملنے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ہوگا تب جب منفی اور مثبت آپس میں ملیں گے، اب اس ازاوج کے سلسلے میں سب سے اہم ترین زوج یا جوڑا انسانی نرومادہ ہے۔کوئی بتائے کہ منفی کو مثبت اور مثبت کومنفی بنانا ممکن ہے؟اور اگرکوئی ان کو یکساں کردے تو فائدہ کیا آپ بائیں پیرکاجوتا دائیں میں کبھی پہن سکتے؟ آگ کو پانی اور پانی کو آگ میں تبدیل نہیں کر سکتے اور اگر کربھی لیں تو فائدہ کیا۔اور جوڑا کہاں گیا جس کے لیے رب نے ’’کلہا‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی خدا کی پیداکردہ ہرتخلیق اور پیدائش میں منفی مثبت کا جوڑا ہوتاہے، یہاں تک کہ ایٹم اور ڈی این اے میں یہی ازاوج کانظام چل رہاہے۔

اب آپ نے صنف نازک کوصنف کرخت بنالیا بلکہ کھلے معنی میں عورت کو مرد بنادیا۔جوممکن تونہیں لیکن آپ کا بھرم ہے تو مان لیا۔اب صنف کرخت کاکام صنف نازک نے سنبھال لیاہے تو صنف کرخت کو اس کے بدلے صنف نازک میں بدلنا ضروری ہے۔تو کیا آپ مرد یا صنف کرخت سے بچے پیدا کرسکیں گے یا اس میں بچے کے لیے دودھ بھی پیدا کریں گے۔آپ کاکارنامہ ہے کمال ہے انقلاب ہے کہ آپ نے صنف نازک کو صنف کرخت بناکر وہ تمام کام اس سے لینا شروع کردیا حالانکہ یہ بھی ایک وہم، ایک بھرم اور ناممکن تصور ہے۔کوئی بھی زوج اپنی ساخت اپنی فطرت سے اپنی جبلت سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ازواج کا کام صرف جسمانی حرکات یاکمائی تک محدود سمجھ لیا گیا اور عورت کماو ہوئی تو اس کا صنف تونہیں لیا جاسکتا۔ آپ اس میں سے آلات پیدائش آلات پرورش اور سب سے بڑی چیز مامتا کیسے نکالیں گے؟ اس المیے کی بنیاد صرف ’’کمائی‘‘ پررکھی گئی ہے جسے آج کی زبان میں کیریئر بنانا کہتے ہیں۔

کیسا کیریئر۔ کمانے کاکام۔ اسے اسی کام کے لیے ایسا ہی تخلیق کیاگیا جب کہ ماں کو بچہ پیدا کرنے اور پرورش کرنے کے لیے تخلیق کیاگیاہے۔اگرموازنہ کیا جائے تو اس کائنات میں سب سے بڑا اور اہم ترین کام یہی ہے ، زندگی اور معاشرے کی عمارت کے لیے بنیاد تیار کرنا کہ بچہ ہی انسانیت بھی ہے، قوم بھی ہے، نسل بھی اور تخلیق وتکوین کاروح رواں بھی اور آپ صنف نازک کو اتنے عظیم منصب سے ہٹاکر روزی کمانے پرلگارہے ہیں اور اس پرشرمانے کے بجائے فخربھی کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ صرف ’’زر‘‘کو سب کچھ سمجھ لیاگیاہے جو ایک المیہ ہے۔آپ نے عورت اور مرد دونوں کواپنی فطرت سے ہٹاکر ’’زر‘‘ کمانے کی مشین بنادیاہے لیکن اس کی سب سے بڑی اور انسانیت کے لیے ناگزیر صفت چھین لی۔ بچے کو پرائے دودھ پررکھ لیا اور اس کی قدرتی خوراک کو جو رب جلیل نے اس کے لیے پیدا کی ہے، اس سے محروم کر لیا ہے۔اس کو اپنی گود سے ہٹاکر نوکروں، ملازماؤں، دایاوں یعنی پرایوں کے سپردکردیاہے۔

اپنے معلم اول ہونے کا کام بھی پرائے لوگوں کو سونپ دیاہے یعنی قدم قدم پر اسے اپنی ماںاس کی مامتا اس کی محبت اور توجہ سے محروم کردیاہے کیونکہ آپ ماں کو صنف کرخت بنانے کا کارنامہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ بچہ جو اپنی ماں سے دور پرائیوں میں پلتاہوا معاشرے کارکن بنے گا تونہ وہ کسی کا اپنا ہوتاہے نہ کوئی اور اس کا اپنا ہوتاہے، اسے کمانے کے کاموں میں ڈاکٹر انجنئیرافسر تاجر وغیرہ توبنادیاہے لیکن انسان کو اس کے اندر سے نکال کرپھینک دیاہے اور جب انسان نہیں رہا تو اس سے انسانیت کو کیا مل سکتا ہے؟اور آج کل کے معاشرے میں جس کا خدا ’’زر‘‘ ہے، ساری گڑبڑ ازاوج کو اپنی اپنی فطرت سے ہٹانے اور دوسرا بنانے سے پیدا ہورہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔