اب پاکستان سے متعلق اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنا چاہتا ہوں ، عارف انیس ملک

حسان خالد / محمود قریشی  منگل 10 مارچ 2020
معروف مصنف، لائف کوچ اور انٹرنیشنل سپیکر عارف انیس ملک کا احوال زیست

معروف مصنف، لائف کوچ اور انٹرنیشنل سپیکر عارف انیس ملک کا احوال زیست

 ’میں اچھا گڈریا نہیں تھا‘

بارانی علاقے کی وجہ سے یہاں کے لوگ کاشتکاری کے بجائے ملازمت کرنے اور بھیڑ بکریاں پالنے کو ترجیح دیتے۔ اکثریت فوج کا رخ کرتی، کیونکہ ’مارشل ریس‘ کے سبب وادی سون سکیسر کے مضبوط اور جری نوجوان فوج میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ عارف انیس ملک کا جنم چار اپریل 1976ء کو اردو ادب کی ممتار شخصیت احمد ندیم قاسمی کے گاؤں (انگہ) اور خاندان میں ہوا۔ قاسمی صاحب رشتے میں ماموں لگتے تھے۔

والد فوج میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر تھے، انہوں نے برٹش اور پاکستان آرمی دونوں میں کام کیا۔ دو بہنوں اور تین بھائیوں میں منجھلے عارف انیس سکول میں اوسط درجے کے طالب علم تھے، ان کی دلچسپی کمرہ جماعت سے باہر کی دنیا میں تھی۔ کھیلوں کا شوق تھا، نہ ہی شرارتیں کرنے کا حوصلہ۔ قبائلی طرز زندگی میں لڑائی جھگڑے عام تھے، اس لیے بچ بچا کے چلنا پڑتا تھا۔ ایسے میں بھیٹر بکریاں چرانے کا خاندانی مشغلہ انہیں خوب راس آیا، جس کے دوران سوچنے اور خیالوں میں کھوئے رہنے کا وافر وقت میسر تھا۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اچھے گڈریے نہیں تھے، ان کے بقول، ’’دوسرے لوگ جانوروں کی بولیاں سمجھتے یا ان کو دیکھ کر ان کی کیفیت جان لیتے، مجھے اس کام کی اتنی سمجھ نہیں تھی، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس سے مجھے سوچنے سمجھنے کا موقع ملا۔ مجھے پوری زندگی یوں لگا ہے کہ میں ایک چرواہا ہوں، جس کی بھیٹر گم ہو گئی ہے اور وہ اسے ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔‘‘

 طلسم ہوش ربا

ان کے گھر کے ساتھ ایک خالی مکان تھا، جس کے مکین بیرون ملک منتقل ہو گئے تھے۔ ایک مرتبہ اس کی دیوار گر گئی تو عارف انیس اس گھر میں داخل ہو گئے۔ وہاں انہیں گتے کے ڈبوں کے ڈھیر نظر آئے، جن میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے زندگی میں جو پہلی کتاب پڑھی وہ طلسم ہوش ربا تھی۔ عمرو عیار، زنبیل اور امیر حمزہ کے قصوں نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

کرنل محمد خاں کی ’بسلامت روی‘ کا مطالعہ کیا۔ پھر کتابوں میں ایسے کھوئے کہ باہر کی دنیا اچھی لگنی ختم ہو گئی۔ ویسے بھی خوشاب سے ستر کلومیٹر دور پہاڑوں کے درمیان زندگی بہت سادہ تھی۔ گاؤں میں کہیں دور جانا ہوتا تو گھوڑوں پر سفر کیا جاتا۔ اکا دکا کسی کے پاس موٹر سائیکل ہوتی۔ دس، گیارہ سال کی عمر میں پہلی دفعہ سڑکوں پر گاڑیاں اور ٹرک چلتے دیکھے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان پہاڑوں کے پار بھی ایک دنیا ہے۔ یہ خیالی دنیا بھی کسی ’طلسم ہوش ربا‘ سے کم نہیں تھی۔ وہاں جا کر رہنے اور پڑھنے کے لیے ضد کرنا شروع کر دی، جس کے آگے بالآخر گھر والوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور انہیں تایا کے پاس ملتان بھیج دیا گیا۔

کریزی ڈریمز …..

پرائمری سے آگے کے تعلیمی مراحل ملتان میں طے ہونے لگے۔ پانچ برس بعد پوری فیملی یہاں منتقل ہو گئی، جس کی وجہ سے بہن بھائیوں کو بھی اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان کے دونوں بھائی شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ والد ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، لیکن ایف ایس سی کے دونوں سال انہوں نے ملتان گریژن لائبریری میں کتابیں پڑھتے گزار دیئے اور ہزاروں کتابیں چاٹ ڈالیں۔ احمد ندیم قاسمی، شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خاں، سعادت حسن منٹو، بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کو پڑھ ڈالا۔ اسی دور میں ’شہاب نامہ‘ شائع ہوا، جس سے بہت متاثر ہوئے۔ ٹالسٹائی، چیخوف، ہمینگوے، برنارڈ شا وغیرہ۔ اس مطالعے کا یہ ’فائدہ‘ ہوا کہ ایف ایس سی میں فیل ہو گئے۔ بعدازاں ایف اے کا امتحان دیا تو ملتان بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں داخلہ لے لیا۔

عارف انیس اپنی فینٹیسی کی دنیا میں رہنا پسند کرتے، جہاں اصل زندگی کے مقابلے میں کوئی مشکلات نہیں تھیں۔ 1998ء کا ذکر ہے، ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کوئی غیبی طاقت اچانک مہربان ہو کر پوچھے کہ مانگ کیا مانگتا ہے، تو وہ کون سی تین چار چیزیں مانگیں گے۔ ان کے کریزی ڈریمز کی فہرست، جنہیں دیوانے کے خواب کہنا چاہیے، کچھ یوں تھی: ٭ سی ایس ایس کرنا ہے۔ (قدرت اللہ شہاب سے متاثر ہو کر) ٭ امریکی صدر بل کلنٹن سے ہاتھ ملانا ہے۔ (ان دنوں ٹائم میگزین کے سرورق پر بل کلنٹن کی تصویر دیکھی تھی) ٭ مس ورلڈ کے ساتھ ڈنر کرنا ہے۔ (جس کے متعلق اخبار میں پڑھا تھا) ٭ آکسفورڈ یونیورسٹی کے یونین ہال میں خطاب کرنا ہے۔ (مارٹن لوتھر کنگ کی آپ بیتی سے پتا چلا کہ وہاں خطاب کرنا بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے)

 کئی زندگیاں جینے کا شوق

انہیں بیک وقت کئی زندگیاں جینے کا شوق تھا۔ انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرتے کرتے سوچا کہ کچھ ایسا پڑھنا چاہیے جس سے انسان اور معاشرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ انہوں نے نفسیات کی کتابیں پڑھنا شروع کیں، اور پھر انسان کو سمجھنے کی کنجی کی تلاش میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اپلائیڈ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ جا پہنچے۔ یہاں ڈیل کارنیگی، برائن ٹریسی اور جیک کینفیلڈ کو پڑھنے کا موقع ملا تو سیلف ہیلپ لٹریچر کی طرف رجحان ہو گیا۔ یہ تصور انہیں بڑا شاندار لگا کہ آپ خود اپنی زندگی کے معمار ہو سکتے ہیں، جو ہمیشہ ان کی ہمت بڑھاتا۔ معروف سپیکر اور مصنف قیصر عباس ان کے جونیئر تھے۔ دونوں دوست رات کو کیمپس میں نہر کے ساتھ ساتھ لمبی واک کرتے اور سوچتے کہ ایک دن وہ بھی دنیائے ٹریننگ کے بڑے ناموں کے ساتھ تقریریں کر رہے ہوں گے۔ اسی دوران ان دونوں نے مل کر کتاب ’’شاباش تم کر سکتے ہو‘‘ بھی لکھی۔

 ’جنوں کی طرح کام کیا‘

حقیقی دنیا، بہرحال فینٹیسی کی دنیا سے مختلف تھی، جہاں انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ وسائل اتنے نہیں تھے کہ آسانی سے آگے بڑھ سکیں۔ ٹیوشنیں پڑھائیں، بے شمار چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کے لیے درخواستیں دیں، دو چار مرتبہ مزدوری کی نوبت بھی آئی۔ لیکن انہوں نے اپنا دل چھوٹا نہیں کیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’آپ جب بھی بڑے خواب دیکھتے ہیں تو انہیں عملی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ میں نے جنوں کی طرح کام کیا، ایک دن میں اٹھارہ، بیس گھنٹے کام کرنا میری عادت تھی۔ پھر آپ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے صحیح راستہ پکڑ لیتے ہیں تو جلد یا بدیر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسے لاء آف اٹریکشن کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرم بھی شامل حال رہا۔‘‘

نفسیات میں ماسٹرز کیا ہی تھا کہ تین چار ملازمتوں کی تقریباً ایک ساتھ پیشکش ہو گئی۔ لیکچر شپ، سپرنٹنڈنٹ جیل اور فوج میں بطور کیپٹن بھی انتخاب ہو گیا۔ ان دنوں صدر پرویز مشرف نے سی ایس ایس کے امیدواروں کے لیے عمر کی حد کم کر دی تھی۔ ان کے پاس ایک چانس تھا، 45 دنوں میں تیاری کے بعد امتحان میں بیٹھے اور 2001ء میں سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کر لی۔ سول سروس کے آغاز میں ہی انہیں احساس ہو گیا کہ یہ روٹین کی ملازمت ہے، جس میں رہتے ہوئے وہ زیادہ کنٹری بیوٹ نہیں کر سکتے۔ سرکاری ملازمت کی اپنی محدودات ہوتی ہیں۔ 2011ء میں جب وہ بطور ڈپٹی کمشنر کام کر رہے تھے انہوں نے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے چھٹی لی اور دنیا کے بڑے ناموں سے سیکھنے کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ اندر کی بے چینی اور کچھ بڑا کرنے کی جستجو ایک جگہ ٹکنے نہیں دے رہی تھی۔

 گوروں کے دیس میں

برطانیہ میں بطور طالب علم پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے، لیکن دو تین چیزوں نے انہیں فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ بطور مصنف، لائف کوچ اور سپیکر وہاں اپنی جگہ بنانا خاصا مشکل تھا۔ پہلے پہل مختلف مجلوں کے لیے لکھنا شروع کیا، پھر 2012ء میں صدر بل کلنٹن کے ساتھ ایک پروگرام کرنے کا موقع ملا، جس سے انہیں بہت پذیرائی ملی اور رستے کھلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے برائن ٹریسی اور جیک کنفیلڈ کو خود بلایا اور ان کے ساتھ ٹریننگ کرائی۔ اپنے دوست قیصر عباس کو بھی بلایا، اس طرح ان دونوں کے مشترکہ خواب کو تعبیر مل گئی۔ ’مائینڈ مائیپنگ‘ کے موجد ٹونی بوزان سے دوستی ہوئی تو انہیں پاکستان لے کر آئے۔ان کے دوسرے کریزی ڈریمز بھی زیادہ عرصہ تشنہ تعبیر نہیں رہے۔ 2014ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین نے خطاب کی دعوت دی۔ مس ورلڈ پریکانکا چوپڑا کے ساتھ ڈنر بھی کر لیا، یوں اللہ تعالیٰ نے ساری عجیب و غریب خواہشیں پوری کرا دیں۔

عارف انیس بتاتے ہیں، ’’ٹریننگ ایک وسیع میدان ہے، جس میں سیلز، مارکیٹنگ، ٹیم بلڈنگ سے لے کر روحانیت تک ہر چیز کی ٹریننگ موجود ہے، دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سیلف ہیلپ کتابوں اور ان ٹرینرز سے استفادہ کرتے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر کسی چیز سے آپ کا مسئلہ حل ہو رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ بات درست ہے کہ انرجی لیول ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک دن میں انرجی لیول تبدیل ہوتا رہتا ہے تو دنوں اور مہینوں کی تو بات ہی اور ہے۔ لیکن جس طرح خلیل جبران کہتا ہے کہ پیار کی روٹی کو روز پکانا پڑتا ہے، اسی طرح آپ کو مستقل بنیادوں پر سیکھنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔وقتی طور پر آپ ڈپریس ہو سکتے ہیں، لیکن آپ کو علم ہونا چاہیے کہ اس کیفیت سے کیسے باہر آنا ہے اور اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔‘‘

 ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز

برطانیہ میں انہوں نے دیکھا کہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی کمیونٹی ہے، جن میں کوئی یکجہتی نہیں اور یہ لوگ مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ انہوں نے سعیدہ وارثی اور دوسرے موثر پاکستانیوں کے ساتھ مل کر ’کنزرویٹو فرینڈز آف پاکستان‘ کی بنیاد رکھی، جو کنزرویٹو پارٹی کے اندر اپنی الگ شناخت رکھتی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد پاکستان کا امیج بہتر بنانا تھا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے انڈیا میں پاکستان کے خلاف بیان دیا تھا، جس کے بعد اس تنظیم کی کوششوں کی وجہ سے انہیں پارٹی اجلاس میں کہنا پڑا کہ پاکستان کا دوست برطانیہ کا دوست، اور پاکستان کا دشمن، برطانیہ کا دشمن ہے۔ عارف انیس کو لگا کہ لابنگ کا یہ کام موثر ہے، جس سے پاکستان کے لیے کنٹری بیوٹ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے 2013ء میں دوستوں کے ساتھ مل کر ’ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز‘ کی بنیاد رکھی تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ کئی لوگوں کے ساتھ جائیداد خریدنے میں فراڈ ہوا ہے یا ان کی جائیداد پر کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ تو ایسے مسائل کے حل کے لیے پاکستان میں سرکردہ افراد کے ساتھ مل کر طریقہ کار بنانے کی کوشش کی۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے آئینی حق کے لیے عدالت میں کئی سال کیس لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ ڈیم فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے کام کیا۔ برطانیہ کی اس وقت کی ہوم سیکرٹری تھریسا مے نے اس تنظیم کی ایک تقریب میں شرکت کی پہلے ہامی بھری، لیکن تقریب کے وقت سے عین پہلے آنے سے انکار کر دیا۔ تنظیم نے احتجاج کیا تو ڈیوڈ کیمرون کو معافی مانگنا پڑی۔ دو سال بعد تھریسامے خود بھی آئیں اور انہوں نے بتایا کہ ان کی اپنے شوہر سے پہلی ملاقات بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات میں ہوئی تھی۔عارف انیس سمجھتے ہیں کہ پاکستانی اور ایشیائی کمیونٹی میں اتنا پوٹینشل ہے کہ اگلے دس برسوں میں کوئی ایشیائی پس منظر کا شخص، برطانیہ کا وزیراعظم بن سکتا ہے۔

کامیابی اور خوبصورتی کیا ہے؟

عارف انیس ملک بنیادی طور پر برطانیہ میں لائف کوچ اور سپیکر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وہ افراد اور اداروں کو اپنے مسائل پر قابو پانے کی تربیت دیتے ہیں، اور آگے بڑھنے کے لیے درکار صلاحیتوں کو پیدا کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف ’فالو یور ڈریمز‘ ، ’آئی ایم پاسیبل‘ اور حال ہی میں ’گوروں کے دیس میں‘ میں شائع ہو چکی ہیں، جو ان کے کالموں کا انتخاب ہے۔ اسی عنوان سے وہ روزنامہ ایکسپریس میں کئی برس سے کالم بھی لکھ رہے ہیں۔ وہ مختلف تھنک ٹینکس کا بھی حصہ ہیں اور پولیٹیکل لابنگ کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ 2018ء میں برٹش پارلیمنٹری ریویو نے انہیں یورپ کے سو بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ گزشتہ برس لندن سے شائع ہونے والے ’گلوبل مین میگزین‘ نے انہیں ’گلوبل مین آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ دیا۔

عارف انیس کہتے ہیں، ’’جب میں گاؤں میں تھا تو میرا کامیابی کا تصور مختلف تھا، جو تبدیل ہوتا رہا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کسی کے کام آ سکیں، کسی کی مشکل حل کر سکیں، کسی کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے میں مدد کر سکیں تو یہ اصل کامیابی ہے۔ میرے اب تمام ’کریزی ڈریمز‘ پاکستان سے متعلق ہیں کہ اپنے ملک اور لوگوں کے لیے کچھ کنٹری بیوٹ کروں۔‘‘ خوبصورتی کے متعلق کہتے ہیں، ’’پہلے مشہور لوگوں کو سکرین پر دیکھتے تھے تو حسن کا ایک خاص تصور ذہن میں تھا۔ جب مس ورلڈ اور دنیا کے مشہور لوگوں سے کیمرے سے پیچھے جا کر ملا تو پتا چلا کہ خوبصورتی دراصل کچھ اور ہے۔ میرے نزدیک خوبصورتی بے ساختگی اور سادگی ہے۔ جب بھی کوئی بناوٹ اور ڈینٹنگ پینٹنگ کرتا ہے تو وہ کوئی گھڑی گھڑائی چیز بن جاتی ہے،اس میں سے خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے۔

ٹونی بوزان سے جو سیکھا….

عارف انیس کے بقول، ’’میں نے ایک جو سب سے قیمتی چیز سیکھی ، وہ ٹونی بوزان سے سیکھی ہے۔ میری ملاقات ہوئی تو ان کی عمر ستر سال تھی، انہوں نے اس وقت ایک ڈائری بنائی ہوئی تھی کہ اگلے تیس پینتیس برسوں میں کیا کرنا ہے۔ وہ ایک بات کہا کرتے تھے کہ زندگی میں دو گفٹس ہیں جو اوپر والے نے مجھے دیئے ہیں: ایک ذہانت اور دوسرا وقت۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ کبھی اپنا وقت ضائع نہیںکرتے تھے، کیونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کی کوئی دولت وقت کا نعم البدل نہیں ہے۔ میں نے ان سے سیکھا کہ کسی بھی کام کو فوراً کیا جائے اوردرمیان کی بھول بھلیوں میں نہ الجھا جائے۔‘‘

ان کی اہلیہ عظمیٰ انیس بھی ماہر نفسیات ہیں۔ دو بیٹوں سروش انیس اور فارقلید انیس کے والد ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے پسندیدہ جگہ پاکستان کے شمالی علاقے ہیں۔ دیسی کھانے پسند ہیں، اس لیے لکشمی چوک ان کی فیورٹ جگہ ہے۔ موسیقی میں الاپ والا میوزک اور قوالی پسند ہے۔ کہتے ہیں، انگریزوں کا ’سینس آف ہیومر‘ سب سے اچھا ہے۔ فلم کو سیکھنے کا ایک طاقتور میڈیم سمجھتے ہیں۔ کھیلوں میں فٹ بال پسند ہے، جس میں بہت انرجی ہوتی ہے، نوے منٹ میں ختم ہو جاتا ہے اور جیتنے والا وزیراعظم بھی نہیں بننا چاہتا۔ وہ پاکستانی یوتھ پر کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک ملین نوجوان لیڈرز تیار کر سکیں۔ ان کے بقول، ’’میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے نوجوان ایک چیز پہ کلئیر ہیں کہ کچھ کرنا نہیں ہے۔ وہ بے کار گپیں ہانکتے رہتے ہیں لیکن کچھ مثبت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو میری کوشش ہے کہ میں نے اپنے سفر زندگی میں جو کچھ سیکھا ہے، وہ تجربہ انہیں منتقل کیا جائے۔‘‘

شادی کی فلمی کہانی

محبت کبھی بھی میری زندگی کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ یہ سوچا تھا کہ پہلے کچھ کر گزریں، روزگار، گھر وغیرہ کا بندوبست ہو جائے تو پھر دیکھیں گے۔ اس دوران ملتان کی ایک فیملی سے جان پہچان ہوئی تو کچھ فیملی ریلیشن شپ بن گیا۔ نئی صدی، بلکہ نئے ہزاریے کا آغاز ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا کچھ ایسا کرنا چاہیے جو پہلے زندگی میں نہیں کر سکا۔ تو 31 دسمبر 1999ء کی رات میں نے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔ خیر خاندانوں کے ذریعے معاملات آگے بڑھے اور کچھ عرصے بعد ان کی طرف سے ہاں ہو گئی۔ اب شادی، گھر وغیرہ کے لیے آٹھ، دس لاکھ روپے درکار تھے جو ہمارے پاس نہیں تھے۔ میری عمر چوبیس، پچیس سال تھی۔

2001ء میں پاکستان میں سیف گیمز کا انعقاد ہوا، جس کے ساتھ سیف گیمز سے متعلق ایک کوئز شو کا بھی اعلان ہوا جس کی انعامی رقم دس لاکھ روپے تھی، نعیم بخاری اس شو کے میزبان تھے۔ کتابیں پڑھنے کی وجہ سے میری نیلام گھر وغیرہ میں کوئز شو جیتنے کی ایک ہسٹری رہی تھی۔میں نے گھر سے دور اپنے آپ کو دو ہفتوں کے لیے ایک کمرے میں بند کیا اور کوئز سے متعلق ہزاروں سوالوں کے جواب رٹنا شروع کر دیئے۔

فلاں میدان کی چوڑائی کتنی ہے، گیند کا وزن کیا ہے وغیرہ، اس طرح کے عجیب و غریب سوال تھے۔ کبھی چار گھنٹے سوتا، کبھی صرف ایک دو گھنٹے۔ دنیا میں کسی کومعلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے گھر والوں سے ایک کہانی بنائی ہوئی تھی کہ دو ہفتوں کے لیے ایک کام سے اسلام آباد جا رہا ہوں۔

کوئز میں شرکت کے لیے پہلے فون پر انٹرویو ہوا، پھر تحریری امتحان میں بھی کامیاب ہوا۔ بالآخر مجھے اسلام آباد بلا لیا گیا، ملک بھر سے صرف بیس شرکاء کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کمپیوٹر پر فوری طور پر صحیح جواب دینے والے کو ہاٹ سیٹ پہ بلایا جاتا۔ بیس سوال پوچھے جاتے، ایک سوال کی مالیت پچاس ہزار روپے ہوتی۔ پہلے دو مرتبہ میری باری نہ آ سکی۔ یہ دونوں لوگ کچھ سوالوں بعد آؤٹ ہوئے تو تیسری مرتبہ مجھے ہاٹ سیٹ پر آنے کا موقع ملا۔ اللہ نے کرم کیا اور میں سات آٹھ منٹوں میں ایک ملین کا کوئز شو جیت گیا۔ اس طرح اللہ نے شادی کے اخراجات کا انتظام کر دیا۔ کسی کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ میری مہندی والے دن یہ شو پی ٹی وی پر نشر ہوا تو لوگوں کو اس کامیابی کا پتا چلا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔