ہائے کراچی تیرا نصیب

محمد سعید آرائیں  بدھ 11 مارچ 2020

گزشتہ 12 برس سے سندھ پر حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ اس سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی میئر شپ حاصل کر لی جائے۔ پیپلز پارٹی اب تک ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی میئر شپ سے محروم ہے اور اس کے پاس اندرون سندھ میں صرف سکھر اور لاڑکانہ کی میئر شپ ہے اور اب اس کی کوشش ہے کہ اپنے صوبے کے دارالحکومت کراچی میں اپنا میئر لایا جائے۔

ایم کیو ایم، جماعت اسلامی کے بعد وفاق میں برسر اقتدار پی ٹی آئی اور سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کا بھی یہ آئینی حق ہے کہ یہ دونوں اقتدار والی پارٹیاں بھی اس شہر کا بھی اقتدار حاصل کریں جو ملک کو اپنی آمدنی سے پال رہا ہے۔ کراچی وفاق اور سندھ کو سب سے زیادہ مال کما کر دینے والا ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے بدعنوانوں کی کرپشن، حکومتی من مانیوں، نا انصافیوں اور ہر طرح سے مال بنانے کا بہترین شہر ہے۔

یہاں ملک بھر سے جرائم پیشہ عناصر آ کر جرائم کرکے، پرانے قتل کا بدلہ لینے والے بدلے لے کر باآسانی اپنے محفوظ علاقوں میں لوٹ جاتے ہیں اور بدنامی کراچی کے حصے میں آتی ہے کہ کراچی میں اتنی ہلاکتیں اور جرائم ہوئے حالانکہ کئی ملکوں سے بھی بڑی آبادی اور وسیع علاقے پر مشتمل کراچی کی حقیقی آبادی سرکاری طور پر ہمیشہ چھپائی جاتی رہی ہے اور ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ کی آبادی کا یہ شہر اپنی بڑی آبادی کے ساتھ بڑے مسائل کا بھی شکار ہے۔ مگر اس کے مسائل پر حقیقی توجہ نہ ماضی میں دی گئی اور نہ ہی اب دی جا رہی ہے بلکہ تبدیلی کی دعویدار تبدیلی حکومت بھی کراچی کو نظر انداز کرنے میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے کم ثابت نہیں ہوئی۔

ایم کیو ایم کو پہلی بار 1987ء میں کراچی کی میئر شپ ملی تھی اور ڈاکٹر فاروق ستار میئر بنے تھے یہ جنرل ضیا الحق کا دور اور بلدیاتی نظام 1979ء کا تھا جس کے تحت 1979ء اور 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی دونوں بار کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو پراپرٹی ٹیکس دلوانے کی مہم بھی جماعت اسلامی نے چلائی تھی اور میئر عبدالستار افغانی نے حکومت سے یہ مطالبہ منوانے کے لیے اجتماعی جلوس کی قیادت کی تھی جس میں جے یو پی کے اپوزیشن لیڈر محمد صدیق راٹھور بھی شامل تھے جس پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ نے بلدیہ عظمیٰ کی منتخب کونسل توڑ دی تھی جس کے بعد 1987ء میں ایم کیو ایم کو پہلی بار کراچی کا اقتدار ملا تھا۔

جنرل پرویز مشرف نے 2001ء میں ملک کو با اختیار ضلعی نظام دے کر ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے تو کراچی میں ایم کیو ایم نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان سٹی ناظم کراچی منتخب ہو گئے تھے اور مسلم لیگ (ق) کا ملک میں وزیر اعظم تھا تو جماعت اسلامی اور (ق) لیگ کے اتحاد سے مسلم لیگ (ق) کے طارق حسن آرائیں نائب سٹی ناظم منتخب ہوئے تھے۔

اس وقت شہر کے 18 ٹاؤن تھے جن میں جماعت اسلامی کے 14 اور پیپلز پارٹی کے چار ناظم تھے اور اس دور میں بلاشبہ کراچی میں مثالی تعمیری اور ترقیاتی کام ہوئے اور جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کراچی کے لیے 27 ارب روپے کا خصوصی پیکیج دیا تھا جس کے لیے کراچی کے دیگر اسٹیک ہولڈروں نے بھی مالی معاونت کی تھی اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے مستقبل میں کراچی کے لیے ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کی تھی جس پر وہ خود عمل مکمل نہ کرا سکے تھے اور 2005ء میں ایم کیو ایم کراچی میں جماعت اسلامی کی جگہ اپنا سٹی ناظم مصطفیٰ کمال اور چودہ ٹاؤن ناظم منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی جب کہ پیپلز پارٹی کے تین اور مسلم لیگ (ق) کا کیماڑی میں اپنا ٹاؤن ناظم لاسکی تھی اور جماعت اسلامی کے صرف محدود یوسی ناظم ہی منتخب ہوئے تھے۔2008ء تک جنرل پرویز مشرف ملک کے صدر تھے اور انھوں نے اپنے کراچی سے تعلق کا جو حق ادا کیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔

انھوں نے ایم کیو ایم کی سٹی حکومت سے مکمل مالی معاونت کرائی اور کراچی کو جتنے فنڈ ان کے دور میں ملے وہ ریکارڈ ہیں۔ سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی میں جو ترقیاتی کام ہوئے ان کے نتیجے میں کراچی کی ترقی عالمی سطح پر نظر آئی اور کراچی کا شمار دنیا کے 13 میگا شہروں میں بھی ہوا۔ ایم کیو ایم کے دور میں کراچی کی ترقی کا حقیقی کریڈٹ جنرل پرویز مشرف کو بھی جاتا ہے جنھوں نے مطلوبہ فنڈز فراہم کرائے۔

جنرل پرویز مشرف اگست 2008ء میں صدارت سے مستعفی ہو گئے اور وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، کے پی کے میں اے این پی اور پی پی اور بلوچستان میں پی پی پی کے وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں مخلوط حکومت بنی اور چاروں صوبائی حکومتوں نے بااختیار ضلعی نظام کی جگہ 1979ء کا بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام بحال کر دیا تھا اور کراچی میں آئینی ضرورت مکمل ہونے کے بعد پی پی حکومت نے ضلعی نظام ختم کر کے اپنا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا تھا جو بعد میں تبدیل ہوتے رہے اور کسی نے بھی کراچی کی تعمیر و ترقی پر توجہ نہیں دی اور مال کمانے اور حکومتی خوشنودی میں لگے رہے اور کراچی تباہی کی طرح جانے لگا اور سندھ حکومت نے کراچی پر کوئی توجہ نہیں دی۔

کراچی کی خوش نصیبی یہ ہے کہ کراچی کو گزشتہ بیس سال میں چار سربراہ مملکت ایسے نصیب ہوئے جن میں تین صدور اور ایک وزیر اعظم کا تعلق براہ راست کراچی سے تھا۔ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں جن کی شادی کراچی میں آصف زرداری سے ہوئی اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے جو اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔

آصف زرداری کا بچپن سے اب بڑھاپے تک تعلق کراچی سے بہت قریبی رہا۔ وہ اور بینظیر بھٹو متعدد بار لیاری سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے ۔ بینظیر کی شہادت کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والے آصف زرداری صدر مملکت منتخب ہوئے اور انھوں نے کراچی کی بجائے صرف لیاری کو اپنا سمجھا۔

مسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا جو پانچ سال صدر مملکت رہے جن کے بعد پی ٹی آئی نے کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی کو صدر مملکت منتخب کرایا اس طرح کراچی سے تعلق رکھنے والے چار افراد صدر مملکت منتخب ہوئے اور ڈیڑھ سال سے عارف علوی صدر مملکت ہیں مگر مقام افسوس اور کراچی کی بدنصیبی ہے کہ ملک کو چلانے والا اور سب سے بڑا شہر جو بانی پاکستان کا شہر ہے اس پر صدر جنرل پرویز مشرف کے سوا کسی نے توجہ نہیں دی اور کراچی کو اپنا سمجھا نہ کراچی کی ترقی تو دور کی بات کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرانے کے لیے اپنا صدارتی اختیار بھی استعمال نہیں کیا۔

شریف برادران اپنے شہر لاہور، ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ، یوسف رضاگیلانی ملتان اور راجہ پرویز اشرف اپنے شہر گوجر خان پر خصوصی توجہ دے کر انھیں ترقی دلا سکتے ہیں مگر ملک کو چار صدور اور ایک وزیر اعظم دینے والا کراچی بدنصیب شہر ہے جس کو عملی طور اون کیا گیا نہ کراچی سے تعلق کا حق ادا کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔