وزراء کی دوسرے کے محکموں میں مداخلت مسائل پیدا کر رہی ہے

رضوان آصف  بدھ 11 مارچ 2020
فی الوقت سردار عثمان بزدار کی کابینہ کے دیگر ارکان کی مانند ایک وزیر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔

فی الوقت سردار عثمان بزدار کی کابینہ کے دیگر ارکان کی مانند ایک وزیر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔

 لاہور: شہنشائے ہند جلال الدین اکبر کی کامیابی کا راز اس کے 9 رتن تھے جو امور مملکت میں بادشاہ کو بروقت اور درست فیصلے کرنے میں مشاورت فراہم کرتے تھے اور جلال الدین اکبر بھی اپنی وزراء کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے سب سے زیادہ اہمیت اپنے انہی 9 رتنوں کو دیتا تھا اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان نو رتنوں میں سے صرف 2 یعنی راجا ٹوڈرل اور عبدالرحیم خان خاناں باضابطہ طور پر وزیر کے عہدے پر فائز تھے جبکہ دیگر 7 کابینہ کا حصہ نہیں تھے۔

پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی کابینہ میں 37 وزراء،3 مشیر اور 5 معاونین خصوصی شامل ہیں لیکن عوام دوستی اور حکومتی ترقی کیلئے فائدہ مند مشاورت،نیک نیتی ،محنت اور اپنے وزیر اعلی کے ساتھ حد درجہ وفاداری کی خوبی کو معیار بنا کر کھوج کی جائے تو شاید ہی 9رتن مل سکیں ۔ پنجاب حکومت کے قیام کو 19 ماہ ہو چکے ہیں اور اس تمام عرصہ میں شاید ہی سردار عثمان بزدار کو ایک بھی ایسا دن نصیب ہوا ہو جب انہیں تبدیل کرنے کی باتیں رکی ہوں یا پھر ان کی کابینہ سمیت پنجاب اسمبلی کے ارکان میں موجود امیدوار برائے وزارت اعلی نے ہمت ہاری ہو۔

15 اگست 2018 سے لیکر آج تک یہی تاثر روز پیدا کیا جاتا ہے کہ پنجاب میں تبدیلی آنے والی ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ کپتان اپنے وسیم اکرم پلس سے مایوس ہو چکے ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے کہ کپتان کے’’ہیڈ کوچ‘‘ نے پنجاب میں تبدیلی کیلئے سگنل دے دیا ہے۔کبھی بزدار کو لانے کا’’کریڈٹ‘‘ جہانگیر ترین کے سر تھوپ دیا جاتا ہے اور کبھی ایک’’روحانی شخصیت‘‘ کو مورد الزام قرار دیا جاتا ہے۔ سیاست اور اقتدار کے اس طلاطم خیز سمندر میں عثمان بزدار کی کشتی ہچکولے ضرور کھا رہی ہے لیکن آج تک ڈوبی نہیں ہے کیونکہ عمران خان آج بھی پوری استقامت اور اعتماد کے ساتھ سردار عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں اور عثمان بزدار کی خاطر انہوں نے ’’مقتدر‘‘ حلقوں کے سامنے بھی ’’سرنڈر‘‘ نہیں کیا ہے۔ اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں جو سادہ لوح عوام کو سمجھ نہیں آتی ہیں، انہی مجبوریوں نے عمران خان کو بھی مجبور کر دیا ورنہ کپتان الیکشن سے پہلے تاریخ کی مختصر ترین کابینہ بنانے کا دعوی کیا کرتا تھا۔

کئی وزراء تو ایسے ہیں جن کے نام بھی عوام تو کیا خود میڈیا کو بھی یاد نہیں۔ مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ان وزراء کے پی آر اوز کوئی بیان جاری کردیں تو یاد آتا ہے کہ اوہ، یہ بھی وزیر ہیں۔19 ماہ کی کارکردگی دیکھیں تو چند وزراء کو چھوڑ کر کابینہ کی اکثریت ’’پاسنگ مارکس‘‘ لینے میں بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔

یہ صورتحال مزید پیچیدہ اور کشیدہ اس وقت بن جاتی ہے جب کوئی وزیر کسی دوسرے وزیر کے محکمے میں بے جا مداخلت کرتا ہے اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اور چیف سیکرٹری اعظم سلمان خان سے مشاورت کیئے بغیر وزیر اعظم کے سامنے ’’الف لیلوی ‘‘ تجاویز بیان کرتا ہے جن کا نہ تو سر ہوتا ہے اور نہ ہی پیر۔ جمہوری نظام حکومت میں کابینہ کے ہر رکن کو مخصوص ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور اس سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں اور استعداد کو بھرپور طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے اپنے ذمہ لگایا ہوا کام کرے گااور دوسرے کسی محکمہ کے بارے میں کوئی تجویز یا رائے اسی وقت دے گا جب وزیر اعلی کابینہ اجلاس میں یا انفرادی حیثیت میں یہ رائے طلب کریں۔پنجاب کے وزیر صنعت میاں اسلم اقبال ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور پکے’’لاہوریے‘‘ ہیں ،اپنے صوبائی حلقہ میں ’’ مقبول‘‘ بھی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس صوبائی حلقہ کے اوپر قومی حلقے میں عمران خان الیکشن لڑے تو وہ بھی  ہار جاتا ہے اور میاں صاحب جیت جاتے ہیں اور اگر عبدالعلیم خان الیکشن لڑے تو وہ بھی ہار جاتا ہے۔

25 جولائی2018 کو تحریک انصاف نے الیکشن جیتا اور 25 کی شب سے ہی میاں اسلم اقبال پنجاب کی وزارت اعلی کے امیدوار بن گئے تھے ،28 یا29 جولائی کو عمران خان نے وزارت اعلی کے امیدواروں کے انٹرویوز کیئے تو میاں اسلم اقبال بھی ان میں شامل تھے اور اس انٹرویو ملاقات کی تصویر حاصل کر کے اسے سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا میں اس تاثر کے ساتھ پھیلایا گیا کہ میاں صاحب کو’’گرین سگنل‘‘ مل گیا ہے۔اس کے بعد سے ابتک جب بھی پنجاب میں تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو متبادل امیدوار کے طور پر میاں صاحب کا نام ٹاپ تھری میں شامل ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ میاں صاحب اس حوالے سے لابنگ کرتے رہے ہیں اور ایک مخصوص عرصہ کے دوران انہیں جہانگیر خان ترین کی حمایت بھی حاصل تھی جسے جہانگیر ترین نے واپس لے لیا ہے جس کے بعد ان دنوں حکومتی اور پارٹی حلقوں میں میاں اسلم اقبال اور اسدعمر کی’’قربت‘‘ بہت مشہور ہے جبکہ یہ بھی حقیقت مضبوط ہو رہی ہے کہ ’’مقتدر‘‘ حلقوں نے میاں صاحب کے نام پر کراس لگا دیا ہے یعنی گاوں کے سارے نمبردار بھی مر جائیں تو ان کی باری نہیں آنی ۔

دوسری جانب سردار عثمان بزدار بھی میاں اسلم اقبال کی’’امیدواری‘‘ کی وجہ سے خوش نہیں ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل تک پرائس کنٹرول کمیٹی اجلاسوں میں نامناسب رویے کی وجہ سے صوبے کی سینئر بیوروکریسی بھی ناراض تھی اور یہ معاملہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے سامنے بھی بیان ہوا تھا۔اب نیا معاملہ یہ ہے کہ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری بھی میاں اسلم اقبال کی اپنے محکمہ میں بڑھتی ہوئی مداخلت سے ناراض ہو رہے ہیں ،دلچسپ امر یہ ہے کہ عمومی تاثر تھا کہ سمیع اللہ چوہدری نے از خود میاں اسلم اقبال کو اپنی وزارت کے امور میں اختیار سونپ رکھا ہے لیکن اب حقیقت کھلی ہے کہ سمیع چوہدری تو خود’’متاثرین‘‘ میں شامل ہیں ۔گزشتہ کئی ماہ سے وزیر صنعت پنجاب بہت زیادہ فعال دکھائی دے رہیں محکمہ خوراک کے معاملات میں اور بہت سی تجاویز وہ وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری سے مشاورت کیئے بغیر اپنے طور پر وزیر اعظم کو پیش کر دیتے ہیں جن سے کئی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔

گزشتہ دنوں بھی انہوں نے 50 دن کیلئے سرکاری گندم کی قیمت فروخت 1375 سے کم کر کے 1300 روپے من مقرر کرنے کی تجویز وزیرا عظم کو دی جس کی تمام وزرائے اعلی اور بیوروکریسی نے مخالفت کی،اس سے قبل وہ گندم کی امدادی قیمت خرید1300 روپے من مقرر کرنے کے حق میں تھے۔اشیائے ضروریہ میں آٹا سمیت 16 اشیاء شامل ہیں لیکن وزارت صنعت کی سب سے زیادہ دلچسپی آٹا میں دکھائی دیتی ہے حالانکہ وزیر موصوف کا اپنا ایک ایسا فوڈ بزنس ہے جس کا خام مال فلورملز سے خریدا جاتا ہے اور اسی لیئے یہ اعتراض بھی سامنے آتا ہے کہ فوڈ کی وزارت میں مداخلت کا مقصد کہیں اپنے کاروبار کو زیادہ منافع بخش بنانا تو نہیں۔میاں اسلم اقبال کے ہاتھ میں اگر وزیر اعلی بننے کی لکیر ہے تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا لیکن مناسب ہوگا کہ وہ فی الوقت سردار عثمان بزدار کی کابینہ کے دیگر ارکان کی مانند ایک وزیر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں نا کہ بطور وزیر اعلی۔کابینہ کے ارکان ایک فیملی کی مانند ہوتے ہیں ایکدوسرے کے اختیارات اور حدود کا احترام کرنے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ بعض دیگر وزراء کو بھی اپنا قبلہ درست کر لینا چاہئے اس سے قبل کہ انہیں’’تبدیلی‘‘ آن گھیرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔