چند احمقانہ مشورے

سعد اللہ جان برق  جمعرات 12 مارچ 2020
barq@email.com

[email protected]

حافظ اور غالب کے بعد ہم اگرکسی کے مرید یا فین ہیں تو وہ منیرنیازی ہیں، شاید اس لیے کہ ان کے خیالات اور حالات ہمارے خیالات اور حالات سے بہت ملتے جلتے ہیں ان کو بھی ’’مرن دا شوق‘‘بہت تھا اور ہم بھی

شہادت تھی مری قسمت میں جودی تھی مجھے یہ خوُ

جہاں تلوار کودیکھا جھکادیتاتھا گردن کو

اور دوسرا شوق یا مجبوری دریاؤں کی تھی کہ ایک دریا پارکرتے تھے تو دوسرے کا سامنا ہوتاتھا اور ’’دریا‘‘ ضروری نہیں کہ ’’پانی‘‘کے ہوں، جگرمرادآبادی اور قرۃ العین حیدر کے بقول’’آگ‘‘کے دریا بھی ہوتے ہیں جن کو ڈوب کر پارکرنا ہوتاہے اور دریا نہ ہوں تو ’’سراب‘‘بھی تودریا کے جیسے ہوتے ہیں ایک سالک نے کہاہے کہ نشہ بڑھتاہے ’’شر ابیںجو شرابوں میں ملیں‘‘۔

چنانچہ ہم بھی بہت سارے دریا پارکرکے اب جس دریا کو دیکھ رہے ہیں وہ’’تبدیلی‘‘کادریاہے جو پاکستانی ریاست مدینہ میں بہہ رہاہے لیکن کوئی بات نہیں اسلام، جمہوریت، مضبوط مرکز،بنیادی جمہوریت،روٹی کپڑا مکان،روشن خیال،اعتدال اور قرض اتارو ملک سنوارو کے دریا پار کرکے آئے ہیں تویہ ایک نیا دریا اور سہی۔لیکن منیر نیازی کی ایک اور بری عادت ہم میں یہ ہے کہ’’ہمیشہ دیر‘‘کردیتے ہیں مثلاً’’کالموں‘‘میں جب ’’نیا‘‘ موضوع یا بیانیہ بیسٹ سیلرہوجاتاہے توہم اس پر دانشوری بگھارنے میں بہت دیرکردیتے ہیں۔

اب یہ جوامریکا اور ایران کا معاملہ ہے اس میں بھی ہم دیرکرچکے ہیں جو اچھے اچھے مشورے تھے وہ سب کے سب دیے جاچکے ہیں صرف ’’ہم‘‘ پیچھے رہ گئے ہیں لیکن کوئی بات نہیں دیرآئد درست آئد۔ ویسے بھی ہمارے پاس مشوروں کی کمی نہیں۔ ہم اب تک ایسے بہت سارے مشورے ملکی اور غیرملکی ’’بڑوں‘‘کودے چکے ہیں اور وہ مان کرفائدہ بھی اٹھارہے ہیں مثلاً ہم نے ابتدا ہی میں مودی کو مشورہ دیاتھا کہ وہ اپنے نام میں ایک نقطے کا اضافہ کردے پہلے ٹرم میں توشاید اسے موقع نہیں ملا تھا لیکن اب اس دوسرے ٹرم میں وہ اپنے نام میں ایک نقطے کا اضافہ کر چکا ہے۔

ٹرمپ نے بھی جب سیاست میں انٹری دی تھی تواس کا چہرہ انتہائی خوبصورت اور پرکشش تھا۔اتنا زیادہ کہ امریکا اور ساری دنیاکی لڑکیاں نارنگی کاٹتے ہوئے اپنی انگلیاں کاٹ لیتی تھیں۔ہم نے اسے مشورہ دیا کہ تھوڑی سی اپنے حسن میں کمی کردو ورنہ دنیا میں لڑکیاں انگلیوں سے محروم ہوجائیں گی اور اس نے مان لیا اپنے چہرے کے حسن میں کمی تونہیں کرسکتاتھا لیکن اعمال ایسے کرنے لگا کہ جو اس کے لیے ’’نظربٹو‘‘ ثابت ہوں اور اس نے اپنے آپ کو اتنا نظر بٹو کرلیا کہ وہاں کے لوگوں کوخطرہ پیداہوگیا کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ اس لیے’’مواخذے‘‘ پر اتر آئے۔

اور اس سے بچنے کے لیے’’پٹھے‘‘نے ایران کے ساتھ خوامخواہ پنگا لیا اور لے رہاہے۔دراصل امریکی لوگ لے پالک اسرائیل کے بارے میں بڑے ’’حساس‘‘ ہیں اور ایران ان کے اس’’لے پالک‘‘کی گوشمالی کرتا رہتا ہے اس نے شاید کسی سے پشتو کہاوت سنی ہے کہ گوالے کوخفا کرناہو تو اس کے ’’کٹے‘‘کومارو۔ظاہرہے کہ گوالا اپنے اس کٹے کومارنے پرناخوش توہوگا ہی۔اب یہ ایٹم وغیرہ کاچکرلیجیے اگرایران ایٹمی طاقت بن جائے تو امریکا توبہت دور ہے اس لیے لازم ہے کہ وہ ’’کٹے‘‘پراپنا غصہ اتارے گا اور یہ امریکی لوگ کسی طرح بھی گوارا نہیں کرتے کہ کوئی اس کے’’کٹے‘‘کومارے یا ڈرائے۔

اب جھگڑاتوشروع ہوچکاہے اور اسے روکنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے دونوں کونیک مشورے دینا اور اس میں ہم دیرکرچکے ہیں جواچھے اچھے دانشورانہ مشورے تھے وہ ہمارے دانا دانشور دے چکے ہیں اس لیے ہمارے پاس صرف ایک ہی آپشن ہے احمقانہ مشورہ دینے کا۔کیونکہ ہم اپنے دانادانشوروں سے اب اتنی حماقت سیکھ چکے ہیں کہ کسی کوبھی بہترین احمقانہ مشورہ یا مشورے دے سکتے ہیں۔اس لیے ہمارا پہلا احمقانہ مشورہ امریکا اور ایران کویہ ہے کہ دونوں ’’شانتی‘‘سے کام لیں اور ’’شانتی‘‘ بھارت میں رہتی ہے اس لیے دونوں کو چاہیے کہ وہ بھارت سے رجوع کرکے ’’شانتی‘‘سے کام لیں، ویسے بھارت میں موذی مودی نے اپنے نام میں ایک نقطے کا اضافہ کرکے اپنے لیے ’’شانتی‘‘ہی شانتی پیداکی ہوئی ہے۔

سنا ہے وہاں ہر ہرمقام پرشانتیاں ہی شانتیاں ہیں۔ لیکن ہوسکتاہے کہ یہ تدبیرکام نہ کرے کیونکہ ’’بنیا‘‘ کسی کو اپنا ایک سوچار ڈگری بخار بھی مفت میں نہیں دیتا اور مودی توپھرمودی ہے بہ نقطہ ذال۔اس لیے دوسرا آپشن یہ ہے کہ اب بات توچل پڑی ہے اس لیے چلنے دیں، بہترتویہی تھا کہ دونوں فریق نہ الجھتے لیکن اب الجھ چکے ہیں تواس الجھن میں سے سلجھن نکالنا پڑے گی۔

بہترتوہے یہی کہ نہ دنیاسے دل لگے

پرکیاکریں کہ کام نہ بے دل لگی چلے

اور حکومتیں توچلتی ہی دل لگی سے ہیں، یک گونہ بخودی مجھے دن رات چاہیے۔اپنے عوام کو کوئی نہ کوئی پاجامہ تودینا ہی پڑتاہے کہ وہ ادھیڑ کر سینے میں مصروف رہیں۔اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ جب چلی ہے تو ویسی چلی چلے۔زیادہ سے زیادہ کچھ کھوپڑیاں خرچ ہوجائیں گی تو ’’کھوپڑیاں‘‘ تو پیدا ہی خرچ ہونے کے لیے ہوتی ہیں۔کھوپڑیوں کا مصرف ہی یہی ہے کہ پیدا کی جائیں، ہرطرح استعمال کی جائیں اور پھرآخر میں اسے بویاجائے کہ دانہ خاک میں مل کرگل گلزار بلکہ تیل دار اور میوہ دار بھی ہوتاہے بلکہ پھول دار بھی ہوجاتی ہیں اور پھول توکئی کاموں میں آتے ہیں شادی بیاہ میں، سہروں میں، ہاروں میں اور سب سے زیادہ درباروں میں

کھلتے ہیں گل یہاں،کھل کے بکھرنے کو

اگرہمارے یہ مشورے آپ کو احمقانہ لگے ہوں تو سمجھیے کہ ہم ’’دھنے’’ہوگئے۔اور اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اگر دانش سیکھنی ہو تو احمقوں سے سیکھیے اور اگرحماقت سیکھنی ہو تو دانشوروں سے سیکھیے۔ کہ جس طرح مرغی سے انڈا پیداہوتاہے اس طرح انڈے سے مرغی پیدا ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔