نئی انقلابی پالیسی کی ضرورت

نصرت جاوید  جمعـء 29 نومبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جنرل راحیل شریف کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے بعد ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے اور خوب صورت انگریزی زبان میں لکھنے والوں کو بالآخر یہ بات مان لینا چاہیے کہ پاکستان میں اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود جمہوری نظام مستحکم ہو رہا ہے۔ آئینِ پاکستان بڑی صراحت کے ساتھ اس ملک کے وزیر اعظم کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایک آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے جانشین کا انتخاب ممکنہ امیدواروں کے بارے میں موجود ریکارڈ کا بغور جائزہ لینے کے بعد کریں۔ نواز شریف صاحب یقینا تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ مگر آصف نواز جنجوعہ اور وحید کاکڑ کی تعیناتی کے وقت آرمی چیف لگانے کا اختیار ان کے پاس نہ تھا۔ آئین کی آٹھویں ترمیم کی وجہ سے یہ قوت اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے پاس تھی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ 1991ء کے صدر اور وزیر اعظم کو ان دنوں کے چیف آف اسٹاف جنرل اسلم بیگ نے اپنی ’’پُھرتیوں‘‘ کی وجہ سے پریشان کر رکھا تھا۔

انھیں قابو میں کرنے کے لیے ان کی ریٹائرمنٹ سے پورے تین ماہ پہلے ان کے جانشین کا اعلان کرنا پڑا۔ اسلم بیگ اس فیصلے پر سوائے ہکا بکا رہ جانے کے اور کچھ نہ کر سکے۔ آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے بعد عسکری قیادت کا ایک طاقتور گروہ جنرل فرخ کی تعیناتی کا منتظر تھا۔ نواز شریف کی خواہش ایک اور جنرل کو آگے لانے کی تھی۔ غلام اسحاق خان نے جو ان دنوں نواز شریف سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر چکے تھے ایڈمرل سروہی اور مرحوم جنرل مجیب سے طویل مشورے کے بعد انتخاب جنرل وحید کاکڑ کا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی جنرل کے بنائے ’’کاکڑ فارمولے‘‘ کی وجہ سے اس وقت کے صدر اور وزیر اعظم دونوں کو استعفیٰ دینا پڑا۔ نئے انتخابات ہوئے جن کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بن گئیں۔خالصتاََ Academic بنیادوں پر سوچیں تو نواز شریف صاحب نے اپنے تئیں انتخاب صرف جنرل مشرف کا کیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔

اس کہانی سے نواز شریف نے یقینا بہت کچھ سیکھا ہے اور جنرل راحیل شریف کا انتخاب اس کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے سیاستدان کسی ایسے جنرل کو آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں جو ایک وسیع تر تناظر میں عسکری روایات کا Outsider سمجھا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین شخص نے بھی اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جالندھر سے آئے ایک ’’غیر فوجی‘‘ خاندان کے ’’عاجز مزاج‘‘ نظر آنے والے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا۔ جنرل مشرف کا انتخاب کرتے وقت نواز شریف نے بھی اسی پہلو پر زیادہ توجہ دی تھی۔ دونوں کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بھٹو کو بلکہ پھانسی نصیب ہوئی اور نواز شریف کا مقدر طویل جلا وطنی بنی۔ مرحوم آصف نواز جنجوعہ کے بعد جنرل راحیل شریف وہ پہلے جرنیل ہیں جن کا تعلق ایک مستند عسکری خاندان سے ہے۔ جنرل کیانی کا شجرہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ مگر وہ اس کلاس سے تعلق نہیں رکھتے تھے جسے آپ عسکری اشرافیہ میں شمار کر سکتے ہیں۔ ’’سینئر موسٹ‘‘ والی کہانی کو بھی ضرورت سے زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ فوج میں ترقیوں کے عمل کو پوری طرح جاننے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جب ’’پروموشن بورڈ‘‘ کے سامنے ایک جیسی صلاحیتیں رکھنے والوں کے نام آتے ہیں تو سینئر رینک میں بھیجنے سے پہلے اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے اور ان سب میں Boss کی Discretion سب سے اہم عنصر تسلیم کی جاتی ہے۔ راحیل شریف کا انتخاب کرتے وقت آئینی طور پر فیصلہ سازی کرنے کے مجاز نواز شریف نے بھی اسی Discretion کو استعمال کیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے بارے میں مضحکہ خیز مُوشگافیاں کیوں فرمائی جا رہی ہیں۔

وہ بات جس پر ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے اور خوب صورت انگریزی زبان میں لکھنے والے سمجھ ہی نہیں پا رہے یہ حقیقت ہے کہ ہمارے قومی سلامتی کے تمام اداروں کو اب قطعی طور پر ایک نئی اور تقریباََ انقلابی Guideline  اور پالیسی کی ضرورت ہے۔ امریکا جیسے ملکوں میں یہ کام آزادانہ طور پر کام کرنے والے Think Tanks کیا کرتے ہیں۔ ان اداروں کے لیے Papers لکھنے والے بڑے تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں۔ کئی ایک نے اپنی پوری زندگی کسی ایک ملک یا موضوع پر تحقیق کرنے میں گزاری ہوتی ہے۔ ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے اور خوب صورت انگریزی زبان میں لکھنے والے جو لوگ ہیں ان میں سے کم از کم میرے جیسا آدمی کسی ایک شخص کو نہیں جانتا جس نے ہمارے ’’ازلی دشمن‘‘ بھارت کے بارے میں کوئی ایسی کتاب لکھی ہو جسے غیر ملکی صحافی اور دانشور بھی اس ملک کے بارے میں لکھنے سے پہلے پڑھنے پر مجبور محسوس کریں۔

ہماری دفاعی اور قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے افغانستان ایک بہت ہی اہم ملک ہے۔ راجہ انور نے اس ملک کے بارے میں ایک شاندار کتاب ضرور لکھی ہے کہ مگر وہ ساری اس زمانے سے متعلق ہے جب وہاں ’’انقلاب ثور‘‘ آیا اور کمیونسٹ بجائے اس ’’انقلاب‘‘ کو مستحکم و کامیاب بنانے کے ’’خلق‘‘ اور ’’پرچم‘‘ والی فرقہ وارانہ جنگ لڑنے میں مصروف ہو گئے۔ مجھے کسی ایسے پاکستانی ’’ماہر افغانستان‘‘ کی ہرگز خبر نہیں جسے دری زبان پر مکمل عبور ہو اور اس نے کتاب تو دور کی بات ہے وادی پنجشیر میں کافی دن گزارنے کے بعد کسی تفصیلی مضمون کے ذریعے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہو کہ احمد شاہ مسعود کون تھا۔ آج کے تاجک بھی کیوں اس کی یاد سے دیوانہ وار چِپکے بیٹھے ہیں۔ احمد رشید کی چند کتابیں اور مضامین اس ضمن میں کچھ مدد ضرور فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

کیا یہ بات ہمارے لیے باعثِ شرم نہیں کہ 2013ء میں افغانستان کو سمجھنے کے لیے ہم پاکستانیوں کو صرف ان کتابوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو امریکی اور یورپی مفکروں یا صحافیوں نے اس ملک میں کئی برس فیلڈ میں گزارنے کے بعد لکھی ہیں۔ حال ہی میں William Dalrymple  نے شاہ شجاع کے بارے میں ایک ضخیم کتاب لکھی۔ افغانستان کا یہ شہزادہ پہلے رنجیت سنگھ کا قیدی رہا پھر لدھیانہ میں انگریزوں کی پناہ میں چلا گیا۔ اسی شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت پر مسلط کیا اور پہلی افغان جنگ میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کیا۔ شاہ شجاع کے بارے میں سب سے زیادہ تاریخی مواد لاہور کے سرکاری Archives موجود ہے۔ ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے اور خوب صورت انگریزی زبان میں لکھنے والوں میں سے کتنے ہیں جو مہینے میں ایک دو بار ہی سہی کوئی مضمون لکھنے سے پہلے ان Archives سے رجوع کرنے کا تردد کرتے ہیں؟ تحقیق کی مشقت سے پرہیز اور غور و خوض سے اجتناب ہماری قومی عادت ہے۔ سنی سنائی باتوں پر انحصار ٹھوس خبریں نہیں دیتا۔ آئیں، بائیں شائیں کرنے کی راہ پر لگاتا ہے۔ آخر کب تک اس سے اپنا دل بہلائیں گے؟!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔