اسلام، حقوق نسواں کا اولین علمبردار

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 13 مارچ 2020
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

مغرب ویورپ میں جس طرح عورت کا استحصال ہوا اور جس قدر اس کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس کے تناظر میں عورت مارچ وہاں کی عورت کا بلاشبہ بنیادی حق ہے۔

ہمارے معاشرے میں بھی بعض طبقات عورت پر مختلف شکلوں میں ظلم روا رکھے ہوئے ہیں جس سے انکار ممکن نہیں اور یقینا ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مظلوم عورت کے ان دکھوں کا خصوصی طور پر مداوا بھی ہونا چاہیے اور صنف نازک کو مکمل تحفظ اور وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو اسلام نے ساڑھے چودہ سو برس قبل عطا کیے اور عورت کو مظلومیت سے نکال کر طاقتور اور مضبوط بنا دیا۔

ہمارے معاشرے میں ماڈرن عورتوں پر مشتمل ایک طبقہ ایسا بھی سامنے آیا ہے جو عورتوں کے حقوق کی آڑ میں مسلسل غیر شرعی و غیر اخلاقی مطالبات پر بضد ہیں اور اسلامی و مشرقی معاشرے کے خاندانی نظام کے پرخچے اڑانے پر تلی بیٹھی ہیں حالانکہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تاہم انھیں جو اثر و رسوخ حاصل ہے وہ ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہو رہا ہے اور یقینا یہ ایک اسلامی و مشرقی معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے یہ مخصوص طبقہ جن نعروں کا علم بردار ہے وہ بجائے خود باعث شرم ہیں۔

بعض تو ایسی بھی ہیں جنھوں نے نکاح ہی کو فساد کی اصل جڑ قرار دے دیا ہے۔ میری نظر میں یہ عجیب و غریب خیالات رکھنے والا طبقہ بجائے خود عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ایک اسلامی و مشرقی سوچ کی حامل عورت تو اس طبقے کو اپنے خلاف منظم سازش اور بیرونی ایجنڈے پر گامزن خیال کرتی ہے۔

اسلام نے ساڑھے چودہ سو برس قبل ہی عورت کو وہ تمام حقوق عطا کر دیے جن کے بارے میں ایک عورت کا سوچنا بھی محال تھا ، عہد جاہلیت میں عورت کو وہی درجہ حاصل تھا جو آج مغرب ویورپ میں دیا جاتا ہے اور عورت کی اہمیت وحیثیت محض ایک جسم سے زیادہ نہیں، جسے مرد اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتا اور چھوڑ دیتا ہے۔

آپ حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے لیکن تاریخ کی گواہی کو کسی صورت نہیں چھپا سکتے اور تاریخ پر سب نقش ہے کہ کیسے اسلام نے اپنی آمد کے بعد عورت کو بے مثال ولازوال عزت دی اور لاجواب و اپنی مثال آپ حقوق سے نوازا، تاریخ کے آئینے میں دیکھیے کہ اسلام سے قبل یہ عورت کیا تھی، یہ زندہ درگور کردی جاتی تھی، غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی تھی، معاشرے پر بوجھ سمجھی جاتی تھی، یہ مردہ شوہر کے ساتھ زندہ جلا دی جاتی تھی، وراثت میں اس کا قطعی کوئی حصہ نہ تھا۔

انتہائی بے بس و بے رخی کا عالم تھا، اسلام آیا اور بتایا یہ عورت ایک ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے، بیوی ہے اولاد کو حکم دیا کہ ماں کے آگے ادب سے جھکے رہو اور اُف تک نہ کرو، بہن کے ساتھ اچھا سلوک کرو عمر بڑھ جائے گی، بیوی کے ساتھ خوش رہو زندگی سنور جائے گی، بیٹی کی اچھی پرورش کرو جنت اور نبی کریمؐ کی محفل مل جائے گی، اسلام نے کئی مقامات پر عورت کو مرد سے زیادہ حقوق دیے، ماں کو باپ پر فضیلت دی گئی، ماں کا حق باپ سے زیادہ رکھا گیا اور سب سے بڑھ کر جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا، بہن کا اکرام بھائی سے زیادہ رکھا، بیٹی پر شفقت بیٹے سے زیادہ کرنے کو کہا، بیوی کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا اور میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا اور سورہ روم میں اللہ نے فرمایا کہ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی، یقینا اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں۔‘‘

سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ ’’ ان عورتوں کے بھی حقوق ہیں جیسے کہ ان کے فرائض ہیں اور مردوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت ہے۔‘‘ سورۃ النسا میں مزید فرمایا کہ ’’ مرد عورتوں پر قوام ہیں بہ سبب اس فضیلت کے جو اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر دے دی اور بہ سبب اس کے جو وہ اپنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں وہ ہیں جو (اپنے شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں، حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں (شوہروں کی) غیر موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے باعث۔‘‘

خواتین معاشرے کی ترقی میں جو اہم کردار ادا کرتی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اصلاً خواتین ہی کے ہاتھوں میں نئی نسل کی تربیت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ قوم کے تعمیری ڈھانچے میں خواتین ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہیں لہٰذا مسلمان خواتین کو اپنی عظیم حیثیت پہنچانتے ہوئے علم و عمل، حسن سیرت و ریاضت ، خوش اخلاق، خلوص و اخلاص، حق گوئی و حق پرستی اور صلہ رحمی کی صفات کو اپنے اندر پروان چڑھانا چاہیے، لیکن آج خواتین کا مٹھی بھر ایک مخصوص طبقہ مغربی تہذیب اور ان کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے والی تحاریک اور این جی اوزکے نعروں اور کھوکھلے دعوؤں سے متاثر ہوکر ان مخلوط محافل میں شریک ہوکر جس طرح بے شرمی کے مظاہروں پر مبنی عوامی پروگرام پر عمل پیرا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مشرقی عورت کو مساوات کے نام پر چادر اور چار دیواری سے محروم کردیا جائے اور ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا اس پر مغربی تہذیب مسلط کردی جائے۔ ایسی مغرب پسند خواتین کو دختران اسلام کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی بیٹیوں نے کس طرح دین کی خدمت کے لیے تحریکیں چلائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں اور شوہروں کو بھی اسلام کی تعلیمات کے مطابق وقت دیا اور گھر کو جنت بنا دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام اور مغرب میں فلسفہ حیات اورکلچر و ثقافت کی جو کشمکش جاری ہے اور جسے خود مغرب کے دانشور ’’سولائزیشن وار‘‘ قرار دے چکے ہیں اس میں مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ جس تہذیب و ثقافت کا علم بردار ہے وہ ترقی یافتہ اور جدید ہے لہٰذا ساری دنیا کو اسے ہی قبول کرلینا چاہیے لیکن مغرب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ جدید تہذیب کی اقدار و روایات میں کوئی ایک بھی ایسی شامل نہیں جسے نئی قرار دیا جاسکے بلکہ یہ سب کی سب عہد جاہلیت کا چربہ ہے، تمام اقدار و روایات وہی ہیں جو ’’جاہلیت قدیمہ‘‘ کا حصہ رہ چکی ہیں اور اسلام نے جاہلی اقدار قرار دے کر انسانی معاشرے کو ان سے نجات دلائی ہے۔ ان اقدار و روایات پر ایک نظر ڈالیں۔

سود، ناچ گانا، کہانت، لواطت، جوا، شراب نوشی، بت پرستی، بے پردگی اور نسلی و لسانی عصبیت آج کے تمدن کی نمایاں علامات ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جو نئی کہلانے کی مستحق ہو اور جسے جاہلیت قدیمہ کے ساتھ کشمکش کے موقع پر اسلام نے شکست نہ دی ہو۔ حتیٰ کہ ان اقدار و روایات کے حوالے سے جو دلائل ان کے جواز کے لیے آج پیش کیے جا رہے ہیں وہ بھی وہی ہیں جو جاہلیت قدیمہ کے علمبردار پیش کیا کرتے تھے۔

تاریخ گواہ ہے کہ رسول انقلابؐ نے جب نبوت کا اعلان کیا اس وقت عرب معاشرے میں یہ ساری خرابیاں موجود تھیں لیکن جب نبی رحمتؐ نے ’’حجۃالوداع‘‘ کے موقع پر اپنے عظیم مشن کی کامیابی کا اعلان فرمایا تو عرب معاشرہ ان تمام برائیوں سے پاک ہو چکا تھا لہٰذا ہمیں یقین ہے کہ کل کی طرح آج بھی اس ’’جاہلیت جدیدہ‘‘ کو شکست ہوگی اور نسل انسانی کا مستقبل اسی تمدن، تہذیب اور ثقافت پر استوار ہوگا جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور جس کی نمایندگی اس وقت اسلام کر رہا ہے۔

بیسویں صدی کا برطانوی فلسفی اور مورخ برٹرینڈرسل اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے ’’ہماری موجودہ مشکل یہ ہے کہ ہم نے خارجی قوتوں کو تو بے حساب مسخر کرلیا لیکن ان قوتوں پر قطعاً قابو نہیں پایا جو خود ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔‘‘

بقول اقبال:

نہ خود بین ، نے خدا بین ، نے جہاں بین

یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا

اور:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکارکی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا

آج تک فیصلۂ نفع و ضررکر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کوگرفتار کیا

زندگی کی شبِ تاریک سحرکر نہ سکا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔