کورونا وائرس کی وجہ سے بعض صنعتیں پاکستان منتقل ہوسکتی ہیں، اسٹیٹ بینک

ویب ڈیسک  جمعـء 13 مارچ 2020
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا ہے کہ چین میں کورونا وائرس سے بحالی کے باوجود بھی بعض فیکٹریاں پاکستان منتقل ہوسکتی ہیں (فوٹو: رائٹر)

اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا ہے کہ چین میں کورونا وائرس سے بحالی کے باوجود بھی بعض فیکٹریاں پاکستان منتقل ہوسکتی ہیں (فوٹو: رائٹر)

 کراچی: اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے بحالی کے بعد بھی عالمی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے چین کے علاوہ دیگر ممالک پر انحصار کرسکتی ہیں، اس طرح کئی صنعتیں پاکستان میں بھی منتقل ہوسکیں گی۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز( ایف پی سی سی آئی) کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگرچہ کورونا وائرس کی وبا چین میں کم ہوئی ہے لیکن یہ انفیکشن دنیا کے دیگر ممالک تک پھیل رہا ہے اور ’مئی کے آخر تک صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔

مرتضیٰ سید نے کہا کہ چین کے سینٹرل بینک کے آفیشلز کے مطابق چین میں 50 سے 60 فیصد کارخانے بند ہوچکے ہیں اور اگلی سہ ماہی میں چینی معاشی ترقی میں کمی واقع ہوگی، گزشتہ برس عالمی جی ڈی پی 3 فیصد بڑھی تھی لیکن کووڈ 19 وائرس کے تحت اس سال کمی واقع ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سرمایہ کاروں میں خطرات یا رسک لینے کا رجحان کم ہورہا ہے اور پیسہ کسی بانڈ کی طرح رسک فری مارکیٹ کی جانب منتقل ہورہا ہے دوسری جانب انگلینڈ اور دیگر مضبوط معیشتوں نے کورونا وائرس کے اثرات جھیلنے کے لیے شرح سود کم کردی ہے۔

مرتضیٰ سید کے مطابق سال 2018ء میں 3.09 ارب ڈالر کے برقی آلات درآمد کیے گئے تھے جن میں بوائلر، مشینریاں اور دیگر اشیا بھی شامل ہیں، پاکستان 20 فیصد خام مال بیرونِ ملک سے منگواتا ہے جن میں چین سرِ فہرست ہے تاہم اب تاجر حضرات چین کی بجائے دیگر متبادل مارکیٹوں کی جانب متوجہ ہورہے ہیں تاکہ صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے بھی پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ہم تیل کی بڑی مقدار درآمد کرتے ہیں، مستقبل قریب میں کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی صورتحال خراب ہوسکتی ہے لیکن طویل المدتی عرصے کے لیے ہمیں پرامید رہنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔