صاحب اُمید سے ہیں

محمد عثمان جامعی  اتوار 15 مارچ 2020
جب سے اس کرۂ ارض پر انسان نے جنم لیا ہے مرد عورت میں سالن سے سوتن تک ہر معاملے میں اختلافات رہے ہیں۔فوٹو : فائل

جب سے اس کرۂ ارض پر انسان نے جنم لیا ہے مرد عورت میں سالن سے سوتن تک ہر معاملے میں اختلافات رہے ہیں۔فوٹو : فائل

جس طرح ایک ٹھنڈے مشروب کے اشتہار میں شکوہ کیا جاتا ہے، کس نے کہا تھا پانچ روپے کم کردو، اسی طرح ہمارا دل چاہ رہا ہے کہ سائنس سے کہیں، کس نے کہا تھا اتنی ترقی کرنے کو۔ بھلا بتائیے سائنس داں کہہ رہے ہیں کہ اب مرد بھی بچے جنم دے سکیں گے۔

جب سے اس کرۂ ارض پر انسان نے جنم لیا ہے مرد عورت میں سالن سے سوتن تک ہر معاملے میں اختلافات رہے ہیں، لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ بے بی کو بی بی ہی جنم دیں گی۔ اب سائنس دانوں نے یہ نیا کھڑاگ کھڑا کردیا۔ بھئی مردوں کے لیے پہلے ہی کم جھمیلے ہیں کہ انھیں ولادت کی ذمے داری بھی دی جارہی ہے۔

امریکن سوسائٹی فار ری پروڈیکٹیو میڈیسنز کے صدر ڈاکٹر رچرڈ پاؤلسن نے مردوں پر بجلی گراتے ہوئے کہا ہے کہ اب مردوں کے جسم میں بھی ’’رحم‘‘ کی پیوند کاری کی جاسکے گی، جس کے بعد زچہ خانوں میں خواتین کے شانہ بہ شانہ حضرات بھی چمن میں دیدہ ور، نورنظر اور لخت جگر کے گُل کھلا رہے ہوں گے۔

ڈاکٹر صاحب نے مردوں کے صاحب رحم ہونے کی بات کتنی بے رحمی سے کردی۔ اگر یہ تیکنیک دریافت ہو ہی گئی تھی تو مرد برادری کے مفاد میں اسے چھپائے رکھتے، آخر بھائی چارہ بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، بھائی بندی بھی کسی شئے کا نام ہے، مگر انھوں نے تو بھائیوں کی ذرا فکر نہ کی اور بندیوں کو خوش کردیا۔ یہ کیا کہ بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ انکشاف کرکے دو باتیں ثابت کردیں، ایک، عورتیں تو خوامخواہ بدنام ہیں، درحقیقت ہم مردوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی، اور دوسری، جب مردوں کے پیٹ میں کوئی بات کوئی راز نہیں رہ سکتا تو مُنا یا مُنی کیسے ٹکیں گے۔

اب یہ انکشاف مردوں کے مستقبل پر افسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے کہہ رہا ہے:

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

ہمارے خیال میں ڈاکٹر صاحب خواتین کے اس پروپیگنڈے میں آگئے کہ ’’ائے یہ موئے مرد بڑے بے رحم ہوئے ہیں۔‘‘ بھیا! انھوں نے اس رحم کی بات تھوڑی کی تھی جو آپ مردوں میں ’’نصب‘‘ کرنے چلے ہیں۔ اگر اس شکوے کا ازالہ کرنا تھا تو کوئی ایسی دوا بناتے جس کی ایک خوراک سنگ دل افراد کو رحم دل بنادے، مگر ایسی دوا ایجاد کردی جائے تو فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو وہ ڈاکٹر کیسے ملیں گے جو تحفے تحائف اور مراعات کے عوض مریض کو جان لیوا دوا لکھنے سے بھی نہیں چوکتے، پھر ایسے سفاک لوگ کیسے دست یاب ہوں گے جو ادویہ بیچنے کے لیے مختلف طریقوں سے امراض جنم دیتے اور پھیلاتے ہیں، بڑی طاقتوں کے مقتدر صاحبان نے دل کو ہاتھوں مجبور ہوکر جنگ بازی سے باز آگئے تو اسلحہ سازوں کے دھندے کا کیا بنے گا۔ چناں چہ ایسی کسی دوا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جس سے سرمایہ داروں، زورآوروں اور زرگروں کے مفادات مارے جائیں۔

سائنس داں اور محققین جو کرنے چلے ہیں اس سے مرد صاحب رحم ہونے کے ساتھ قابل رحم بھی ہوجائیں گے۔ پہلے بچے کے بعد بیویوں کی فرمائش نما ہدایت ہوگی، ’’اب آپ کی باری ہے۔‘‘ ہر حاملہ اپنی تکلیف کا معاملہ بھول کر شوہر سے یہ کہتی نظر آئے گی،’’پیٹ‘‘ سے کس کو رستگاری ہے آج ’’میں‘‘ کل تمھاری باری ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب ’’باری‘‘ آئے گی تو کیا ہوگا؟ عجیب مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ صاحب دفتر جانے کے لیے سیڑھیاں اُتر رہے ہیں، بیگم اچانک گھبرا کر کہتی ہیں، ’’ارے ذرا سنبھل کے آپ کا چوتھا مہینہ چل رہا ہے۔‘‘ صاحب کی ساس بیٹی کو فون کرکے داماد کے بارے میں ہدایت کریں گی، ’’بٹیا! آج چاندگرہن ہے، میاں کو کُھلے آسمان کے نیچے مت جانے دیجیو۔‘‘ شوہر دفتر سے آنے والی بیوی دیکھ کر شرمائیں گے، لجائیں گے، پھر پوچھنے پر اٹھلا کر بتائیں گے ’’آپ موم بننے والی ہیں‘‘ اور بتاتے ہی منہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے دوسرے کمرے کی طرف دوڑ جائیں گے۔

مردوں کی محفلوں میں کرکٹ، عورت اور سیاست کے بہ جائے ولادت سے جُڑے تذکرے ہوں گے، اور اس طرح کی گفتگو ہوا کرے گی:’’یار! اچھا اچار کہاں سے ملے گا؟‘‘،’’تم ان دنوں شریفہ کھایا کرو، اس سے شریف اولاد جنم دو گے، آزمایا ہوا ٹوٹکا ہے۔‘‘، ’’بابوبھائی! نر پھل کھایا کرو، جیسے خربوزہ، بس پھر سمجھو لونڈا پکا ہے، اگر لڑکا نہ ہو تو مونچھیں کٹوا لوں گا قسم اللہ پاک کی۔‘‘

بھاری پاؤں والے مردوں کو عورتوں کی طرح حاملہ کہنا شیوۂ مردانگی کے خلاف ہوگا، ان کے لیے ’’حامل‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا مناسب رہے گا۔ یعنی ’’حامل رقعہ ہٰذا‘‘ کی طرح ’’حامل بچہ ہٰذا‘‘ کہا جائے گا۔ گائناکولوجسٹ کو اس طرح کے پیغامات ملیں گے،’’حامل بچہ ہٰذا میرے دوست ہیں، اس ’زچے‘ اور بچے کا پورا خیال رکھا جائے۔‘‘

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سڑکوں اور رکشوں پر ولادتیں ہوجاتی ہیں، مردوں کے لیے الگ زچہ خانے بنانے کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے منشور میں مردانہ زچہ خانے بنانے کا وعدہ بھی شامل کرنا پڑے گا۔ پھر انتخابات میں اختیار سب کے لیے کی طرح ’’زچہ خانہ سب کے لیے‘‘ جیسے نعرے سامنے آئیں گے۔

بریکنگ نیوز کے جنون میں مبتلا الیکٹرانک میڈیا سے کچھ اس نوعیت کی خبر دیتی ’’چیخیں‘‘ بلند ہوا کریں گی،’’مولانا فضل الرحمٰن جلسے کے دوران اچانک ماں بن گئے۔ کسی کو پتا ہی نہ چل سکا وہ پیٹ سے ہیں۔‘‘،’’نوازشریف کے ہاں چاند سے بیٹے کی ولادت، ’زچے‘ نے ہوش میں آتے ہی پوچھا کیوں نکالا۔‘‘،’’عمران خان نے کم زور بچہ جنم دیا، دائی بتولن پر دھاندلی کا الزام۔‘‘،’’بلاول زرداری حامل ہوگئے یاد رہے کہ انھوں نے کچھ دنوں پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ جان مانگو گے جان دیں گے، سر مانگو گے سر دیں گے لیکن قوم نے ان سے بچے کی فرمائش کی تھی۔‘‘،’’سراج الحق امید سے ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی بچے کا نام انقلاب ہوگا، یوں وہ انقلاب لانے کا وعدہ پورا کردیں گے۔ فاروق ستار ماں بن گئے نرس سے کہا گیا بچہ کو صاف کر لاؤ، وہ اسے مصطفیٰ کمال کے حوالے کر آئی۔‘‘

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک طرف دنیا بھر میں آبادی بڑھنے کا شور ہے اور منصوبہ بندی کی دھوم مچی ہے، دوسری طرف بندوں سے بھی بچے جنوانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اب یا تو یہ ہوگا کہ لکھنوی مزاج جوڑے ’’پہلے آپ، پہلے آپ‘‘ کرتے بوڑھے ہوجائیں گے اور ’’میرے دو، تو تمھارے بھی دو‘‘ کی تریا ہٹ بالکوں کی تعداد بڑھاتی رہے گی۔ اب جو بھی ہو، مردوں کو چاہیے کہ تیاری کرلیں، اب تک تو ذمے داریوں کے بوجھ سے ان کے کندھے اور بیوی کی باتوں سے سر بھاری ہوتا تھا، جلد ان کا پاؤں بھی بھاری ہوا کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔