عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 15 مارچ 2020
عرب بادشاہ اس دوران فلسطین کی بجائے اپنی بادشاہتیں بچانے کیلئے زیادہ کوشاں تھے۔ فوٹو: فائل

عرب بادشاہ اس دوران فلسطین کی بجائے اپنی بادشاہتیں بچانے کیلئے زیادہ کوشاں تھے۔ فوٹو: فائل

( قسط نمبر5)

یہ تاریخ کی تلخ حقیقت ہے کہ 1918 میں جب چار سال بعد پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی تو پوری دنیا میں صدیوں سے قائم عرب اسلامی آزاد ممالک نو آبادیاتی نظام کے تحت غلامی قبول کر چکے تھے۔

یوں 1918 سے لیکر دوسری جنگ عظیم 1945 کے اختتام تک دنیا میں آزاد اسلامی ملک کہلانے والے تین یا چار ملک تھے جن میں حقیقی معنوں میں تو صرف ترکی ہی آزاد ملک تھا جس کی آزادی کو اتاترک مصطفٰی کمال پا شا نے خلافت ِ عثمانیہ کے بکھر جانے کے بعد اس کے رد عمل میں ترک نیشنل ازم کی بنیاد پر بچایا تھا اور یہاں سے مسلم عالمی اتحاد کی بجائے ترکی کی بقا اور تحفظ کی جنگ لڑی تھی۔

وہ عرب ممالک جو 1918 تک خلافتِ عثمانیہ کے زیر اقتدار تھے اُن میں صرف سعودی عرب کو انگریزوں کی جانب سے پوری آزادی کا برائے نام حکم تھا اور یہ بھی غالباً اس لیے تھا کہ انگریز مقبوضہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جانب سے تحریک خلافت کا زور دیکھ چکا تھا اب اگر مکہ شریف اور مدینہ منورہ میں بھی غیر ملکی فوجی ہوتے تو اُسے معلوم تھا کہ تمام دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے اس کا شدید ردعملِ آتا اوریہ بھی ممکن تھا کہ سعودی عرب سمیت دنیا کے تمام مسلم ملکوں میں تیسری اینگلو افغان جنگ 1919 کی طرح کی صورتحال ہو جاتی اور برطانیہ جو جنگِ عظیم اوّل کا فاتح ہونے کے باوجود امریکہ کے مقابلے میںاب دنیا کی سپر پاور نہیں رہا تھا اور اس جنگ کی وجہ سے بہت تھک چکا تھا اُس نے حکمت سے کام لیا تھا اور سعودی عرب کو آزادملک کا درجہ دیا تھا۔

ایران کا بھی اگرچہ یہی دعویٰ تھا مگر یہاں برطانیہ اور روس دونوں کے اثرات تھے۔ افغانستان جس نے تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد 1878 سے برطانیہ کو ایک بڑی رقم کی سبسڈی کے عوض دی گئی خارجہ پالیسی اور دفاع کے امور واپس لے لیے تھے اور اس کی حیثیت سابق سوویت یونین اور برطانوی ہند کے درمیان حائلی ریاست یعنی بفر اسٹیٹ کے طور پر بحال ہوگئی، یوں افغانستان غازی امان اللہ کے دورِ حکومت تک اپنی پالیسیوں کے لحاظ سے بھی مکمل آزاد تھا۔ دیکھا جائے تو 1918 سے 1945 تک جب دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945میں قائم ہونے والے عالمی ادارے اقوام متحدہ کے اُس وقت 51 بنیادی ممبران میں مقبوضہ ہندوستان، ڈومینین آف کیوبا، پانامہ ، بولیویا، وینزویلا اورعراق جیسے ملکوں کی حکومتوں کے نام بھی تھے مگر یہ بھی نوآبادیاتی نظام سے اُس وقت مکمل آزاد نہیں ہوئے تھے۔

اسی طرح اُس وقت شام عراق میں شاہ فیصل ثانی، اردن میں 1946 میں بادشاہت کے قیام پر شاہ عبداللہ اوّل اور سوڈان و مصر کے بادشاہ شاہ فاروق تھے اور باقی عرب دنیا میں بھی جو ملک اُس وقت سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو رہے تھے وہاں پہلے ہی سے باد شاہتوں کی نامزدگیاں خصوصاً برطانیہ کی مرضی اور مشاورت سے ہوئی تھیں اور یہاں بھی بنیاد عرب نیشنل ازم تھا، پھر ہمارے بادشاہوں کی طرح یہ اُس نازک دور میں بھی کہیں زیادہ عیاش بادشاہ تھے۔

مصر کے بادشاہ شاہ فاروق کا صرف ایک واقعہ یہاں اُس وقت کی صورتحال اور باد شاہ کے مزاج کے اعتبار سے دیکھیں ، شاہ فاروق باقی برائیوں کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے بہت بڑے جواری بھی تھے، اس دور میں ہالی ووڈ کے مشہور اداکار عمر شریف کی والدہ یہاں قاہرہ میں بڑے کیسینو ’’جوا خانے‘‘ کی مالک تھی ایک بار شاہ فاروق اس خاتون کے ساتھ فلاش کھیل رہے تھے،کیسنو کی مالکن کے پاس تین کوئنز یعنی بیگم کے تین پتے آئے، تو اُس نے زیادہ سے زیادہ اور بڑے داؤ لگانے شروع کر دئیے اس پر شاہ فارق نے بھی بڑی رقم کے داؤ لگائے جس پر وہ ڈر گئی، اُس کے پاس رقم بھی ختم ہو رہی تھی اُس نے شو کی رقم ٹیبل پر رکھی اور باشاہ سے کہا اپنے پتے دکھا دیں، شاہ فارق بولے تین بادشاہ، خاتون گھبر ا گئی پھر احترام سےگزارش کی کہ میں نے شو مانگی ہے۔

شاہ فارق نے تینوں پتے دکھائے تو وہ بولی اس میں تو دو بادشاہ ہیں جس پر شاہ فاروق نے قہقہ لگاتے ہوئے اپنی جانب اشارہ کیا اور کہا تیسرا بادشاہ میں ہوں اور ساری رقم خاتون کی طرف بڑھا دی۔ تعریف کی بات یہ ہے کہ اسی شاہ فاروق نے کہا تھا کہ آخر میں اس دنیا میں پانچ بادشاہ رہ جائیں گے جن میں سے چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا بادشاہ ہو گا، اتنا شعور رکھنے والا مصر کا یہ بادشاہ تھا جو دولت جوئے میں لٹا رہا تھا اور اسی کے عہد میں اسرائیل قائم ہوا، یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جنگ عظیم اوّل کے اختتام سے جنگ عظیم دوئم کے اختتام تک27 برسوں کے عرصے میں اِن عرب ملکوں میں صورتحال یوں تھیکہ بلحاظ عمر اِن کی آبادیوں کا سب سے بڑا حصہ وہ تھا جس نے ترک خلافت کے دور میں ترکوں کا غیر جمہوری انداز بھی دیکھا تھا پھر اپنے لیڈروں کی جانب سے ترک خلافت کے خلاف عرب قوم پرستی کی بنیاد پر جنگ دیکھی۔

جب جنگ ِ عظیم اوّل میں ترکی جرمنی کے ساتھ مل کر برطانیہ سمیت مغربی قوتوں کے خلاف جنگ میں مصروف تھا اور ترکی کی جانب سے اس جنگ کو جہاد قرار دیا گیا تھا تو دوسری جانب عرب اس موقع کو غنیمت جان کر قوم پرستی کی بنیاد پر ترکوں کے خلاف برطانوی فوجی اور مالی امداد کے ساتھ مصروف جنگ تھے تو عرب رہنما بھی ترکوں کے خلاف اس جنگ کو جہاد قرار دیتے تھے۔

جنگ عظیم اوّل میں جرمنی اور ترکی کی سلطنت کی شکست کے بعد ترکی بطور ایک آزاد جمہوری ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا، ایک ایسا ملک جہاں عرب ملکوںکے خلاف غم وغصہ تھا اور اس کی وجہ جنگ میں عربوں کی جانب سے انگریزوں کی حمایت اور مدد تھی جس کے ردعمل پر ترک نیشنل ازم شدت سے ابھرا، یہاں تک کہ اُنہوں نے عربی زبان کو بھی اپنانے سے انکار کردیا، ترکی کے اتاترک مصطفٰی کمال پا شا نے ترکی کو جدید خطوط کی بنیاد پر ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی کوشش کی اور چونکہ ترکی کا ایک حصہ یورپ میں بھی آتا ہے اور قبل از اسلام سے لیکر بعد کے زمانوں تک یہاں کے لوگوں کے روابط یورپ سے رہے، یوں اتاترک نے اپنی جدت پسندی کی وجہ سے اُس لکیر یا لائن کو بھی پار کر دیا جو تہذیبی طور پر اسلامی معاشرتی اقدار اور مغربی اقدار کے درمیان تہذیب ، ثقافت اور تمدن کو واضح کرتے ہوئے مسلم معاشرے کی اپنی شناخت کو قائم رکھتی ہے ۔

اگر چہ اتاترک مصطفی کمال پاشا آج بھی ترکی میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو ہمارے ہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی ہے مگر اُس وقت عقائد اور دینی تعلیمات کی بنیاد پر ترکی سمیت اسلامی دنیا کے علماِ دین نے اُن کے اِن اقدامات پر شدید تنقید کی۔ واضح رہے کہ اُس وقت اسلامی ممالک کے بعض لیڈوں نے مصطفی کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل بھی بنایا جن میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد اہم ترین افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ خان اور پھر دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی شامل تھے، یہ دونوں ایرانی اور افغان قوم پرستی کی علامت بھی سمجھے جاتے تھے۔

پھر یہ بھی عجیب صورتحال تھی کہ جب اسرائیل قائم ہوا تو ایران اُس وقت واحد ملک تھا جس کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے کچھ عرصے بعد  اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا، جنگ عظیم اوّل سے لیکر جنگ عظیم دوئم تک یہ بڑے ملک تھے جن کی آبادی مسلم اکثریت کی تھی مگر ایک جانب یہ مغربی تہذیب کو اپنائے ہوئے تھے تو دوسری طرف عرب ملکوں اور عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اپنی قومی شناخت کی بنیاد پر اُ س وقت دینِ اسلام کے اسلامی اتحاد کے مقابلے میں اپنی قوم پرستی پر فخر کرتے تھے۔ افغانستان میں غازی امان اللہ خان کو آج بھی تعلیمیا فتہ طبقہ افغانستان کے لیے ایک مثالی بادشاہ قرار دیتا ہے، جب کہ اُن کے عہد میں اُن کے خلاف بغاوت کی بنیاد یہی تھی کہ وہ مغربی تہذیب کو پسند کرتے تھے۔

اُن کی ملکہ ثریا بھی مغربی طرز کا لباس پہنا کرتی تھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نہ صرف 1919 میں انگریزوں کے خلاف تیسری اینگلو افغان جنگ لڑی تھی بلکہ اس جنگ میں جنگ کے میدان میں بھی فتح حاصل کی تھی اور اخلاقی طور پر بھی جیتے تھے مگر اپنی مغرب پسندی کی وجہ سے وہ انگریز سازش کے تحت افغان عوام کی بغاوت کی وجہ سے بہت جلد اقتدار سے الگ کر دیئے گئے اور باقی زندگی روم میں جلاوطنی میں گزاری۔ ایران کے باد شاہ محمد رضا شاہ پہلوی بھی ایرانی قوم پر ست باد شاہ تھے۔

اِن کی اس قوم پرستی کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی بادشاہت کے خاتمے سے تین سال پہلے اپنی شہنشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منایا تو اس شہنشاہت کا تعلق ڈھائی ہزار سال قبل سائرس اعظم سے جوڑا جس نے عراق ، شام، مصر، فلسطین ، سنٹرل ایشیا اور ہمارے ہاں سندھ تک کے علاقوں کو فتح کیا تھا اور اس بادشاہ کو یہودی پیغمبروں کے بعد عظیم تسلیم کرتے ہیں کہ اُس نے طویل عرصے تک جلاوطنی میں انتہائی ذلت آمیز زندگی گزارنے والی یہودی قوم کو دوبارہ باوقار انداز میں فلسطین لا کر آباد کیا تھا، پھر1917 میں جب بالفور اعلانیہ کے تحت برطانوی حکومت فلسطین میں دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے اسرائیل کی آزاد اور خود مختار ریاست بنانے کا اعلان کر چکی تھی تو اسی سال جنگِ اعظیم اوّل کے خاتمے سے ایک سال پہلے روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد لینن اور اسٹالن نے ترکی اور جرمنی کے خلاف اتحاد سے روس کو جنگ سے باہر نکال لیا تھا اور اُن کا یہ فیصلہ اخلاقی اور نظریاتی فیصلہ تھا جب کہ روس کے جنگ سے باہر آنے کے ساتھ ہی امریکہ جنگ ِ عظیم اوّل میں ترکی اور جرمنی کے خلاف اتحاد میں شامل ہو کر بر طانیہ سے دنیا کی سپر پاور ہو نے کا اعزاز چھین چکا تھا۔

1917 کا روسی اشتراکی انقلاب بھی روس میں زار بادشاہ کے خلاف تھا جو جنگِ عظیم اوّل سمیت دیگر جنگوں میں نہ صرف لاکھوں روسیوں کو مر وا چکا تھا بلکہ اربوں ڈالر کی دولت کے ساتھ اُس وقت دنیا کا امیر ترین شخص تھا اور اس کی اپنے عوام میں بری شہرت کی ایک اور وجہ اس کی ملکہ کا تعلق تاریخی طور پر بدنام بدکار اور عیاشی سے جڑی شخصیت راسپوٹین سے بھی تھا، اگرچہ راسپوٹین کو کیمونسٹ انقلاب سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُس کی وجہ سے بھی روس کے عوام میں بادشاہت کا بطور ادارہ وقار مجروح ہوا تھا۔

روس میں کیمونسٹ انقلاب کے کچھ عرصے بعد اِس بادشاہ کو اُس کے خاندان کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔ روس کے انقلاب اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات اور اِن کے اثرات پوری دنیا پر مختلف انداز سے مرتب ہو رہے تھے۔ چین میں بھی کیمونسٹ تحریک کو کا میابیاں حاصل ہو رہی تھیں اور ماوزے تنگ چینی کیمونسٹ انقلاب اور آزادی کے قریب تھے۔ اسی تاریخی صورتحال اور تبدیلی کو علامہ اقبال نے بھی کئی اشعار میں بیان کیا تھامثلاً ساقی نامہ نظم کے یہ تین مصرعے ۔

گراں بار چینی سنبھلنے لگے   ہمالہ کے چشمے ابلنے  لگے

پرانی سیات گری خوار ہے ،    زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

گیا دورِ سرمایہ داری گیا  تماشہ دکھا کر مداری گیا

ا ب دنیا بھر کے سرمایہ دار یورپ اور دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنے سرمائے کو امریکہ میں زیادہ محفوط سمجھتے تھے اور اُس وقت بدلتی ہوئی دنیا کے مالیات، اقتصادیات اور معاشیات کے ماہر ین اور سرمایہ دار جن میںایک بڑی تعداد یہودیوں کی بھی تھی، نئے سپر پاور ملک امریکہ منتقل ہو گئے تھے، پھر اِن قوتوں نے عالمی طور پر سنٹرل بینکنگ سسٹم اور اسٹاک ایکسچینج کے ساتھ ساتھ امریکہ ، بر طانیہ اور سرمایہ دارانہ اقتصادیاتی نظام سے منسلک دیگر مغربی ممالک کے مالیاتی میکنزم کے ساتھ کیمونزم سے تحفظ کے لیے اسٹرٹیجی بھی بنائی تھی۔ اب اس سٹریٹجی پر عملدرآمد بھی کیا جا رہا تھا۔

پھر روس کی عظیم بادشاہت کا حال دیکھ کر دنیا بھر کے بادشاہ بھی اپنے تحفظ اور بچاؤ کے لیے امریکہ اور بر طانیہ ہی کی جانب دیکھتے تھے۔ اگرچہ روس کا اشتراکی انقلاب 1925 میں لینن کی وفات تک ڈولتا رہا اور اس کے بعد اسٹالن نے کئی لاکھ روسیوں کا قتل عام کر کے صنعت اور ز راعت کے شعبوں میں اشتراکی معیشت کی بنیاد پر انقلابی اصلاحات کیں اور پھر عظیم عالمی کسادی بازاری اور دوسری جنگ عظیم تک جہاں 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک روس، جرمنی اور جاپان کے خلاف اتحاد میں برطا نیہ، امریکہ، فرانس اور دیگر ملکوں کے ساتھ شامل رہا اور اس دوران روس نے عملی طور پر یا فوجی طاقت کے ذریعے کسی ملک میں اشتراکیت کی مدد نہیں کی، مگر دنیا کے کئی ملکوں میں کروڑوں غریب عوام کیمونزم کے اثرات کو قبول کر رہے تھے اور 1930 کے بعد سے برصغیر سمیت دنیا بھر میں زبان، ادب ، صحافت کی بنیاد پر کیمونزم نظریاتی اور فکری اعتبار سے کروڑوں افراد کو ذ ہنی طور پر بدل رہا تھا۔ عرب ممالک سمیت اسلامی دنیا میں بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے تھے لیکن عجیب صورت یہ تھی کہ کیمونسٹ یا اشتراکی نظام جہاں مذاہب کی نفی کرتے ہوئے اِسے قوموں کے لیے افیون قرار دیتا ہے وہاں یہ سیکولرازم کے ساتھ نیشنل ازم یعنی قوم پرستی کو سپورٹ دیتا ہے۔

دنیا بھر میں اس پورے تاریخی پس منظر اور ماحول میں کچھ آزاد اور باقی اکثر نوآبادیا تی نظا م میں جکڑے اسلامی ممالک کے کروڑوں عوام شدیدکنفیوژن کا شکار تھے، جب اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو منظور کیا،اور پھر14 جولائی1948 کو فلسطین کی تقسیم کے بعد اسرائیل کی ایک خود مختار آزاد ریاست قائم کر دی گئی۔

واضح رہے کہ برطانیہ کے اس منصوبے کے خلا ف عرب ملکوں کے عوام میں فلسطین کی مقدس سرزمین سے عقائد کی جذباتی وابستگی کی بنیاد پرایک تناؤ کی فضا پہلے سے قائم تھی اور کچھ علما ِ دین جو کسی حد تک بادشاہوں کے بھی خلاف تھے وہ تو 1917 کے اعلان بالفور کے بعد سے ہی مغربی سازشوں کے خلاف عوام کو تحریک کے لیے تیار کر رہے تھے اور پھر 1945 میں جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہودیوں کے حق میں بدلتے ہوئے حالات بہت واضح ہو گئے تھے تو یہودی فلسطینی تصادم کے واقعات بھی رونما ہونے لگے تھے اور مسلم امہ پوری دنیا میں غم و غصے میں مبتلا تھی، مگر عرب دنیا میں بادشاہتیں تھیں جن میں سے چند ایک ہی اقوام متحدہ کے رکن تھے اور ابھی نو آبادیاتی سیاسی نظام سے آزاد نہیں ہوئے تھے۔ جب اسرائیل کے وجود میں آتے ہی 1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہو ئی، ایک جانب اسرائیل اور اس کی منظم جدید اسلحہ سے لیس ایک لاکھ پچھتر ہزار فوج تھی۔

ساتھ ہی برطانیہ اور یورپی ممالک سمیت دنیا بھر میں صدیوں سے آباد اور اِن ملکوں کی شہریت کے ساتھ یہودیوں کی مذہبی عقید ے کی بنیاد پر شدید جذباتی حمایت اور مالی امداد حاصل تھی اور یہ عالمی امداد وہ تھی جو 1903 میں روسی زبان میں تحریر کئے گئے ’’جیوش پروٹوکول،، کے اعتبار سے اپنی نصف صدی کی اسٹریٹجی اور خاص منصوبہ بندی کے تحت تھی جس کو دستاویزی طور پر برطانیہ کی جانب سے اعلان بالفور کے حوالے سے عالمی طور پر تسلیم کیا گیا تھا ، جبکہ 175000 اسرائیلی فوج کے مقابلے میںاس جنگ میں مصر کی فوج 10000 سے20000 کے درمیان تھی، اردن کی فوج 10000 سے زیادہ نہیں تھی، عراق اور شام کے پانچ پانچ ہزار فوجی تھے۔

لبنان کے 436 فوجی سعودی عرب کے 800 فوجی یمن کے 300 اور عرب لبریشن آرمی کی تعداد 3500 تھی، یوں عرب ممالک کی کل فوج 45000 سے زیادہ نہیں تھی اور اِن تمام ملکوں میں بادشاہتیں تھیں اور وہ بادشاہ تھے جنہوں نے خود یا ان کے والدین نے انگریزوں کی مدد سے ترکی کی سلطنت کے خلاف عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر ترکی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے، خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا اور اِن عرب سربراہوں میں شائد ہی کوئی حقیقی ایمانی جذبے سے سر شار ہو کر اسرائیل کے خلاف آیا ہو۔

بادشاہوں کی لیڈر شب میں ابھرا ہوا نیشنل ازم بھی تقریباً تیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ماند پڑ گیا تھا کہ اب تو عرب ہی عربوں پر حکومت کر رہے تھے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر پوری دنیا کے مسلمان بھرپورایمانی جذبے کے ساتھ فلسطین کی اسلامی ریاست کو بچانا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور مصر،اردن ، شام، لبنان عراق، سعودی عرب اور یمن کی مشترکہ فوجوں کو شکست ہوئی۔ اس پہلی عرب اسرائیل جنگ میں 7000 ہزار عرب اور 13000 فسلطینی شہید ہوئے اور اسرائیل کے6373  فوجی ہلاک ہوئے اور جنگ کا نتیجہ یہ رہا کہ اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم پر فلسطین کوجو علاقہ الاٹ کیا تھا اسرائیل اُس سے بھی 60% سے زیادہ رقبے پر قابض ہو گیا۔ اس جنگ میں در پرد برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی مدد بھی اسرائیل کو حاصل تھی۔ عرب ممالک میں عجیب صورتحال تھی اسلامی عقیدے کی بنیاد پر فلسطین کی مقدسسر زمین سے عوام کی جذباتی وابستگی تھی۔

باد شاہوں کی لیڈر شب میں ابھارا گیا عرب نیشنل ازم کام نہ آسکا ، لیکن 1917 کے سوویت یونین کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد مصر، سوڈان ، شام، عراق، اردن، لبنان وغیرہ میں پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی اجتماعی ناکامی کے بعد سیکولرازم اور سوشل ازم کے نظریات کے حامل آزاد خیال مسلمانوں اور عیسائیوں میں نظریاتی بنیادوں پر اتحاد بڑھنے لگا۔ یہ اتحاد عرب نیشنل ازم کی قدرِ مشترک کی بنیاد پر تھا۔ اب اِن ملکوں میں اگرچہ اکثریت مسلمانوں کی ہے، مگر1918 میں جنگ ِ عظیم اول کے خاتمے پر اسلامی وحدت کو ترک کرکے عرب لیڈروں نے عرب مسلمانوں کو ترک خلافت کے خلاف لڑوایا تھا اوراب یہ بادشاہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں ذلت آمیز شکست کھا کر اپنی بادشاہتیں بچا گئے تھے۔

اب یہ اشتراکی نوعیت کا اتحاد سیکولرازم اور نیشنل ازم کی بنیاد پر عیسائیت اور اسلامی عقائد سے بالا تھا کیونکہ یہ اُس یہودی آبادی کے خلاف تھا جس کو دنیا بھر سے لاکر فلسطین میں آباد کیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ اتحاد عالمی سطح پر اِن یہودیوں کی حمایت کرنے والے مغربی سرمایہ دار ملکوں کیخلاف ہو گیا ا ور سرد جنگ کے آغاز پر یہاں اِن کو سوویت یونین کی جانب سے مدد ملنے لگی۔

یہ وہ دور تھا جب دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میںاشتراکی ادب نے اشتراکی نظریات کی بنیاد پر جدوجہد کرنے کے عمل کو نوجوانوں میں ایک رومانویت بخشی تھی اور پسماندہ ملکوں میں اس بنیاد پر انقلابی تحریکیں چل رہی تھیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر ، عراق، شام، سوڈان اور ایسے ہی دوسرے ملکوں میں اشتراکی نظریات کی بنیاد پر سوویت یونین، چین اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ملکوں کی طرح کا مکمل اشتراکی انقلاب ممکن نہیں تھا کیونکہ اَن ملکوں میں مذہب اسلام کو ترک کرکے ایسا نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن سوویت یونین نے یہاں امریکہ ، برطانیہ سمیت سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملکوں سے مقابلے کے لیے اِن مقامی بائیں بازو کی تحریکوں کی حمایت اور مدد کی اور اس کے بعد بھی عوامی حمایت سے زیادہ یہاں سوویت یونین نے فوجی بغاوت یا انقلاب کے ذریعے بادشاہتوں کے تختے الٹے، مصر اور سوڈان میں روس نے جنرل نجیب اور کرنل عبدالجمال ناصر نے 1952 میں شاہ فاروق کو رخصت کر دیا، پھر ایسی ہی صورت 14 جولائی 1958 میں بغداد عراق میں ہوئی، جب بادشاہ الملک فیصل دوئم کے خلاف فوجی حمایت سے اُس کا تحتہ الٹ دیا گیا اور بادشاہ کو سرعام قتل کر کے لٹا دیا گیا، بعد میں ایسا ہی انقلاب لیبیا میں کرنل قذافی نے بر پا کیا۔

اگرچہ صدر جمال ناصر اور کرنل قذافی اور اسی طرح شام میں صدر بشارت الاسد اور صدر صدام حسین اپنے وقت کے مقبول لیڈر سمجھے جاتے تھے لیکن یہاں اِن کے یہ انقلابات معاشرتی ساخت کے اعتبار سے عوام کے سماجی، سیاسی شعور اور معاشرتی اقدار سے میل نہیں رکھتے تھے اور عالمی سیاسی بساط پر سابق سوویت یونین کے رویے اس اعتبار سے دوہرے معیار کے تھے مثلاً عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں عرب عیسائی اور مسلمان جو صدیوں سے یہاں رہ رہے تھے وہ اس لیے اشتراکی نظریے کے ساتھ سیکولرازم اور عرب نیشنل ازم کو اپنائے ہوئے تھے کہ یہاں فلسطین میں دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر آباد کیا جا رہا تھا اور اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن کی نفی کی جا رہی تھی کہ 1948 کی قرارداد سے یہاں کی مقامی مسلم اور عیسائی فلسطینی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔

پھر پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے فسلطین اور عرب ملکوں کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کو ظلم و جبر قرار دیتے ہو ئے شام ، عراق، سوڈان ، مصر اور بعد میں لیبیا میں جو حکومتیں سوویت یونین کی دوستی پر قائم ہوئیں وہ عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر اسرائیل اور اس کے حمایت کرنے والے ملکوں کے خلاف تھیں مگر دوسری جانب یہی سوویت یونین ہر سال خود پا نچ ہزار یہویوں کو روس سے نکلنے اور اسرائیل میں آباد ہونے کی اجازت دیتا تھا ۔ جب کہ مقامی طور پر عام عرب مسلمانوں کو اسلامی عقیدے کی بنیاد پر فلسطین کے مقدس ہونے کی وجہ سے اُن یہودیوںکے خلا ف غم و غصہ تھا جن کو دنیا کے دوسرے ملکوں سے یہاں لا کر آباد بھی کیا گیا اور پھر فسلطینی سر زمین پر آبادی کا توازن اُن کے حق میں کر کے اُنہیں صدیوں بعد یہاں الگ وطن دے دیا گیا تھا، لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ صدر جمال ناصر کا عرب نیشنل ازم اُس وقت عربوں میں اُس نیشنل ازم کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہوا جس کی لیڈر شپ پہلے عرب باد شاہوں کے پاس تھی جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر عربوں اور فسلطین کو مایوس کیا تھا اور اسرائیل سے عبرت ناک شکست کے بعد بھی اپنی بادشاہتوں کو بچانے کی ہی کوشش کی تھی۔

یوں انیس سو پچاس، ساٹھ کی دہائیوں تک یہ عرب قوم پرستی یہاں عوامی سطح پر بھی قابلِ قبول رہی اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ یہ انقلابی لیڈر جو فوجی انقلاب لائے تھے فوجی تھے اور ان کا مزاج جمہوری نہیں تھا مگر یہ بادشاہ یا شہزادے نہیںتھے عام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عرب تھے اب عرب ملکوں کے معاشروں میں زیادہ شرح ناخواندگی، سیاسی، سماجی شعور کی پستی کے ساتھ تین چار طرح کے رجحانات حکومتوں نے اپنائے ہوئے تھے۔

ساٹھ کی دہائی تک چونکہ اشتراکی نظریات کی حامل حکومتیں مصر، سوڈان ، عرق، شام اور پھر آخر میں لیبیا میں بادشاہتوں کے تختے الٹ کر سوویت یونین کی بھرپور حمایت اور امداد سے قائم تھیں اس لیے سعودی عرب اور اردن جیسے ملک جو اسرائیل کے قیام کے اصولی طور پر تو مخالف تھے لیکن وہ سوویت یونین سے بھی خائف تھے اس لیے اِن کے تعلقات امریکہ سے زیادہ مضبوط تھے اور اِن ملکوں کی فوجوں کی ٹریننگ اور انتظام اب امریکہ یا امریکہ نواز ملکوں کے تعاون سے تھا تاکہ اِن کی فوجیں سوویت یونین کے اشتراکی نظریات سے محفوظ رہتے ہوئے بادشاہتوں کی مکمل وفادار رہیں، اس میں اردن کی بادشاہت جہاں شاہ عبداللہ کے بعد ولی عہد شاہ حسین بعد میں بادشاہ ہوئے، زیادہ اہم تھے، کہ نہ صرف اردن کا حصہ ہی فلسطین کہلا رہا تھا بلکہ جنگ کے بعد اس ملک کے بڑے اور اہم حصے پر اسرائیل کا قبضہ بھی ہوا تھا۔

پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سرد جنگ کے حوالے سے اب کیونکہ سرد جنگ کا ایک بڑا مرکز مشرق و سطٰی بن گیا تھا اور فلسطینی مہاجرین کے یہاں آجانے سے اور اسرائیل کے خلاف سوویت یونین کی امداد سے فلسطینیوں کی گوریلا جد وجہد شروع ہو گئی تھی جس میں عیسائی اور مسلمان دونوں مقامی فلسطینی شامل تھے، یہاں اردن کے امریکہ سے بھی تعلقات بہت زیادہ اور مضبوط تھے اسرائیل کو بھی امریکہ امداد دیتا تھا اور اردن کو بھی، یوں بعد کے دنوں میں اردن میں بادشاہ کے خلاف مسلح بغاوت کی بھرپور کوشش کی گئی جس کو بادشاہ کی وفادار فوج نے کچل دیا اور اس میں بڑی تعداد میں فلسطینی جان بحق ہوئے۔

اسی طرح اُس وقت عوامی سطح پر اسلامی تحریکیں بھی منظم تھیں جن میں اخوان المسلمین زیادہ اہم رہی جس کا اثر آج بھی خصوصاً مصر میں کہیں زیادہ ہے، اس کے علاوہ لبنان ، شام ، عراق میں شیعہ مسلک کی حامی تنظیمیں بھی تھیں جو بعد کے دنوں میں زیادہ اہمیت اختیار کر گئیں لیکن عرب میں جہاں جہاں بادشاہتیں ہیں وہاں مساجد اور مدرسوں میں شاہ کے وفادار علما ِ دین ہی تعینات رہے۔ اسی طرح شام ، عراق، مصر، لیبیا اور سوڈان جیسے ملکوں میں جہاں سابق سوویت یونین کی حمایت اور امداد سے انقلابات آئے تھے یہاں بھی جمہوریت کی بجائے آمریت تھی اور اِن حکمرانوں کے مزاج بھی شاہانہ ہو گئے، اِن کے بھی بڑے بڑے محلات تھے۔

یہ آمریتیں بھی باوجود وسائل کے جدید انداز اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ملک وقوم کو ترقی و خوشحالی نہ دے سکیں اور قومی وسائل اوردولت کا استعمال یہاں بھی اِن شخصیات نے اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کیا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں اسرائیل میں نو آباد یہودی صدیوں کے تھپیڑے کھا کے دوبارہ ایک قوم کی صورت میں سامنے آئے تھے۔

یہ یہودی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کے بعد کم از کم ایک صدی کی منظم منصوبہ بندی اور پھر جیوش پرو ٹوکول پر اپنے مذہبی عقیدے سے جڑے نہایت جذباتی اور پُرخلوص اجتماعی جدوجہد کے بعد عربوں کے مقابلے پر تھے، یہ درست ہے کہ امریکہ ، بر طانیہ، فرانس اور روس سمیت یہ یہودی دنیا بھر میںجہاں جہاں ہیں صدیوں کی مستقل سکونت کی بنیاد پر پورے شہری حقوق رکھتے ہیں، وہاں ان کی حیثیت حکومتوں کے اعلیٰ عہد یداروں کی بھی ہے، اس لیے اقوام متحدہ میں اِن کے اس اثرو رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اپنے وجود میں آتے ہی اسرائیل کے قیام کا ایک ایسا فیصلہ کیا جو اُس کے اپنے چارٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلیریشن کے خلاف ہے اور دنیا میں کہیں ایسی نظیر نہیں ملتی کہ ایسے افراد کا ایک اجتماع دو ہزار سال بعد تشکیل دے دیا گیا ہو جو صدیوں سے روس، برطانیہ ، فرانس، جرمنی ، امریکہ ، ایران اور دوسرے ملکوں میں آباد ہوں اُن کو جمع کر کے اُس خطے میں پھر ایک ملک دے دیا جائے جہاں سے وہ صدیوں پہلے نکلے تھے۔

اگر یہی معیار مقرر کیا جائے تو پھر دنیا میں شاید ہی کو ئی ایسا ملک ہو گا جہاں دو ہزار سال پہلے جو قومیں آباد تھیں وہی اب وہاں اکثریت میں ہوں، اس طرح تو امریکہ میں آج جو آبادی ہے اس کی 95% اکثریت گذشتہ پانچ سو سال میں وہا ں آباد ہوئی ہے پھر انسانی تہذیب، تمد ن، ثقافت اور سماجی علوم کے ماہرین دنیا میں اس وقت تین بنیادی نسلوں کی آبادیوں کو قوموں اور ملکوں میں تقسیم کرتے ہیں جن میں منگول، سامی اور آریا تین بنیادی انسانی نسلیں ہیں، ایک قدیم انسانی نسل دراوڑ ہے جو تقربیاً معدوم ہو چکی ہے اور برصغیر میں صرف دو تین کروڑ کی تعداد میں رہ گئی ہے۔

اِن تین بنیادی نسلوں میں سامی نسل عرب اور یہودیوں کی کہلاتی ہے، شام ،عراق، مصر اور عرب کے علاقوں میں زیادہ تر اسی سامی نسل کے لو گ آباد ہیں جو مختلف ملکوں اور ثقافتوں کی بنیاد پر پھر کئی قوموں میں تقسیم ہیں، فلسطین میں اسی سامی نسل کی اکثریت ہزاروں سال سے آباد ہے جو بعد میں فلسطینی کہلائی، یہاں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانوں کی ہدایت کے لیے توحید کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے کئی انبیا اور پیغمبران بھیجے گئے ، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد تک ان سے پہلے انبیا پر ایمان لانے والے خود کو یہودی کہلواتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس کے بعد بہت سے سامی نسل سے تعلق رکھنے والے فلسطینی جو یہودی تھے اُ نہوں نے عیسائت کو قبول کیا اور پھر جب اسلام آیا تو یہی صورت یہاں آباد سامی نسل سے تعلق رکھنے والے اُن فسلطینی یہودیوں اور عیسائیوں کی تھی جنہوں نے اسلام قبول کیا، یوں سوشیالوجی کے ماہر ین کی قوم سے متعلق جو تعریفیں ہیں جنھیں اقوام متحدہ نے بھی اپنے چارٹر اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن میں اپنائی ہیں اُن کے مطابق اسرائیلی قوم کا یہ تصور درست نہیں تھا جس کو خود اقوام متحدہ نے 1948 میں اپنا کر فلسطین کی تقسیم کے بعد اسرائیل کے نام سے یہا ں ایک ملک اُن یہودیوں کے لیے قائم کر دیا جو صدیوں سے دنیا کے مختلف ملکوں کے شہری تھے۔

اب اس کا موازنہ اگر اسلام کے دو قومی نظریے سے کرایا جائے تو برصغیر میں قائد اعظم نے 1916 میں آل انڈیا کانگریس کے ساتھ میثاقِ لکھنو میں مشترکہ ہندوستان کی آزادی کی صورت میں ایک ایسی آئینی ضمانت کے لیے فارمولہ دیا تھا جس میں مشترکہ ہندوستان میں ہندو مسلم حکومت میں اکٹھا رہتے ہوئے اپنی اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ آبادی کے تناسب کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کے ساتھ رہتے، جیسے لبنان میں عرب عیسائی اور مسلمان حکومت رہتے رہے ہیں ۔ برصغیر ہندوستان میں موتی لال نہرو کی جانب سے میثاقِ لکھنو کے یک طر فہ رد کئے جانے کے بعد قائداعظم نے اسی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔

ویسے اسلامی عقیدے کے مطابق مسلمان ایک امت ہے اور آپس میں بھائی بھائی کی طرح اتحاد سے رہنے کا حکم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں شروع ہی سے پہچان کے لیے قبائل، قومیں اور قومیتیں رہی ہیں اور آج بھی ہیں جن کی اپنی اپنی زبانیں اور ثقافتیں ہیں ، یوں پاکستان میں یہاں کی شہریت رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ عیسائی، ہندو سبھی پاکستانی کہلاتے ہیں ، اور ساتھ ہی زبانوں اور ثقافتوں کے لحاظ سے بلوچ ، سندھی، پنجابی ، پشتوں، سرائیکی وغیرہ کہلاتے ہیں اور اقوام متحدہ نے جو قرار داد منظور کی اس پر عربوں کا موقف روزِ اوّل سے درست تھا اور آج بھی درست ہے، اس اعتبار سے قائد اعظم نے اسرائیل کے قیام سے قبل جو پیش گوئی کی تھی آج 72 سال گزر جانے پر وہ بالکل درست ثابت ہو رہی ہے۔

یوں یہ واقعی درست ہے کہ لمحوں کی غلطی کا خمیاز ہ تاریخ میں بعض اوقات صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے حوالے سے دانستہ طور پر تاریخی ناانصافی کی غلطی برطانیہ کی مرضی پر اقوام متحدہ نے کی اور عربوں میں سے بھی سیاسی سماجی طور پر بڑی غلطیاں اُس وقت کے بادشاہوں نے کیں اور پھر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی بڑی غلطیاں کیں ، بہرحال پہلی عرب اسرائیل جنگ عربوں نے بغیر تیاری کے لڑی، جنگ بندی کے بعد بھی ا قوام متحدہ اپنا موثر اور اور انصاف پر مبنی کرادا ر ادا کرنے میں ناکام رہا مگر سیاسی زبان میں مبصرین نے یہی کہا کہ عرب ممالک یہاں لابنگ کرنے میں ناکام رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔