سمجھوتے ہی سمجھوتے مک مکے ہی مک مکے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 14 مارچ 2020
barq@email.com

[email protected]

آپ نے دنیا میں بہت ساری بھلی بری چیزیں دیکھی ہوں گی ہم نے بھی دیکھی ہیں آپ کا تو پتہ نہیں لیکن ہم نے اب تک جس چیز کو سب سے بہترین پایا ہے وہ’’سمجھوتہ‘‘ہے۔بلکہ اگر اس ’’سمجھوتے‘‘ کو تمام اچھی بلکہ اچھی اچھی چیزوں کا سرچشمہ، مخزن کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔کہ ہرہر چیز ہرہرکام اور ہر ہر مسئلہ اس سے ہی پیدا ہوتا ہے اور اسی میں جاکر مل جاتاہے۔

کسی بھی چیز کو لیجیے ذرے سے آفتاب تک، راوی سے چناب تک اور پنجاب سے خیبر تک جدھر دیکھیے توہی تو ہے بلکہ اگر سمجھوتہ نہ ہوتا توجہان میں کچھ بھی نہ ہوتاساری دنیا مائنس سوڈگری پرجمی رہتی۔کوئی حرکت کوئی آواز کوئی وجود نظرنہ آتا اس لیے ہم نے ’’سمجھوتے‘‘کو ام الجہان ،ام الزمان، ام المکان اور ام الانسان والحیوان ہی پایا ہے

ہے کائنات کوحرکت تیرے ذوق

پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے

کم ازکم ہم نے آج تک دنیا میں ایسی کوئی چیز دیکھی نہ سنی ہے جس میں سمجھوتہ موجود نہ ہو اور پھر ہماری خوش قسمتی بلکہ خوش قسمتی اور بدقسمتی کے درمیان سمجھوتے کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں سمجھوتہ ہی سمجھوتہ ہے بلکہ باقی دنیا میں سمجھوتہ صرف ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں سمجھوتہ’’طے پا‘‘جاتا ہے۔اور پھر سیاست کی دنیا میں؟واہ جی واہ۔بلکہ پاکستان خود بھی ایک بہت بڑا سمجھوتہ ہے جس کے اندرسمجھوتے ہی سمجھوتے ہیں اور پھر ان سمجھوتوں کے بھی سمجھوتے ہی سمجھوتے اور پھران سمجھوتوں میں بھی۔مطلب یہ کہ

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

کچھ لوگ شاید سمجھوتے کی اہمیت، افادیت، ہمہ گیریت اور ماہیت سے واقف نہ ہوں اس لیے ہم سمجھوتے کے چند بہترین نمونے پیش کرتے ہیں مثلاً وہ جوتھانیدار کی بیوی نے اس کی جیب سے دو سو روپے چرائے اور تھانیدار نے اسے رنگے ہاتھوں بلکہ نوٹوں ہاتھوں دیکھا تو بولا۔یو آر انڈر اریسٹ۔اس پر بیوی نے نہایت انصاف سے نصف لی ونصف لک کرتے ہوئے ایک نوٹ تھانیدار کے ہاتھ میں پکڑایا اور سمجھوتہ ہوگیا بلکہ طے پا گیا۔

ہمارے گاؤں کے ان دو گڈریوں کا قصہ ہم نے آپ کو سنایا ہے کہ دونوں میں جھگڑا ہوگیا دونوں نے اپنے اپنے ریوڑ الگ کیے اور ایک سڑک کو لائن آف کنٹرول قرار دے کر کہا کہ اس طرف تم اس طرف ہم۔لیکن تھوڑی دیر بعد ایک گڈریے نے نکتہ اعتراض اٹھاکر کہا کہ پانی کا تالاب تو تمہاری طرف رہ گیاہے میں اپنے جانوروں کوپانی کہاں سے پلاؤں گا؟دوسرے نے سمجھوتے میں پہلی ترمیم پیش کرتے ہوئے قانون سازی کی کہ ٹھیک ہے تم اپنا ریوڑ میرے علاقے میں لاسکتے ہو لیکن تالاب تک آتے جاتے تمہارے جانور راستے میں چریں گے بھی اس لیے میں بھی تمہارے علاقے میں اتنی دیر تک اپنا ریوڑ چراؤں گا اور پھر اس پرڈن ہوگیا کہ کبھی کبھی کچھ کچھ تم بھی میرے علاقے میں آسکتے ہو اور میں بھی آؤں گا۔اور کچھ دنوں بعد دونوں ہی دونوں علاقوں میں اپنے ریوڑ چرانے لگے۔

یہیں سے سمجھوتے کا نام’’مک مکا‘‘پڑگیا جس کا ذکرہم اکثر کرتے رہتے ہیں اور آپ اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔سمجھوتے عرف’’مک مکا‘‘ہی کی برکت ہے کہ سیاسی ریوڑوں میں بھی آوٹ گوئنگ اور ان کمنگ برابر چلتی رہتی ہے، سمجھوتے ’’طے پاتے‘‘رہتے ہیں اور ملک چل رہا ہے اور بڑا اچھا چل رہاہے کیونکہ چلتی کانام گاڑی ہوتاہے جوبیک وقت’’چلتی‘‘بھی ہوتی ہے اور گاڑی بھی ہوتی ہے۔اور گاڑی آتی بھی ہے اور ’’گاڑی‘‘جاتی بھی ہے۔ یہ بھی ایک سمجھوتہ اور مک مکاہے کہ صرف ’’گاڑی‘‘ہی نہیں بلکہ سڑکیں بھی اس پر عمل پیرا ہیں ایک ہی سڑک اسلام آباد جاتی ہے بھی اور وہی سڑک اسلام آباد سے آتی بھی ہے وہ بھی اپنی جگہ سے ہلے بغیر۔اسی بات پر تو بجلی کے ایک افسر کو شکایت ہے کہ لوگ بجلی جانے کی بات کرتے ہیں لیکن آنے کی بات نہیں کرتے۔

اگر بیس مرتبہ جاتی ہے تو انیس مرتبہ آتی بھی توہے اور انیس بیس کافرق کوئی فرق ہی نہیں آپ خود ہی ایمانداری سے بتائیں کہ آپ کو ’’انیس‘‘ اور ’’بیس‘‘میں کوئی فرق نظر آیا۔چلیے پھرغور کریں انیس اور بیس میں کوئی ’’فرق‘‘ ہے؟ اگرکچھ ہے تو صرف اتنا انیس،انیس تھا اور بیس بیس ہے۔ (19۔20)باقی فرق بھی اتنا ہی ہوگا۔ وہی انیس جو تھوڑا سابڑھ کر بیس ہوگیاہے بس۔اور یہ کوئی فرق نہیں۔مرے ہوئے کو انیس کوڑے مارو یا بیس۔تو مردے کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔ع

جلا ہے جسم جہاں،دل بھی جل گیاہوگا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیاہے؟

یہ جولوگ ایک پارٹی سے نکل کر دوسری میں ’’جاتے‘‘ہیں اور پھر اسی پارٹی میں ’’آتے‘‘بھی ہیں تویہ سب سمجھوتے اور مک مکے ہی کی برکت ہے

شاید مجھے نکال کے ’’کچھ کھا‘‘رہے ہوں آپ

پارٹی میں اس خیال سے پھر آگیاہوں میں

اور اگر مزید غور کیاجائے تو سمجھوتے کو انصاف بھی کہہ سکتے ہیں نصف نصف آدھا آدھا ففٹی ففٹی۔ یہ اس طرف وہ اس طرف تھوڑا ایک پلڑے میں تھوڑا دوسرے پلڑے۔ہوگیا انصاف۔تم بھی خوش ہم بھی خوش۔سمجھوتہ طے پاگیا۔وہ جو علامہ اقبال نے کہاہے

من ازیں پیش نہ دانم کہ کفن دردے چند

بہرتقسیم قبور الغمنے ساختہ اند

جب ’’تقسیم قبور‘‘پر سمجھوتہ طے پاگیا تو سمجھوتہ بھی مک مکا بھی ہوگیا انصاف بھی ہوگیا قانون سازی بھی ہوگئی باقی کیابچا؟’’مردہ‘‘تومردہ کوئی شہربازار تو آتاجاتانہیں۔ایک جگہ پڑا رہتاہے زمین کے سات پردوں کے نیچے۔کفن پہنے ہوئے یا مٹی اوڑھے ہوئے کیافرق پڑتاہے۔پڑا رہے سمجوتے کے نیچے۔ مردہ بدست زندہ بلکہ بدست سمجھوتہ

نحیف وزار ہیں کیا زور باغبان پہ چلے

جہاں بٹھادیا بس رہ گئے شجر کی طرح

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔