حکومت کا بینک قرضوں پر انحصار سے نجی شعبہ متاثر

شہباز رانا  ہفتہ 14 مارچ 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 اسلام آباد:  حکومت کی جانب سے بینک قرضوں پر انحصار کے نتیجے میں اب کمرشل بینکوں نے پراؤیٹ سیکٹر ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے حالانکہ اس وقت نجی شعبے کی جانب سے قرضے کم لیے جارہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے کارروائی کی یہ تفصیل مانیٹری پالیسی کے اگلے اجلاس سے قبل جاری کی گی ہے جو آئندہ منگل کو اسلام آباد میں ہوگا۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا گزشتہ اجلاس 28 جنوری کو منعقد ہوا تھا۔

گزشتہ اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ رواں مالی سال معاشی شرح نمو کم رہے گی کیونکہ زرعی پیداوار کے متاثر ہونے اور ایف بی آر کی جانب سے محصولات کے ہدف کو حاصل نہ کرنا ہے جو حکومت نے 5 ہزار ارب روپے رکھا ہے۔ اس اجلاس میں بتایا گیا کہ کمرشل بینک نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی کے لیے اضافی چارجز چاہتے ہیں کیونکہ ان قرضوں کی واپسی سے وابستہ خدشات زیادہ ہیں۔

اجلاس کی کارروائی کے مطابق حکومت نے بینکوں سے قرضوں کے حصول میں اضافہ کیا ہے جس کے بعد خدشات کے بغیر سرمایہ کاری اور قرضوں کی فراہمی یکساں ہوگئے ہیں کیونکہ اس سے قبل حکومت حاصل شدہ قرض بینکوں کو واپس کررہی تھی۔حکومت کی جانب سے مرکزی بینک کے بجائے دیگر بینکوں سے قرضوں کے حصول کے بعد انٹربینک مارکیٹ اس وقت منفی رجحان میں چل رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ نجی شعبے کی جانب سے قرضوں کی طلب میں نمایاں اضافہ نہیں ہورہا کیونکہ اس وقت شرح سود زیادہ ہے، اس کے علاوہ سست معاشی سرگرمیاں اور حکومت کی جانب سے قرضوں کے زیادہ حصول اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔

نجی شعبے کی جانب سے یکم جولائی 2019 سے لے کر 17 جنوری 2020 کے دوران مجموعی طور پر 146 ارب روپے قرض لیا گیا جو گزشتہ سال اس عرصے میں 507 ارب روپے تھا۔ اس کی وجوہات میں بڑی صنعتوں کو قرضوں کی فراہمی میں کمی بھی شامل ہے۔

مانیٹری پالیسی اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ زرعی شعبے کی کم پیداوار کی وجہ سے بھی معاشی نمو ہدف سے کم رہے گی۔ حکومت نے یہ شرح نمو چار فیصد جبکہ مرکزی بینک نے 3 اعشاریہ 5 فیصد رکھی تھی اور بعد میں اس میں مزید کمی کا اظہار کیا تھا۔کپاس کی فصل میں کمی کا براہ راست اثر رواں مالی سال کی مجموعی قومی پیداوار پر ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل شعبہ اور اس سے وابستہ برآمدات متاثر ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔