پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کا جدید آلہ

شاہد سردار  اتوار 15 مارچ 2020
قابل رحم ہے وہ قوم جس کے گنتی کے کچھ افراد کے سوا باقی سبھی کی زندگی ایک دکھ بھری داستان ہو

قابل رحم ہے وہ قوم جس کے گنتی کے کچھ افراد کے سوا باقی سبھی کی زندگی ایک دکھ بھری داستان ہو

دنیا کی ہر ایجاد کے جہاں مثبت پہلو ہوتے ہیں، وہیں منفی پہلو بھی ہوتے ہیں اور یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے کہ اس ایجاد کے مثبت پہلوؤں سے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بناتے ہیں یا منفی پہلوؤں سے دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا نے جہاں انسان کی زندگی کو انتہائی تیز اور سہل بنا دیا ہے وہیں منفی ذہنیت کے حامل افراد اس نعمت کو دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کے لیے بھی استعمال میں لاتے ہیں اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان میں بعض وطن دشمن قوتیں اور سماج دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر اس یلغارکو نہ روکا گیا تو ان سے معاشرے میں بگاڑکا پھلنا پھولنا ایک منطقی امر ہوگا۔

نہ جانے کتنی ایسی خواتین، بچے اور بڑے ہیں جنھیں موبائل فون کی سہولت راس نہیں آئی اور وہ ایک ایسی اذیت میں مبتلا ہوچکے ہیں جسے دوسروں سے شیئرکرنے کے لیے بھی بہت بڑا جگرا چاہیے۔ اسلام آباد کی ایک این جی او کے ذریعے یہ ہولناک انکشاف رپورٹ کی شکل میں کیا گیا ہے کہ تقریباً 21 ہزار طالبات کو سرکاری جامعات کے مرد اساتذہ کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ رات گئے موبائل فون اور ان کے ذریعے پیغامات کی صورت جاری رہتا ہے اورکوئی طالبہ اس کا مثبت جواب نہ دے تو اسے امتحان میں ڈی گریڈ دیا جاتا ہے۔

ایک طالبہ جس کا تعلق راولپنڈی سے ہے اس کے مطابق ’’عمومی طور پر ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے ایسے واقعات کے لیے بنائی گئی انکوائری کمیٹیاں اساتذہ کے حق میں ہی رپورٹ دیتی ہیں جس کا مقصد تعلیمی ادارے کو بد نامی سے بچانا ہوتا ہے، مگر ایسے حالات میں ہراسانی کے واقعات بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘

معاشرے کی تنزلی اس حالت کو پہنچ چکی ہے کہ کالجوں، یونیوسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیاں مرد اساتذہ کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں سمجھی جاسکتیں کیونکہ انکوائری کمیٹی میں بھی استاد یا منصف کے روپ میں ایسے بھیڑیے شامل ہوتے ہیں اور بڑی تعداد میں طالبات کی طرف سے شکایات کے باوجود بہت کم ایسے کیس سننے یا پڑھنے کو ملتے ہیں جہاں ہراسانی کے مجرم استاد کو سزا ملی ہو۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی محتسب کو 2019 میں 2018 سے دگنی شکایتیں موصول ہوئیں اور سب سے زیادہ شکایتیں پنجاب جیسے ملک کے بڑے صوبے سے موصول ہوئی ہیں۔

دنیا میں بہت سے ممالک اپنی عزت نفس ، افتخار اور اپنی سالمیت وخود مختاری پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ لیکن ہمارے ہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، ہمارے جیسے ملک، ہمارے جیسے معاشرے اور ہمارے جیسے سیاسی نظام میں کچھ بھی ناممکن نہیں، یہاں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حریفوں کو آن لائن، سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے طور پر ٹھیک کر رہی ہوتی ہیں یعنی ایک دوسرے پرگند اچھالنے کے لیے نئی نسل کو ماہانہ 25 ہزار پر رکھتی ہیں یوں وطن عزیزکی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں بیشتر نوجوانوں کا روزگار آن لائن گالی گلوچ سے وابستہ ہے اور پھر ایسا کیوں کر نہ ہو جب مہنگائی، بے روزگاری، افراتفری اور خودغرضی ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو قیمتی چیزیں بہت ہی سستی اور ارزاں ہوجاتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ تک آسان رسائی ممکن ہونے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے استعمال میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جس سے ایک طرف سماجی رابطوں میں تیزی عام آدمی میں سیاسی شعورکی بیداری، حقوق کے ادراک سمیت کئی مثبت معاشی وسماجی پہلو سامنے آئے ہیں، وہیں اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل میڈیا پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کے جدید آلے کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔

صورتحال کچھ یوں ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ذاتی اغراض ، نفرت کے پرچار اور عزت وناموس کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی شناخت مخفی رکھ کرکسی بھی قسم کے مواد کی تشہیر ہوسکتی ہے اور نگرانی کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب ایسی ان گنت مثالیں اور واقعات سامنے بھی آتے رہتے ہیں۔

ویسے بھی ہمارے مادر پدر آزاد معاشرے میں چیک اینڈ بیلنس کا فقدان بہت طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اس لیے بھی کہ آزاد ہونے کے لیے آزادی ضروری نہیں ہوتی۔ حضرت بلال حبشی غلام ہوتے ہوئے بھی آزاد تھے اور ہم میں سے اکثر لوگ آزاد ہوتے ہوئے بھی غلام ہی ہیں اپنی خواہشوں اپنے نفس کے۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ مستقبل کے معماروں خاص طور پر نوجوانوں میں ذہنی انتشار، کنفیوژن اور عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے اورکون نہیں جانتا کہ نوجوان ہی کسی ملک کا اصل حسن اور اصل خوشبو ہوتے ہیں، اور جب نوجوان دل برداشتہ ہوکر غیر فطری اور غیر ضروری عمل اختیار کر لیں ( اور طرفہ تماشا مستقبل کے معماروں کو بنانے والے اساتذہ بھی ) تو پورے معاشرے کی خوشبو خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

یہ دھڑکا نہیں، خدشہ بھی نہیں حقیقت آمیز فکر ہے جس سے یہ ملک دوچار ہو چکا ہے۔ ہمارے گھروں کی عزتیں اور غیرت بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں داؤ پر لگی ہوئی ہیں جنسی ہراسانی کے نام پر۔ اسے کچھ بھی کوئی کہے سوشل میڈیا کو اس کا ذمے دار ٹھہرائے یا نئی نسل کی بے راہ روی کو اس کی وجہ قرار دے ہم سب کی بقا داؤ پر لگ چکی ہے اور جس درخت کی جڑیں ننگی ہوجائیں اسے کوئی موسم سوکھنے سے نہیں بچا سکتا۔

دنیا کا مشکل ترین کام اپنے علم پر عمل کرنا ہے لیکن اگر عمل سے خالی انسان بے علمے بھی ہوں، زیادہ تعداد میں ہوں اور اقتدار میں بھی ہوں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ بے اختیار لوگوں کو دوسروں کی زندگی کا اختیار دینے کے لیے دس بار سوچنا چاہیے لیکن ہماری حکومت بنانے والی ’’کمپنی‘‘ نے ایک بار بھی شاید ایسا نہیں سوچا نتیجے میں انہونیاں اور بونگیاں ہو رہی ہیں اور وہ ہو رہا ہے جو گزشتہ 73 سالوں میں نہیں ہوا۔ ان سب کے باوجود حیرانگی ہے کہ انسان ایسے انسانوں کی موجودگی میں زندہ بچا ہوا ہے اور اس کی تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔

وطن عزیز میں حکومت کوئی بھی کرے بس وہ ملک کے نوجوانوں سے برا کام نہ کرے، نئی نسل کے ساتھ برا سلوک نہ کرے، ان کے حقوق پامال نہ کرے ، ان کے حقوق کی پاسداری کرے ورنہ پاکستان کا نام حد درجہ بدنام ہو جائے گا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اپنا چہرہ گرد آلود ہو تو آئینے پر تھوکنا ایک غلط فعل ثابت ہوتا ہے۔ آئینہ توڑنے یا اس میں نقص نکالنے کے بجائے اپنا چہرہ دھوکر ثابت کرنا ہی دانش مندی کہلاتی ہے۔ ہماری موجودہ حکومت سے عوامی شکایتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور احتجاج بھی ہو رہا ہے، اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ احتجاج کے لیے بلند ہونے والی صداؤں کو اگر نہ روکا جائے تو وہ بددعائیں بن جاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔