کورونا وائرس نے پاکستان سپر لیگ کو بھی کلین بولڈ کردیا

میاں اصغر سلیمی  منگل 17 مارچ 2020
کورونا وائرس کی شدت کے پیش نظر پاکستان سپر لیگ کے باقی میچز ملتوی کردیے گئے۔ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس کی شدت کے پیش نظر پاکستان سپر لیگ کے باقی میچز ملتوی کردیے گئے۔ (فوٹو: فائل)

17 مارچ کو صبح سویرے ہی آفس جانے کی تیاری پکڑ لی۔ جلدی پہنچنا اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ پاکستان سپر لیگ کے دونوں سیمی فائنل میچز قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جو کھیلے جانے تھے۔ پہلا میچ ملتان سلطانز اور پشاور زلمی کی ٹیموں کے درمیان دوپہر 2 بجے شیڈول تھا، جبکہ دوسرے مقابلے میں لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کی ٹیموں نے شام 7 بجے ایک دوسرے کے خلاف ایکشن میں دکھائی دینا تھا۔

میں بخوبی جانتا تھا کہ ان مقابلوں کے دوران کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کےلیے کوئی بھی تماشائی اسٹیڈیم میں موجود نہ ہوگا، لیکن اس بات کی بھی خوشی تھی کہ پی ایس ایل اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہورہی ہے اور سیمی فائنل مقابلوں کے بعد 18 مارچ کو لیگ کا فائنل مقابلہ بھی کسی نئی ٹیم کے چیمپئن بننے کے ساتھ اختتام پذیر ہوجائے گا۔

قذافی اسٹیڈیم پہنچنے کےلیے ابھی راستے میں ہی تھا کہ پاکستان سپر لیگ کے ملتوی ہونے کی اطلاع آگئی۔ بعد ازاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان نے بھی لیگ کے باقاعدہ ملتوی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے، ہمارے لیے کھلاڑیوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔

2 عشروں کے دوران ملکی اور غیر ملکی سطح پر متعدد بار ایونٹس کی کوریج کرنے کا موقع میسر آیا۔ اسپورٹس ایونٹس بالخصوص کرکٹ مقابلوں کی رپورٹنگ تو بہت بار کی۔ بہت کم بار ایسا ہوا جب نامساعد حالات کی وجہ سے کوئی بڑا ایونٹ منسوخ یا ملتوی کیا گیا ہو۔ اچھی طرح یاد ہے کہ 3 مارچ 2009 کو سری لنکن کرکٹ ٹیم پر بعض شدت پسندوں نے حملہ کیا، جس میں مہمان ٹیم کے 6 کھلاڑی نہ صرف زخمی ہوئے بلکہ پولیس افسران سمیت 8 شہری بھی جاں بحق ہوئے۔ اس واقعے کے بعد سری لنکن ٹیم پاکستان کا دورہ ادھورا چھوڑ کر اپنے وطن لوٹ گئی۔ اس سے قبل 2002 میں کراچی کے ایک ہوٹل کے قریب بھی بم دھماکا ہوا تھا، جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے بھی دورہ مکمل کرنے کے بجائے اپنے وطن جانے کو ترجیح دی۔

سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا تو پی سی بی نے پاکستان سپر لیگ کے مقابلے یو اے ای میں کروانے کا سلسلہ شروع کیا، جو 2019 تک جاری رہا۔ لیگ کی افتتاحی اور اختتامی تقریب میں تو شائقین کا خاصا رش ہوتا تھا، تاہم مقابلوں کے دوران بہت کم کرکٹ پرستار اسٹیڈیمز کا رخ کرتے تھے۔ اس صورت حال کے بعد پی سی بی نے پی ایس ایل کے تمام مقابلے پاکستان میں ہی کروانے کا اعلان کیا۔ بورڈ کا یہ تجربہ خاصا کامیاب بھی رہا اور پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے دوران پرستاروں کا جوش وخروش عروج پر رہا۔ لاہور سمیت کراچی، راولپنڈی اور ملتان کے اسٹیڈیمز شائقین سے بھرے رہے۔ کرکٹ کے دیوانوں اور مستانوں نے لیگ کے مقابلوں سے نہ صرف بھرپور انجوائے کیا بلکہ تالیوں کی گونج میں کھلاڑیوں کے عمدہ کھیل کی دل کھول کر تعریف بھی کی۔ بین ڈنک، کرس لین سمیت دوسرے غیر ملکی پلیئرز بھی پاکستانی شائقین کے رویے اور مہمان نوازی سے خاصے متاثر بھی نظر آئے۔

کورونا وائرس کی وبا چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس موذی وبا سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکا اور ابتدا میں پاکستان سپر لیگ کے میچز بغیر تماشائیوں کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لاہور قلندرز اور ملتان سلطانز کے درمیان 15 مارچ کو پی ایس ایل کا میچ لاہور میں شیڈولڈ تھا۔ مقابلے کی کوریج کےلیے آفس سے قذافی اسٹیڈیم کےلیے روانہ ہوا تو نشتر اسپورٹس کمپلیکس کا گول چکر بالکل سنسان اور ویران دکھائی دیا۔ یہ وہی گول چکر ہے جہاں پر لیگ کے میچز کے موقع پر بچوں، بوڑھوں سمیت سیکڑوں شائقین کا رش ہوتا تھا۔ کرکٹ پرستار ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے تھے۔ کچھ شائقین نے اپنے چہرے قومی پرچموں سے پینٹ کیے ہوئے ہوتے تھے۔ ویرانی کا یہ ماحول اور منظر دیکھ کر خاصا دکھ اور افسوس بھی ہوا۔ قذافی اسٹیڈیم پہنچا تو وہاں پر بھی سناٹے کا راج تھا۔ اسٹیڈیم کے وہ انکلوژرز جہاں پر میچز کے دوران ہر وقت شائقین کے فلک شگاف نعرے گونج رہے ہوتے تھے، وہاں پر بھی کوئی تماشائی موجود نہ تھا۔ گو لاہور قلندرز اور ملتان سلطانز کے درمیان مقابلہ بڑا زبردست اور شاندار رہا، دونوں طرف سے چوکوں اور چھکوں کی خوب بارش بھی ہوئی، لیکن افسوس کھلاڑیوں کی اس شاندار پرفارمنس پر داد دینے والا اسٹیڈیم میں کوئی موجود نہ تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ پاکستانیوں کا محبوب کھیل کرکٹ کا میچ نہیں بلکہ یہاں پر کچھ اور ہی ہورہا ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس نے جو تباہی مچا رکھی ہے اور جس طرح لوگ اس مہلک مرض کا شکار ہوکر اپنی جان کی بازی ہار رہے ہیں، اس کے بعد اس خطرناک وائرس سے بچنے کےلیے احتیاطی تدابیر اختیار کیا جانا ضروری بھی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کو ملتوی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ نہ صرف درست ہے بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اس وقت تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا حصہ بننے والے ایک کھلاڑی میں کورونا وائرس ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ پی سی بی نے چاروں سیمی فائنلسٹ ٹیموں کے اسکواڈز میں شامل تمام کھلاڑیوں، سپورٹنگ سٹاف، کمنٹریٹرز، میچ آفیشلز، فرنچائز مالکان اور پروڈکشن کریو کے ٹیسٹ کےلیے تمام انتظامات مکمل کیے ہیں اور ان تمام افراد کو ٹیسٹ کی رپورٹس موصول ہونے تک سفر سے گریز کرنے کا مشورہ کیا ہے۔

کورونا وائرس کے پیش نظر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان آئندہ ماہ شیڈول سیریز پہلے ہی ملتوی کی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈز اب مستقبل میں آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں شامل سیریز کو مکمل کرنے کےلیے باہمی مشاورت سے فیصلہ کریں گے۔ بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ پی سی بی نے 25 مارچ سے شروع ہونے والے پاکستان کپ کو بھی غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی کردیا ہے۔ انٹرنیشنل اور قومی ایونٹس تو درکنار اب تو کرکٹ کے ساتھ ہاکی، باکسنگ، ویٹ لفٹنگ، اسنوکر سمیت دوسرے ملکی کھیلوں کے کلب سطح کے ایونٹس تک ملتوی کردیے گئے ہیں۔

مستقبل میں کورونا وائرس کی وبا کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس کا اندازہ تو آگے جاکر ہی ہو سکے گا، تاہم یہ بات طے ہے کہ کورونا وائرس کا واحد حل احتیاط ہی ہے اور ہمیں اس موذی وائرس پر مکمل قابو پانے تک کسی بھی نئی سرگرمی کو شروع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Mian Asghar Saleemi

میاں اصغر سلیمی

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، دو عشروں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ 12 برس سے ایکسپریس کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔