کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور ہلاکتیں

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 18 مارچ 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

گلبہارکراچی میں چار منزلہ عمارت گری۔ اس کا ملبہ دو اور عمارتوں پر گرا، یوں کمزور عمارت کا ملبہ  گرنے والی دو عمارتوں میں زیادہ نقصان ہوا۔ اس حادثے میں27 افراد جاں بحق ہوئے۔ اردو یونیورسٹی کے ایک استاد سمیت کئی خاندان صف ہستی سے مٹ گئے۔

اس استاد کے تین چھوٹے بچے اب کس کے رحم وکرم پر زندگی گزاریں گے ؟ یہ عمارت غیر قانونی طور پر 40 گز کے پلاٹ پر تعمیر کی گئی تھی۔ کراچی کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ گل بہار رضویہ سوسائٹی پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہے۔ اس علاقے میں ایسی کئی سو عمارتیں موجود ہیں۔ یہ مسئلہ صرف گلبہار اور رضویہ سوسائٹی پولیس اسٹیشن کے علاقہ تک محدود نہیں ہے۔

لیاقت آباد، جمشید ٹاؤن، دہلی کالونی، پی اینڈ ٹی کالونی، ملیر، لانڈھی اور دیگر علاقوں میں چھوٹے پلاٹوں پر تعمیر ہونے والی کثیر منزلہ عمارتوں کی تعداد ان گنت ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے کہتے ہیں کہ یہ تمام عمارتیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے تعمیر کی گئی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچی آبادیوں میں تعمیرات کی نگرانی ان کے دائرہ میں نہیں ہے۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے بڑے شہروں حیدرآباد اور سکھر میں بھی ایسی عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں۔ چند ماہ قبل سکھر میں ایک عمارت کے منہدم ہونے سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ کراچی میں قدیم آبادی رنچھوڑ لائن میں ایسی ہی ایک عمارت منہدم ہوئی تھی۔ جب بھی کوئی عمارت منہدم ہوتی ہے تو جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ گورنر، وزیر اعلیٰ، وزراء اور سیاسی رہنما تعزیتی بیانات دیتے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن والے ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں، پھر سب بھول جاتے ہیں۔ کراچی ملک کا پہلا شہر ہے جہاں عمارتوں کی تعمیرکے قوانین نافذ ہوئے۔ ہر پلاٹ پر تعمیر سے پہلے نقشہ کی منظوری ، عمارتی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد کی چیکنگ ، عمارت کی تعمیر کے بعد متعلقہ سول انجنیئر سے تکمیل کا سرٹیفکیٹ اور پھر اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر بجلی، گیس اور سیوریج لائنوں کی تنصیب قانون کا حصہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 70 برسوں کے دوران عمارتوں کی تعمیرات کے بارے میں قوانین میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں۔ 50 ، 60 اور 70کی دہائی تک اس نقشہ کی منظور دی جاتی تھی جس میں پلاٹ کے چاروں طرف کئی میٹر زمین خالی چھوڑنا لازم تھا۔ متعدد بارکثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کے بارے میں قوانین میں ترامیم ہوئیں۔ پورے شہر میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیدی گئی۔ اربنائزیشن (Urbanization) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید شہروں میں بہتر ہے کہ بلند عمارتیں تعمیر کی جائیں، یوں ٹرانسپورٹ اور بنیادی سہولتوں کے مسائل پیدا نہیں ہوںگے۔ جدید شہروں میں بلند عمارتوں کے جال نظر آتے ہیں مگر یورپ اور امریکا میں ماحولیات اور انسانی زندگیوں کے تحفظ کے اصولوں کی پابندی کرکے بلند عمارتیں تعمیرہوتی ہیں۔

بلڈنگ مٹیریل مستند لیباریٹری سے ٹیسٹ شدہ ہوتا ہے اور بلند عمارتوں کے درمیان مخصوص فاصلہ ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ ہوا کے گزر میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ ہر عمارت میں آگ بجھانے کا خودکار نظام ، متبادل زینے اور بجلی کی فراہمی کے خودکار نظام ہونا لازمی ہوتا ہے، مگر کراچی میں کبھی ان معاملات پر قوانین کے عمل درآمد کے لیے لائحہ عمل تیار نہیں ہوا۔ ایک سینئر رپورٹر کا کہنا ہے کہ اس صدی کے پہلے عشرہ میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ تیز ہوا۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکاروں نیایسی تعمیرات سے مالی فوائد حاصل کرنے شروع کیے۔

بااثر جنگجو فورس رکھنے والی سیاسی جماعت کے کارکنوں کے دباؤ کی بناء پر سرکاری اہلکاروں نے اس طرح کی تعمیرات سے صرف نظرکرنا شروع کیا، یوں پہلے چائنا کٹنگ کی اصطلاح رائج ہوئی اور اس کے نتیجے میں تیار ہونے والے چھوٹے پلاٹوں پر بھی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر ہونے لگیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شہر ایک ہڑتال کی کال پر بند ہو جاتا تھا۔ اس زمانے میں صرف چھوٹے پلاٹوں پر کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر میں تیزی نہیں آئی بلکہ بڑے پلاٹوں پر بھی بڑی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت مل گئی۔ طارق روڈ ، خالد بن ولید روڈ، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور کلفٹن وغیرہ کے علاقوں میں بلند عمارتوں کے جنگل آباد ہوئے۔

2008میں پیپلز پارٹی کا دور حکومت شروع ہوا۔ اس صورتحال کا احتساب کرنے کے بجائے مزید تعمیرات کی اجازت دیدی گئی۔ کراچی کی بہت سی اہم شاہراہیں کمرشل قرار دی گئیں، یوں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرکا قانونی جواز مل گیا، اگرکچھ عمارتیں قواعد وضوابط کی پابندی کرتے ہوئے تعمیر ہوئیں مگر ماحولیات کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردیا گیا۔

اگرچہ ہر سال کئی عمارتوں کو مخدوش قرار دیے جانے اور عمارت کے منہدم ہونے کے واقعات مستقل ہوتے رہے مگر کراچی کی انتظامیہ نے عمارت کے منہدم ہونے سے ہونے والے نقصا ن کو کم کرنے اور قیمتوں زندگیوں کو بچانے کے لیے جدید نظام کے قیام اور عملے کی تربیت کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہی وجہ ہے کہ گلبہارکی عمارتوں کے منہدم ہونے کے بعد عمارت کے ملبہ میں گھرے ہوئے افراد کا موبائل یا ٹیلی فون پر اپنے رشتہ داروں سے رابطہ ہوا مگر ملبہ سے انسانوں کو نکالنے کے لیے جدید آلات اور ضروری تربیت نہ ہونے کی بناء پر بہت سے افراد 24 گھنٹے کے قریب زندہ رہنے کے باوجود ملبہ سے نکالے نہ جاسکے اور بعد میں ان کی لاشیں ملبے سے برآمد ہوئیں۔

اگرچہ بلدیہ کراچی ، فائر بریگیڈ، رینجرز اور فوج کے اہلکار ملبہ سے انسانوں کو نکالنے کے مشن پر معمور تھے مگر عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ اندھیرا ہوتے ہی ریسکیو آپریشن ختم ہوا کیونکہ متعلقہ عملے کے پاس رات کو ملبہ ہٹانے کے آلات موجود نہیں تھے اور نہ ہی انتظامیہ روشنی کا معقول انتظامی نہیں کرپائے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حادثہ کے فورا بعد ہزاروں افراد کے سڑکوں اور گلیوں میں جمع ہونے سے امدادی کام بار بار متاثر ہوا۔ انتظامیہ کو بار بار اپیل کرنی پڑی کہ لوگ دور چلے جائیں مگر ان اپیلوں کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

80 کی دہائی میں ترکی کے شہروں میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور ہزاروں عمارتیں تعمیر ہوگئی تھیں۔ ترکی کے شہر ازمیر میں اچانک ایک خوفناک زلزلہ نے ناقص تعمیرات کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے تو ترکی میں غیر قانونی عمارتوں کے خلاف آپریشن شروع ہوا۔

کئی برس پہلے اردشیرکاؤس جی نے انگریزی کے اخبار میں اپنے کالم میں غیر قانونی بلند عمارتوں کے بارے میں لکھا تھا کہ کراچی کی کئی بستیاں ارتھ کوئیک فالٹ لائن پر آباد ہیں۔ عمارتیں ناقص مٹیریل سے تعمیر ہوئی ہیں، اگر ترکی جیسا زلزلہ آیا تو کراچی میں ہزاروں عمارتیں منہدم ہوجائیں گی اور لاکھوں افراد کی جانیں جانے کا اندیشہ ہے۔ مگر کاؤس جی کی تنبیہ پر حکام بالا نے کوئی توجہ نہ دی بلکہ غیرقانونی تعمیرات کا سلسلہ بڑھ گیا۔ سپریم کورٹ نے غیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا ہے۔ سندھ کی حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے مختلف علاقوںسے غیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرنے کی مہم شروع کی ہے۔

یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے مگر غیر قانونی اور ناقص مٹیریل سے تعمیر ہونے والی عمارتوں کا وجود شہریوں کے لیے خطرناک ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ صرف حکومت کے حامی ہی نہیں بلکہ اس حکومت کے مخالف بھی غیر قانونی تعمیرات کے معاملہ میں ملوث ہیں ، اب وقت آگیا ہے کہ حکومت غیر قانونی اور ناقص مٹیریل سے تعمیر ہونے والی عمارتوں کو منہدم کرنے کے لیے سخت اور غیر مبہم قانون سازی کرے اور جن لوگوں نے لاکھوں روپے ادا کرکے ان عمارتوں میں فلیٹ یا دکانیں حاصل کی ہیں انھیں عمارت تعمیر کرنے والی کمپنیوں سے معاوضہ دلایا جائے۔

اس دفعہ خستہ حال عمارت کے انہدام کے بعد  بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے متعلقہ افسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے ، کچھ افسران اور بلڈرزگرفتار بھی ہوئے ہیں مگر معاملہ گرفتاری یا صرف ایف آئی آر درج کرانے کا نہیں ہے بلکہ اس خوفناک حادثہ کے ذمے دار افسروں کو اور بلڈر کو عدالتوں سے قرار واقعی سزا دلوائی جائے اور ترکی کی طرح ایسا طریقہ کار وضح کیا جائے کہ کئی با اثر شخص قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرکے کوئی عمارت تعمیر نہ کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔