کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے سندھ حکومت کی حکمت عملی

عامر خان  بدھ 18 مارچ 2020
 مراد علی شاہ نے پولیس اور انتظامیہ سے کہا کہ ہجوم پر قابو پانے کے منصوبے پر عمل کریں۔

مراد علی شاہ نے پولیس اور انتظامیہ سے کہا کہ ہجوم پر قابو پانے کے منصوبے پر عمل کریں۔

کراچی:  دنیا بھر میں دہشت کے سائے پھلانے والے کورونا وائرس نے پاکستان کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سندھ سمیت ملک میں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، جن میں سے اکثریت کا تعلق سندھ سے ہے۔ حکومت سندھ نے بھی عوام کو اس مہلک مرض سے بچانے کے لیے غیر معمولی حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔

سندھ کابینہ کے فیصلوں کے مطابق 30 مئی 2020 تک تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صوبے میں میٹرک انٹر ودیگر کئی امتحانات ملتوی کردیے ہیں ۔ صوبے میں ہرقسم کی تقریبات کے اجازت نامے تاحکم ثانی منسوخ تمام اجلاس، عوامی تقریبات، فنکشنز، شادی کی تقریبات پر پابندی ہوگی۔

شادی لانز، سنیما ہالز، اور دیگر کئی عوامی تفریحی مقامات کو بھی بند کردیا گیا ہے۔اسی طرح جلسہ جلسوس، اجتجاج، مجالس، اجتماعات کی پیشگی اجازت بھی منسوخ کردی گئی ہیں اور یہ تمام مقامات 5 اپریل تک بند رہیں گے۔ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کورونا کے بارے میں بہت سے لوگوں کو پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں وائرس ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک سندھ میں چین سے کورونا وائرس کا کوئی کیس نہیں آیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ کورونا کے مزید کیسز سامنے آئیں۔ اگر کسی کا اپنے گھر میں رہتے ہوئے علاج ہو سکتا ہے تو ادھر ان کا علاج کریں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبے کے عوام پر زور دیا کہ وہ سماجی اجتماع اور لوگوں سے ملنے سے گریز کریں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو رضاکارانہ طور پر تنہائی کو اپنانا ہوگا اور یہی کورونا وائرس پر قابو پانے کا واحد حل ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کمشنر کراچی کی پیش کردہ ایک رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ابھی بھی ریستوران ، ہوٹلوں ، چائے خانوں پر ہجوم کر رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ یہ صورت مجھے قبول نہیں ہے اور میں لوگوں سے تنہائی اختیار کرنے کی درخواست کرتا ہوں، ورنہ میرے پاس عوامی اجتماع کو روکنے کیلیے دیگر کئی سہولیات کو بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

مراد علی شاہ نے پولیس اور انتظامیہ سے کہا کہ ہجوم پر قابو پانے کے منصوبے پر عمل کریں، وزیراعلیٰ سندھ نے کمشنرز اور آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ان دکانوں، اسٹورز اور گوداموں جنہوں نے سینیٹائزر، ڈیٹول اور ہینڈ واش ، ٹشو پیپرز ذخیرہ کیے ہوئے ہیں اور انہیں زیادہ قیمت پر فروخت کر رہے ہیں اور انھوں نے انہیں چھپا دیا ہے، اْن پر چھاپے مارے جائیں،اس کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، کسی کو ذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ سرحدوں پر زائرین کو قرنطینہ میں رکھنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے، صورتحال پر تنہا قابو نہیں پایا جا سکتا ، سب کو مل کر ذمے داری سے کام کرنا ہوگا۔

ادھر وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں لاک ڈاؤن کی صورتحال نہیں، کورونا کے پیش نظر سندھ حکومت کے تمام اقدامات احتیاطی تدابیر ہیں۔ادھر حکومتی احکامات کی روشنی میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کو منسوخ کر دیا ہے جبکہ علماء کرام نے بھی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومتی احکامات پر عمل کریں ۔ اس ضمن میں ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی کا کورونا وائرس کی وبا سے متعلق حکومت سے جاری ہونے والی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومتی احکامات پر پابندی شرعی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح کئی مکاتب فکر نے اپنے تمام مدارس کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حکومتی اقدامات کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہونے کے بعد طلباء اور ان کے والدین کے ذہنوں میں سب سے زیادہ خدشات امتحانات کے حوالے سے تھے کہ ان کا انعقاد ہوگا یا نہیں۔ اس طرح کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ امتحانات کی بجائے تمام طلباء کو اگلی کلاسوں میں پروموٹ کر دیا جائے گا تاہم وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے ایک اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1جون سے ہمارا تعلیمی سال شروع ہوگا،1 سے15 جون تک پہلی سے آٹھویں جماعت کے امتحانات ہوں گے، 15 جون کے بعد نئی کلاسزشروع ہوں گی۔

15 جون سے نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات ہوں گے جس کے نتائج کا اعلان 15 اگست 2020 کو ہوگا، 6 جولائی 2020 سے گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات ہوں گے جب کہ یکم اگست سے گیارہویں اوربارہویں کی کلاسزشروع ہوں گی، بارہویں جماعت کے نتائج 15 ستمبرکو جاری کر دیے جائیں گے۔ مختلف سماجی وسیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیاجائے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی قیادت میں سندھ حکومت باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں متحرک نظر آرہی ہے اور اس کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے شہری فی الحال مطمئن بھی نظر آتے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ایک مرتبہ پھر حکومت سندھ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر حالات میں بہتری نہیں آئی تو وہ احتجاج پر مجبور ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں کورونا کے ساتھ ساتھ بدعنوانی، لسانیت اور نسل پرستی کے خلاف ایمرجنسی لگنی چاہیے۔

دوسری جانب سے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے کراچی کو پاکستان کا دارالخلافہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے پنجاب کے تین صوبے کرنے کی کوشش کی، مگر مجھے کرنے نہیں دیا گیا میں چپ رہا۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں نئے صوبے کی بات پہلی مرتبہ نہیں کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی مختلف شخصیات کی جانب سے اس طرح کے مطالبے سامنے آتے رہے ہیں لیکن صوبے میں اس کی شدید مخالفت موجود ہے اور سندھ سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اس حوالے سے کوئی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ میر ظفر اللہ جمالی کا مطالبہ محض ایک مطالبے تک محدود رہے گا اور اس پر کوئی پیش رفت ہونا فی الحال ناممکن نظرآتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔