کورونا: چین میں فتح کا دن

زبیر بشیر  بدھ 18 مارچ 2020
چینی قوم، طبی عملے اور قیادت نے عزم، ہمت اور اتحاد سے وبا کو شکست دی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چینی قوم، طبی عملے اور قیادت نے عزم، ہمت اور اتحاد سے وبا کو شکست دی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چین میں پیر کو وبا سے متاثرہ شہر ووہان میں کووڈ-19 کا صرف ایک نیا کیس رپورٹ ہوا۔ چین نے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ 80 ہزار سے زائد مریضوں میں 68 ہزار سے زائد مکمل صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ باقی تیزی سے روبہ صحت ہیں۔ چینی قوم کو یہ کامیابی باہمی اتحاد کے مظاہرے اور مثبت سوچ کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ مجھے فروری کا پہلا ہفتہ یاد ہے جب ایک میڈیکل ورکر سے میری ملاقات ہوئی، جن کے روانگی کے آرڈر پر تاریخ روانگی پانچ فروری درج تھی لیکن واپسی کی تاریخ کی جگہ تحریر تھا ’’ڈے آف وکٹری‘‘۔ میں یہ پڑھ کر بہت زیادہ حیران ہوا۔

یقین جانیے میں پانچ فروری سے دن گن رہا تھا کہ کب یہ واقعہ تحریر کروں گا۔ کل میری آنکھوں نے ’’ڈے آف وکٹری‘‘ دیکھا۔ یہ وہ منظر تھا جس کےلیے سب دعاگو تھے۔ 17 مارچ صبح 7:30 کے قریب ووہان سے پہلی میڈیکل ٹیم واپس لوٹ رہی تھی۔ ووہان میں وبا انسانیت سے شکست کھا چکی تھی اور ووہان شہر اہنے محسنوں کو رخصت کر رہا تھا، جو دو ماہ قبل ان کی طبی امداد کےلیے ملک کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔

منگل 17 مارچ کو پہلی میڈیکل ٹیم ووہان سے روانہ ہوئی۔ اس میڈیکل ٹیم کے عملے کا تعلق شمال مغربی چین کے صوبہ شانسی سے تھا۔ اس وقت نہایت رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ طبی عملے ارکان اپنے ماسک کے پیچھے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ ٹیم کے سربراہ ما فوچن نے کہا ’’ہم 4 فروری کو ووہان پہنچے اور پچھلے 40 دنوں میں دو عارضی اسپتالوں میں کام کیا۔ ووہان اور صوبہ ہنان کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہم نے 988 بستروں کے اسپتال کا انتظام دیکھا اور 1235 مریضوں کا علاج کیا۔ شکر ہے کہ ہمارے اسپتال میں نہ تو کوئی مریض ہلاک ہوا اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کو کوئی انفیکشن ہوا۔‘‘ انہوں نے کہا ’’یہاں ہماری موجودگی نے نہ صرف مقامی طبی کارکنوں کے بوجھ کو کم کیا بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بیماری سے متاثرہ ووہان کے رہائشیوں میں یہ اعتماد پیدا ہوا کہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہاں کام کرنا میرے اور میری ٹیم کےلیے بہت بڑا اعزاز تھا۔‘‘

حوبے ایئرپورٹ کی انتظامیہ کے مطابق شام 5 بجے تک 21 طبی ٹیموں کے 3000 سے زیادہ ارکان مختلف پروازوں کے ذریعے تیانجن، ہائکو، ینچوان، ارمچی سمیت دیگر شہروں کےلیے روانہ ہوئے۔ اس عملے کو روانگی کے وقت مقامی عوام اور پولیس نے نہایت پرتپاک انداز میں رخصت کیا۔

تیانجن سے تعلق رکھنے والی ایک نرس نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو ملیں گی جو اب آٹھ ماہ کاہو چکا ہے۔ اس نے بیٹھنا سیکھ لیا ہے یہاں تک کہ وہ چیزوں کو پکڑ کر چلنا بھی شروع کرچکا ہے۔ مجھے اس کی معصوم مسکراہٹ بہت یاد آرہی ہے۔ کبھی سوچتی کہ وہ مجھے پہچانے گا بھی یا نہیں۔ یہ کہنا تھا کہ ان کی آواز بھر آئی۔ انہوں نے کہا میں خوش ہوں کہ اپنی قوم کی خاطر کچھ کر پائی۔ میں دوبارہ ووہان آنا چاہوں گی۔ میں اپنے بیٹے کو یہ جگہ دکھاؤں گی جہاں اس کی ماں نے انسانیت کا دفاع کرتے ہوئے وبا کو شکست دینے میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس طبی عملے کی اپنے اپنے علاقوں میں واپسی کے باوجود اپنے پیاروں سے ملاقات میں اب بھی 14 دن باقی ہیں، کیوں کہ انہیں ووہان سے آنے کی وجہ سے ابھی قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔

چین بھر سے 41 میڈیکل ٹیموں سے وابستہ 3675 طبی عملے کے ارکان نے وبا کے مرکز صوبائی دارالحکومت ووہان اور صوبہ حوبے کے 14 عارضی اور سات مخصوص وبائی اسپتالوں میں خدمات سرانجام دیں۔ اس عملے نے اس دوران اکثر اوقات مسلسل 36 گھنٹوں تک کام کیا۔ ابتدائی دنوں میں حفاظتی لباسوں کی کمی کی وجہ سے یہ آرام کرنے بھی نہیں جاتے تھے۔ اسپتال میں اپنی کرسی پر ہی سو جاتے تھے۔ چینی قوم، طبی عملے اور قیادت نے عزم، ہمت اور اتحاد سے وبا کو شکست دی ہے۔

آج پاکستان میں کووڈ-19 کی خبروں نے افراتفری پھیلا دی ہے۔ قوم کا اضطراب ظاہر کررہا ہے کہ ہم منقسم ہیں۔ چینی قوم نے اس وبا کا مقابلہ باہمی اتحاد اور اپنی قیادت کے احترام سے ممکن بنایا ہے۔ میں پاکستانی بہن بھائیوں سے گزارش کروں گا۔ وبا خطرناک نہیں ہے، اس وبا سے زیادہ خطرناک اس کا خوف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اضطراب ہے۔ اگر ہم متحد ہوکر بغیر کسی اضطراب کے اس وبا کا مقابلہ کریں گے تو ہمارا ’’ڈے آف وکٹری‘‘ بھی دور نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زبیر بشیر

زبیر بشیر

بلاگر ان دنوں چائنا میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سینئر پروڈیوسر ہیں۔ اس سے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی میں بطور ایڈیٹر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔