کورونا وائرس اور مذہب

سالار سلیمان  جمعرات 19 مارچ 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

کورونا وائرس ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے، جس سے دنیا کے 166 سے زائد ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ آج کی تاریخ تک ایک لاکھ 87 ہزار لوگ دنیا بھر میں اس سے متاثر ہوئے ہیں، جبکہ تقریباً 8 ہزار اموات ہوئی ہیں۔ متاثرین میں سے 80 ہزار سے زائد صحتیاب ہوچکے ہیں اور کچھ صحتیابی کے مراحل میں ہیں۔ لہٰذا اگر دیکھا جائے تو اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد تقریباً 2 سے 3 فیصد ہے۔

اس وائرس سے زیادہ خطرناک صورتحال سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے، جہاں ہر دوسرا فرد ماہر امور طب بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب، اسی سوشل میڈیا پر دو طبقوں میں انتہائی زہریلی بحث نے بھی جنم لیا ہے کہ وائرس نے دنیا بھر کے عبادت خانے بند کرادیے ہیں اور اس سے اگلے مرحلے میں یہ طبقہ خدا کو نعوذ باللہ ناصرف چیلنج کررہا ہے بلکہ اللہ اور مذاہب کا مذاق بھی اڑا رہا ہے۔

بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں ایک بات تو بالکل واضح کرلیجئے کہ کوئی بھی مذہب تحقیق اور سائنس سے بالکل بھی منع نہیں کرتا، بلکہ ہمارا مذہب اسلام تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ سیرت نبویؐ میں بھی اس کا درس موجود ہے اور قرآن میں تو جابجا سوچ و بچار کی دعوت دی گئی ہے۔ بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ قرآن کا جو اثر پڑھا لکھا انسان لیتا ہے، وہ عام انسان نہیں لیتا۔ لہٰذا ایک وائرس کی آڑ میں دنیا بھر کے مذاہب اور بالخصوص اسلام کو نشانہ بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟

اگر خانہ کعبہ بند ہے اور وہاں عام افراد نہیں جاسکتے تو شاپنگ مالز بھی بند ہیں۔ اگر دیوار گریہ بند ہے تو بار بھی بند ہیں۔ اگر ویٹی کن سٹی ویران ہے تو پب اور ڈسکوز بھی تو بند ہیں۔ تو صرف مذہب کو تاک کر نشانہ بنانا کہاں کی دلیل ہے؟

میں مسلمان ہوں اور میں نے سیرت نبویؐ میں رسول اللہؐ کو احتیاط کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ کیا جنگوں میں نبیؐ خود نہیں پہنتے تھے؟ کیا رسولؐ نے پہلے 313 افراد اکٹھے کیے، جنگی حکمت عملی تیار کی اور پھر دعا نہیں کی؟ اسلام عمل اور دعا کو ساتھ لے کر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں اس وائرس کے تدراک کےلیے اینٹی ڈاٹ اور ویکسین پر تحقیق ہورہی ہے۔ ظاہر ہے اس تحقیق میں سب ہی مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ شاید وہ بھی شامل ہوں گے جن کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوگا۔ لیکن ایک بات جو تادم تحریر ہے کہ ابھی تک علاج دریافت نہیں ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ ابھی میرے اللہ کا ’’کُن‘‘ نہیں ہوا۔ ابھی شاید اللہ پاک بھی انسان کو تحقیق کے میدان میں مزید دوڑانا چاہ رہے ہیں۔ جو لوگ تحقیق کرتے ہیں وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہو کر اس موضوع کی بابت نئی سے نئی چیزیں اور باتیں سامنے آتی ہیں اور نتائج اور علاج کی دریافت تک پہنچتے پہنچتے ایک دفتر قائم ہوچکا ہوتا ہے جو مستقبل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

ساتھ میں یہ بھی عرض ہے کہ چین نے اس وائر س کو وبا کے ساتھ امریکا کی جانب سے کیا جانے والا بائیولوجیکل حملہ بھی قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ووہان بھی یہ وائرس امریکی فوجی ساتھ لائے تھے اور انہوں نے اس کو فضا میں چھوڑا تھا۔ اس تھیوری میں بھی دم ہوسکتا ہے کیونکہ چین ایک معاشی طاقت بنتا جارہا تھا اور کسی بھی طرح سے رکنے میں نہیں آرہا تھا۔ حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں چین کو سبق سکھانے کی بات بھی کی تھی۔ اس ایک وائرس نے دنیا بھر کی مارکیٹس کو تباہ کردیا ہے اور مزید ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے۔

فی الوقت حقیقت دیکھیں تو پاکستان میں صرف سندھ میں اس وائرس کو لے کر سنجیدہ کام ہورہا ہے، جبکہ باقی پورے پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس وقت صرف احتیاط کی جاسکتی ہے۔ اس سے بچاؤ کے طریقوں پر عمل کیا جاسکتا ہے اور بطور مسلمان مجھے عرض کرنے دیجئے کہ یہ وبائی وقت توبہ و استغفار اور رجوع اللہ کا بھی ہے۔ اللہ کے حضور عاجزی کے ساتھ یہ عرض کرنے کا ہے کہ ’’اے میرے اللہ، تیرے حبیبؐ کا قول سچا ہے کہ کوئی بھی مرض اس کی دوا کے بغیر اس کرۂ ارض پر نہیں آتا۔ مالک ہم ایک وبا کا شکار ہیں، علاج کی دریافت جن کا کام ہے، وہ کر رہے ہیں، تو ان کےلیے آسانیاں پیدا کر کہ وہ جلد ڈھونڈ کر تیرے بندوں کو مرنے سے بچالیں۔ تو ’کُن‘ کہہ دے اور ’فیکون‘ ہوجائے۔ ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔ (آمین)‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔