غیرجذباتی سوچ کی ضرورت

مقتدا منصور  اتوار 8 جولائی 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

نیٹو سپلائی کھل گئی۔اسے کھلنا ہی تھا۔ بہت سی باتیں ابھی تشنہ ہیں۔بہت سے سوالات کاجواب آنا ہنوز باقی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اسی اجرت پر ہی کام کرنا تھا،تو سات مہینے تک آنکھیں دکھانے کی کیاضرورت تھی لوٹ کروہیں آنا پڑاجہاں سے سفر شروع کیاتھا۔ مگر اب امریکا کے ساتھ معاملات میں بہتری کی توقع کی جانی چاہیے۔اس لیے جو سیاسی اورمذہبی جماعتیں نیٹوسپلائی کھولے جانے کی مخالفت کررہی ہیںانھیںشاید اندازہ نہیںکہ ان کے اس اقدام سے ملک کو کیا نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔

غلط یا صحیح کی بحث میں الجھے بغیر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کے بہت سے معاملات کاانحصارکئی دہائیوںسے امریکاپرچلا آرہا ہے۔اس لیے امریکا کے ساتھ تعلقات میں طویل سرد مہری کسی بھی طورپاکستان کے حق میں نہیںہے۔اس میں شک نہیںکہ سردجنگ کے زمانے میں امریکا نے پاکستان میں فوجی آمریتوںکی سرپرستی کی اور مذہبی شدت پسندی کوبے دریغ فروغ دیا۔جس کی وجہ سے ایک طرف سیاسی عمل بری طرح متاثرہوا اور جمہوری ادارے کمزور ہوئے،جب کہ دوسری طرف مختلف متشدد مذہبی گروہوں کو پھلنے پھولنے کاموقع ملا۔وہ عناصر جن کا ووٹ بینک پانچ فیصدسے بھی کم تھا، ریاستی مقتدراعلیٰ کی شہ اور امریکی سرپرستی میںاس قدر طاقتور ہوگئے پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے لگے۔اب اگرامریکا اپنے مفاد ہی میں سہی ،اس رجحان کو کنٹرول کرنا چاہتاہے، تو کم از کم متوشش شہریوںکواس کے راستے میں کانٹے بچھانے سے گریز کرناچاہیے۔انھیں یہ سمجھناہوگا کہ اگرشدت پسندی پر اس وقت قابو نہ پایا گیاتوایساف اور نیٹو افواج کے نکلنے کے بعداس خطے میںسب سے زیادہ نقصان پاکستان کاہوگا۔

امریکی استعماری پالیسیوں سے قطع نظر پاکستانیوںکواس پہلوپر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان کا مفاد عالمی اور خطے کی قوتوں سے ٹکرائومیں ہے یا ان کے ساتھ مفاہمانہ پالیسی اختیارکرنے میںہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوںکوکسی انتہائی رد عمل کامظاہرہ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیناچاہیے کہ اگر امریکا افغانستان میںمختلف متحارب گروہوں کے درمیان مصالحت کے بغیر نکل جاتاہے، توافغانستان میں پیداہونے والی متشددشورش کے پاکستان کی سیاسی،سماجی اور معاشی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟’’مرگ برامریکا، امریکا کا جو یار ہے غدار ہے اور دنیاکا سب سے بڑادہشت گرد امریکا‘‘ جیسے خوشنمانعرے خون کی حدت توضرور بڑھاتے ہیں،مگرمسائل کاحل پیش نہیںکرتے ۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ دس برس پہلے امریکی اقدام غلط تھا یا صحیح،اس وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا اقدامات کیے جائیں کہ افغانستان سے ایساف اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد1990 کے عشرے والی صورتحال پیدانہ ہواورافغانستان میں ایک پائیدار حکومت قائم ہوجائے۔اس کے علاوہ اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام افغانستان میں قبائلیت پرمبنی مذہبی شدت پسندی سے جڑا ہوا ہے۔اس لیے ایک لبرل اورجمہوری افغانستان پاکستان میں سیاسی استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔لہٰذا ایک مستحکم اور جمہوری افغانستان کے لیے کوشش کرنا خود پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔چنانچہ اسٹبلشمنٹ کے جو عناصر افغانستان میں ایک بارپھر طالبان کو اقتدار میں لانے کے خواہشمند ہیں، انھیں خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال کا قطعی ادراک نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میںرکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت خطے کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور بیک وقت کئی عالمی اور علاقائی ایکٹرخطے کے معاملات میںخاصے متحرک اورفعال ہیں۔جن کے اپنے اپنے مفادات اور خواہشات ہیں۔امریکا،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے علاوہ چین، بھارت، رشین فیڈریشن اور ایران سمیت کوئی بھی پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قبول کرنے پرآمادہ نہیںہے۔ کیونکہ ان ممالک کا خیال ہے کہ طالبان صرف اپنے ملک کوپسماندہ رکھنے کا باعث نہیں بنیں گے، بلکہ دوسرے ممالک میں اپنے مسلکی عقائد ایکسپورٹ کرنے کی کوشش میں پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کریں گے۔

پاکستانی منصوبہ سازوں کے غیر متوازن رویوں کی وجہ سے امریکاافغانستان میںبھارت کے کردار کو بڑھاناچاہتا ہے۔یہی سبب ہے کہ بھارتی سرمایہ کار افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے نئی منصوبہ بندیاں کررہے ہیں۔ افغانستان میں بھارتی اثرونفوذبڑھنے کے بعد پاکستان کی سلامتی کو نئے خطرات لاحق ہونے کے تصور کو بھی رد نہیںکیاجا سکتا ہے۔یہ بھی خام خیال ہے کہ چین ہر صورت میںہماری مدد کرے گا۔یہ طے ہے کہ چین طالبان کی حمایت سے صرف گریز ہی نہیں،بلکہ مخالفت کرے گا۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ گزشتہ دوبرسوں کے دوران چین نے اس کے صوبے سنکیانگ میںمذہبی شدت پسندوں کی کارروائیوں کے بارے میں پاکستان سے دودرجن کے قریب سرکاری احتجاج رجسٹر کرائے ہیں۔ اس لیے اگر پاکستان طالبان جیسی قوتوں کو افغانستان پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوگا بلکہ اندرون ملک غیر جمہوری قوتیں بھی مضبوط ہوں گی۔جس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا اور خود پاکستان افغانستان جیسی کیفیت سے دوچار ہوسکتاہے۔

لہٰذاپاکستان کی سیاسی جماعتیںکوئی لائحہ عمل ترتیب دینے سے قبل افغانستان اورعراق کے سماجی ،سیاسی اورمعاشی ڈھانچے کے تقابلی جائزے کو بھی مدنظر رکھناہوگا۔ عراق میں جنگ سے بہت پہلے سول سوسائٹی اپنا وجود رکھتی تھی۔تعلیم کی شرح پورے مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ تھی۔تیل کی پیداوار کی وجہ سے معیشت مستحکم تھی۔جنگ کے بعد وہاں سیاسی عمل تیزی سے شروع ہوگیا۔جلدہی مقامی سیکیورٹی ایجنسیوںنے ذمے داریاں بھی سنبھال لیں ۔معیشت میں بھی ایک بار پھرتیزرفتار بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔بلکہ صدام دور کے مقابلے میں سرمایہ کاری میںکئی گنا اضافہ ہواہے۔اس کے برعکس افغانستان سول سوسائٹی نہ ہونے کے برابرہے۔90فیصدکے قریب آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ قبائلیت کے زیر اثرہے،اس لیے جو چند سیاسی جماعتیں موجود ہیں،ان کی جڑیں عوام کی نچلی سطح تک نہیں ہیںاوران پر بھی قبائلیت کے اثرات بہت گہرے ہیں۔جس کی وجہ سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کے فروغ میں کافی رکاوٹیں ہیں۔اس کے علاوہ معیشت بھی خاصی کمزورہے۔معیشت کا انحصارروایتی زراعت اور پوست کی کاشت پرہے۔عالمی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ پر پابندیاں سخت ہوجانے کی صورت میں افغانستان کی معیشت مزید تباہی کے دہانے تک پہنچ سکتی ہے۔اس لیے عراق اور افغانستان کا موزانہ نہیں کیا جاسکتا۔

ایک اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ بے شک خطے کے دیگر ممالک ایساف اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کامطالبہ کرتے رہیں،پاکستان کو اس قسم کا مطالبہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شورش زدہ افغانستان خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے جب تک افغانستان میںتمام متحارب گروہ ایک میز پر بیٹھ کر ایک وسیع البنیاد قومی حکومت کی تشکیل پر آمادہ نہیں ہوجاتے، پاکستان کے مسائل کم ہونے کے امکانات بھی پیدا نہیں ہوںگے۔لہٰذاایک ایسی نازک صورتحال میں امریکی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کسی بھی طورپاکستان کے حق میں نہیں ہے۔ چنانچہ پاکستان کو جذباتیت کے بجائے بہت زیادہ دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ایک افغان گروہ کی سرپرستی کرنے کے بجائے مختلف متحارب گروہوں کومذاکرات پر آمادہ کرنے میں اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔اس مقصد کے لیے ناچاہتے ہوئے بھی امریکااور نیٹوکے ساتھ مل کرتمام فریقین کے لیے قابل قبول فارمولا تیار کرناہوگا۔اس لیے قومی مفاد میںبہتریہی ہے کہ نیٹوسپلائی کھولے جانے پر اتنی شدید مزاحمت نہ کی جائے کہ پاکستان کی اپنی سلامتی دائو پر لگ جائے اور اس کا فائدہ ان قوتوں کو پہنچے،جو پاکستان کوکمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔باقی رہبروں کی اپنی مرضی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔