پی ایس ایل 5: اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا!

محمد یوسف انجم  جمعـء 20 مارچ 2020
پی ایس ایل کا آغاز بھی ایک بری خبر سے ہوا تھا اور انجام بھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پی ایس ایل کا آغاز بھی ایک بری خبر سے ہوا تھا اور انجام بھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کرکٹ کے کھیل سے پاکستانیوں کی محبت کا اندازہ ان پی ایس ایل میچز سے لگایا جاسکتا ہے جن میں پہلے ملتان اور پھر لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کا ہاؤس فل ہونا ہے۔ ایسا ہی منظر مکمل نہ سہی کچھ حدتک نیشنل اسٹیڈیم کراچی اور راولپنڈی میں بھی دیکھنے کو ملا۔ کرکٹ پاکستانیوں کی پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں یا چھٹی محبت ہے، اس کا حقیقی معنوں میں اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے۔ ہر ایک کی محبت کی کہانی الگ الگ ہوسکتی ہے۔ لیکن محبت کی اس فہرست میں کرکٹ کو جگہ سب نے ضرور دی ہے۔

پاکستان سپرلیگ میں محبتوں کا یہ سفر انتہا کو پہنچا ہی تھا کہ ملتان سلطانز اور پشاور زلمی کے درمیان سیمی فائنلز سے پہلے پی ایس ایل کے ملتوی ہونے کی خبر سب پر بجلی بن کر گری اور یوں ایک پل میں کئی دنوں سے مشہور اور آباد میلہ اجڑ گیا۔ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی اس اطلاع نے میدان اور میدان سے باہر سب ہی لوگوں کو سوگوار کردیا۔ ایک لمحے کو یوں لگا جیسے قذافی اسٹیڈیم میں کسی کی موت ہوگئی ہو۔ لیکن حقیقت کو تسلیم کرنا ہی بہادری ہے اور تمام پاکستانیوں کے ساتھ غیرملکیوں نے بھی اسے ایک سوگ کا دن سمجھ کر قبول کیا۔

ادھورے پی ایس ایل فائیو کو کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔ جب جب پی ایس ایل کا ذکر جس محفل میں بھی ہوگا، تب تب پی ایس ایل کے اس اچانک اجڑنے والے لمحات کو ضرور یاد کیا جائے گا۔ سب سے پہلے عمر اکمل کی مشکوک افراد سے روابط کی خبر بریکنگ نیوز بن کر چلی تو اپنوں کے ساتھ غیروں نے بھی اسکینڈلز بوائے کی اس حرکت کی شدید مذمت کی۔ عمر اکمل کے اس واقعے نے ان تمام دعوؤں کو بھی یکسر مسترد کردیا کہ کرکٹرز کی دی جانے والی سخت سزاؤں اور جرمانوں کے بعد کرپشن کے اس ناسور پر قابو پالیا گیا ہے۔ عمر اکمل کی پی ایس ایل سے فراغت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کھیل کو بدنام کرنے والے کم ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے چنگل میں پھنسنے والے۔

عمر اکمل کے بعد پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب میں نغمے کے معاملے نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے سب کو ایک نیا ایشو دیا۔ علی ظفر اور علی عظمت دونوں ہی پاکستان کے بڑے نام ہیں۔ نغمے پر ہونے والی اس سردجنگ سے کچھ لوگوں نے انجوائے کیا لیکن میرے خیال میں دو بڑوں کی اس لڑائی میں ملک اور ان سنگرز کی جگ ہنسائی زیادہ سوشل میڈیا پر موضوع بنی رہی۔

پی ایس ایل میں ریکارڈ تعداد میں غیرملکیوں کی شرکت اور اکتیس میچز کا پاکستانی شہروں میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان ایک پرامن، یہاں کے لوگ امن پسند اور اسپورٹس لورز ہیں۔ ان میچز میں ملنے والی بے پناہ محبت کا اعتراف پاکستان سے واپس جانے والے تمام غیرملکیوں نے اپنی ٹوئٹس میں کیا ہے۔ جس سے پوری دنیا میں پاکستان کے مثبت امیج کو تقویت ملی اور آنے والے دنوں میں مزید اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

پشاور زلمی کے کامران اکمل، کوئٹہ کی رائیلی روسو نے جہاں شاندار سنچریاں اسکور کرکے شائقین کے جوش وخروش کو بلندیوں پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، وہاں ناک آؤٹ مرحلے سے کچھ پہلے بین ڈنک نے بارہ چھکوں کا ریکارڈ بنایا تو ان کے بعد کرس لین کی سینچری نے سب کے دل جیت لیے۔ پی ایس ایل کا سیمی فائنلز مرحلہ آیا تو سب ہی بہت خوش تھے کہ یہ میلہ کامیابی سے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملتان سلطانز اور پشاور زلمی کے پہلے سیمی فائنل کےلیے سب تیاریاں مکمل تھیں۔ کیمرہ مین اپنی پوزیشنز سنبھال رہے تھے۔ کمنٹیٹرز رمیز راجہ، زینب عباس اور بازید خان بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ منتظر تھے۔ پھر دونوں ٹیموں کے آنے سے پہلے میچز ملتوی ہونے کی اچانک سامنے والی نیوز نے منظر ہی بدل دیا۔ ہر کوئی یہ پوچھ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہی سب لوگ سامان کی پیکنگ میں مصروف ہوگئے۔ پی سی بی اور فرنچائزز کے اس فیصلے پر ملاجلا ردعمل سننے کو ملا۔ پی ایس ایل میچز کی تھکا دینے والی ڈیوٹی پر خفا خفا رہنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی میلہ اجڑنے پر آنکھیں بھی تر پائیں۔ پی ایس ایل کا آغاز بھی عمر اکمل کی بری خبر سے ہوا اور انجام بھی۔

بقول رمیز راجہ: ’’شاید پی ایس ایل کو کسی کی نظر لگ گئی۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Muhammad Yousuf Anjum

محمد یوسف انجم

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، سینئر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ’’ایکسپریس نیوز‘‘ سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔