کورونا قیامتیں اور شہید کی والدہ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 20 مارچ 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کورونا وائرس نے دُنیا بھر میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے ۔ عالمی طبی ماہرین نے اس کا پھیلاؤ روکنے اوراس کی ہلاکت خیزیوںکے تدارک کے لیے فی الحال یہی ’علاج‘ دریافت کیا ہے کہ معانقے اور مصافحے سے گریز اور پرہیز کیا جائے ۔ کورونا نے عالمی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔

دُنیا کے کئی اہم ترین سرکاری عہدیدار بھی اِس وائرس کی زَد میں آ چکے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ ،جنوبی امریکا کے ایک ملک کے سپہ سالار، اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو کی اہلیہ بیگونہ گومز، کو بھی مبینہ طور پر کورونا نے ہدف بنا لیا ہے ۔ ایران کے ایک آیت اللہ اِسی وبا میں انتقال کر گئے ہیں۔وائٹ ہاؤس میں وائرس کش کیمیاوی چھڑکاؤ کیا جارہا ہے کہ صدر ِ امریکا اس وائرس کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکیں ۔

کورونا کو جنوبی ایشیا میں پھیلنے سے روکنے کے لیے نریندر مودی کو بھی ’’سارک‘‘ کانفرنس کے انعقاد پر مجبور کر دیا ہے ۔ وہ جب سے بھارتی وزیر اعظم بنے ہیں ، محض پاکستان کی دشمنی میں ’’سارک‘‘ کانفرنس کروانے میں مزاحم رہے ہیں ۔ پاکستان کی میزبانی کی باری آئی تو بھارت نے مقاطع کر دیا ۔ اب ’’سارک‘‘ کانفرنس ویڈیو لنک کے ذریعے کروائی ہے تو پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی جانے والی قیامتوں اور کشمیریوں کے خلاف لاک ڈاؤن کا ذکر بھی کر دیا ہے ۔

کسی بھی شہر کو کسی بھی وجہ سے لاک ڈاؤن کرنے سے جو مسائل اور مصائب پیدا ہوتے ہیں ، اِن کا مشاہدہ اور تجربہ دُنیا کے کئی ممالک میں کروڑوں انسان کورونا وائرس کے کارن خود بھی کررہے ہیں ، چنانچہ اس پیش منظر میں، حالیہ سارک کانفرنس میں، پاکستان نے جرأت سے یہ کہنا مناسب سمجھا ہے کہ اِنہی تجربات سے عالمی انسانی برادری بخوبی سمجھ سکتی ہے کہ بھارت نے پچھلے 8مہینوں سے جس وحشت و خشونت سے کشمیریوں کا لاک ڈاؤن کررکھا ہے ، بیکس اور بیچارے کشمیری کن قیامتوں اور عذابوں سے گزر رہے ہوں گے!

اپنے محدود معاشی وسائل کے باوجود وطنِ عزیز کے حکمران اور ادارے بھی کورونا وائرس کے خلاف مقدور بھر کوششیں کررہے ہیں۔ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک حالیہ کور کمانڈر کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ افواجِ پاکستان مجموعی حیثیت میں کورونا کے خلاف جہاد کرنے کے لیے ، ہر سطح پر، تیار ہے ۔ یقیناً اس اعلان سے عوام کو ایک نیا حوصلہ ملا ہے ۔ جس فوج نے کامیابی سے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے اپنا شاندار کردار ادا کیا ہے ، وہ کورونا وائرس کا پھلاؤ روکنے میں بھی کامیاب ہو گی ۔ انشاء اللہ۔

وزیر اعظم نے بھی قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں بلوچستان میں کورونا وائرس کے خلاف پاک فوج کے اقدامات کی تحسین کی ہے ۔کورونا سے بچنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر آگہی کے نام پر جو ہدایات دی جارہی ہیں ،ان میں اجتماعات سے ممکنہ حد تک گریز کا درس دیا جارہا ہے۔ مناسب ہے، لیکن مستحکم روایات اور سماجی تعلقات سے ناتا کیسے توڑا جائے؟ کورونا وائرس کے پھیلائے گئے خوف سے جنازوں میں شرکت بھی نہ کی جائے ؟ ہمیشہ کے لیے رخصت ہونے والی اپنی عزیز ترین ہستیوں کو سپردِ خاک کرنے اور اُن کے الوداعی دیدار سے ہم کیسے رُک سکتے ہیں؟

کورونا کی اِنہی قیامت خیزیوں کے دوران چند دن پہلے میری پھوپھی محترمہ، جو سرطان کی مریضہ تھیں، کا اسلام آباد میں انتقال ہو گیا۔ جنازے میں تقریباً سبھی رشتہ دار شریک ہُوئے ۔ بہت بڑی تعداد تھی ، اس لیے کہ وہ ہمارے خاندان کی بزرگ ترین شخصیت تھیں۔ جنازہ نمازِ مغرب کے بعد ادا کیا گیا لیکن رشتے کی خواتین اور مرد حضرات نمازِ ظہر کے بعد ہی میت کے گھر اکٹھے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ تقریباً سبھی خواتین حجاب اور چادروں میں تھیں لیکن کوئی بھی عزیز خاتون مجھے ایسی نظر نہیں آئی جس نے منہ پر حفاظتی ماسک لگا رکھا ہو۔

وہاں موجود مردوں میں سے بھی ایک ایسا نہ تھا جو ماسک میں نظر آیا ہو ۔ سبھی ایک دوسرے سے مصافحہ بھی کررہے تھے اور معانقہ بھی۔ عصر اور مغرب کی نمازیں مَیں نے وہیں محلے کی مسجد میں ادا کیں۔دونوں بار نمازیوں سے مسجد بھری تھی ۔ کم از کم دو سو سے زائد نمازی ہوں گے۔ الحمد للہ۔ مَیں نے بغور جائزہ لیا ۔ بمشکل دو یاتین نمازی ایسے نظر آئے جنھوں نے سبز ماسک منہ پر لگا رکھے تھے ۔ مَیں نے بھی پہن رکھا تھا ۔ پھر ’’شرم کے مارے‘‘ راقم نے بھی اتار پھینکا۔

نمازِ عشا ء کے بعد پھوپھی مرحومہ کو لحد کے سپرد کر دیا گیا۔ ایچ ٹین کے قبرستان میں ۔ مرحومہ کی بڑی خواہش تھی کہ ایچ ایٹ میں ابدی نیند سوئے اُن کے جری اور جوان شہید بیٹے کے ساتھ ہی جگہ ملے ، لیکن جگہ نہ مل سکی ۔ وہاں اب گنجائش ہی نہیں رہی۔ جگہ مل جاتی تو شائد والدہ اور بیٹے کی ہمسائیگی ایک دوسرے کے لیے روحانی مسرت کا باعث بنی رہتی ۔ پھوپھی مرحومہ کا جنازہ قبرستان لے جاتے اور تدفین کے وقت تک اُن کے شہید بیٹے کی یاد سب کو تڑپاتی رہی ۔اُن کے شجیع اور شہید بیٹے کا نام محمد طاہر اقبال تھا۔ طاہر اقبال پاک فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے۔

سیاچن کے بلند برفزاروں میں دشمن کے خلاف جنگ بھی کی اور ترکی میں وطنِ عزیز کی خدمات بھی انجام دیں۔ لیفٹیننٹ کرنل طاہر اقبال مجھ سے عمر میں چھوٹا میرا پیارا کزن تھا۔ اُن کے بچے پشاور میں مقیم تھے اور خود اُن کی ڈیوٹی شمالی وزیر ستان میں لگی تھی ۔دہشت گردوں کی سرکوبی اور خاتمے کے لیے ۔ اصل مقابلہ ’’ٹی ٹی پی‘‘ کے دہشت گردوں سے تھا جن کی پاکستان دشمنی نے پاکستان ، افواجِ پاکستان اور پاکستانی عوام کو بہت جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ جون 2009ء میں اِنہی پاکستان دشمن عناصر کی سرکوبی اور خاتمے کی جہادی مہمات میں مصروف لیفٹیننٹ کرنل محمد طاہر اقبال شہید کر دیے گئے۔

ٹی ٹی پی نے بزدلوں کی طرح گھات لگا کر اُن پر وار کیا تھا۔ اس Ambushمیں طاہر اقبال کے درجن بھر فوجی ساتھی بھی شہید ہو گئے تھے ۔کیپٹن عابد اور لیفٹیننٹ ذیشان بھی شہیدوں میں شامل تھے ۔کیا ہی عظیم الشان اور عظیم المرتبت لوگ تھے یہ !! جس وقت شہادت کی خبر آئی تھی ، عین اُس وقت ہم اپنے نوجوان فوجی افسربھتیجے کا ولیمہ کررہے تھے۔ شہید کے پیچھے ایک بیوہ اور میرے دو کمسن بھانجے رہ گئے ۔

بیوہ نے بہادری سے سینے پر صبر کی سِل رکھ لی ۔ الحمد للہ شہید کا ایک بیٹا حافظِ قرآن ہے کہ طاہر اقبال کی یہی خواہش تھی ۔ ہماری بہن نے شہید شوہر کی یہ خواہش پوری کر دی ہے ۔ بڑا بیٹا اب کالج میں ہے ۔ بالکل شہید والد کا نشان۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے شہید لیفٹیننٹ کرنل محمد طاہر اقبال کو ستارئہ بسالت دیا گیا ۔ شہید کی والدہ کے لیے یہ تمغہ ایک بے بدل متاع تھی۔ اسلام آباد میں پاک فضائیہ کے اسپتال میں عظیم شہید کی والدہ محترمہ کا جس بہترین اسلوب میں علاج کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں ، ہم اسپتال انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔ الوداع اے شہید کی والدہ ، الوداع۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔