آدھی ادھوری اورغلط معلومات

سعد اللہ جان برق  جمعـء 20 مارچ 2020
barq@email.com

[email protected]

ویسے تو ہم ابن انشاء کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے کہ کوئی بولے یا لکھے یا سنائے ہم چپ رہتے ہیں، ہم ہنس پڑتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ایسا کچھ پڑھنے یا سننے کو مل جاتا ہے جو ہماری نازک اور دکھتی رگ پر پڑ جاتا ہے اور بقول مولانا ماہر القادری (طاہر القادری نہیں) جو ایک ادبی رسالے فاران کے ایڈیٹر تھے، وہ کسی کے شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے ناپسندیدگی کے بجائے ’’وجدان کو کھٹکھٹا ہے‘‘ لکھ دیا کرتے تھے، کچھ چیزیں ہمارے وجدان کو بھی جب کھٹکتی ہیں تو چپ رہا نہیں جاتا، خاص طور پر اگر مسئلہ ’’تصوف‘‘ کا ہو جو پہلے ہی کمرشلائزیشن کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور اب سیاسی دکانوں کا بھی بیسٹ سیلر آئٹم ہے جب کہ اصل تصوف نہ جانے کس  دشت و بیابان میں گم ہو چکا ہے۔

اب تو سنا ہے نصاب میں بھی شامل ہونے والا ہے کہ اگر کچھ اس میں ہو تو وہ بھی جھاڑ کر بیچ دیا جائے۔ چنانچہ اکثر فیشن ایبل دانش میں بھی لوگ اسے نشانہ بنا دیتے ہیں، اب وہ فارسی شعر یا کہاوت ہم نہ سنا سکتے ہیں جس میں ’’بدست بچہ گان‘‘ کا محاورہ استعمال کیا گیا ہے لیکن کچھ نہ کچھ کرنا تو بنتا ہے اور اس کا فوری سبب گزشتہ روز ایک اخبار کے ایک دانا دانشور کالم میں بن گیا۔ مشہور فارسی شعر:

منم عثمان ہارونی مرید شیخ منصورم

ملامت می کند خلقے و من سر دار می رقصم

کو ہم نے کوئی سویں بار حضرت ’’عثمان مروندی‘‘ جو شیخ شہباز قلندر کے نام سے سیہون شریف میںمدفوں ہیں۔ حضرت عثمان مروندی یعنی شیخ شہباز قلندر بڑے صوفی اور اہل معرفت و سلوک میں سے تھے۔ وہ ہمارے لیے لائق صد احترام لیکن یہ شعر یا غزل ان کی نہیں بلکہ ایک اور عثمان ۔۔۔ عثمان ہارونی کا ہے، حضرت عثمان مروندی کا نہیں۔ تبرک کے طور پر ہم کچھ اور اشعار بھی پیش کر دیتے ہیں۔ اس مشہور غزل جو ہزاروں بار گائی گئی ہو گی۔ مطلع:

نہ می دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم

مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم

بہر طرزے کہ می رقصائی من اے یار می رقصم

ترجمہ۔ حیران ہوں کہ آخر کیوں میں دیدار محبوب کے وقت ناچنے لگتا ہوں لیکن اس خیال سے نازاں ہو جاتا ہوں کہ اپنے یار کے سامنے ناچ رہا ہوں، تم ہر وقت نغمہ چھیڑتے ہو اور میں ہر وقت اس پر ناچتا ہوں، اب تم چاہے کسی بھی طرز پر مجھے نچواو میں ناچوں گا ۔

یہ  رقص جس کا رشتہ قونیہ کے درویشوں کے رقص سے ہے، وہ رقص نہیں جو عام ہے بلکہ یہ ایک اور رقص ہے جو راہ سلوک کے مسافر ناچتے ہیں، ان میں سے ایک بلھے شاہ بھی تھے۔

ترے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

بلھے شاہ نے تو خود کو صیغہ مونث میں بھی ڈالا ہے۔ کیونکہ اس راہ میں ایک مقام سے گزرنے کے بعد نہ کوئی مونث رہتا ہے نہ مذکر۔ بلکہ

رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی

یہ محبت کی انتہا اور عاشق کو معشوق بنانے کا قرینہ بھی وحدت الوجود سے خاص ہے کہ اس میں۔ ’’وہ‘‘ اور ’’میں‘‘ نہیں رہتا صرف ہم ہی ہم ہو جاتا ہے

اک ٹوٹا نغمہ گاواں گی

میں روٹھا یار مناواں گی

حضرت عثمان ہارونی کا ایک اور شعر ہے

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں

بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم

ترجمہ۔ جاناں آو دیکھو کہ جانبازوں کے ہجوم کے اندر کس طرح لوگ مجھے ملامت کر رہے ہیں اور میں سربازار ناچ رہا ہوں۔ اصل میں عثمان ہارونی اپنا بیان نہیں کر رہے ہیں بلکہ منصور حلاج کا بیان سنا رہے ہیں۔

خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را

زہے تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم

یعنی کیا رندی ہے ، میری کہ میری پارسائی کو پامال کر گئی۔ اور کیا تقویٰ ہے کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ ناچ رہا ہوں۔

اگرچہ قطرہ شبنم نہ بوئد برسر خارے

منم آں قطرہ شبنم بہ نوک خار می رقصم

یعنی شبنم کا قطرہ کانٹے کی نوک پر ٹھہر بھی نہیں پاتا لیکن میں وہ قطرہ شبنم ہوں جو کانٹے کی نوک پر ناچ رہا ہوں، اس شعر میں تشبیہ و تمثال کی بھی حد ہے کہ انسان کے آنکھوں کے سامنے وہ قطرہ شبنم آ جاتا ہے جو کانٹے کی نوک پر گرنے سے پہلے ناچتا ہے۔

تو آں قاتل کہ بہر یک تماشا خون من زدنی

من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم

اس میں منصور کے قتل کا وہ منظر متشکل ہو جاتا ہے جب اسے تماشا بنا کر دار پر نہ صرف کھینچا گیا تھا بلکہ سر بازار سنگسار کر کے تڑپنے کو بھی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اور اس کا گناہ کوئی نہیں تھا صرف چند جبوں اور دستاروں کو اس کی مقبولیت سے خطرہ تھا ورنہ اس نے اناالحق اگر کہا تھا تو یہ اس کے اور حق کے درمیان کی بات تھی اور سزا وہ لوگ دے رہے تھے جو صبح و شام ایک فانی اور گناہگار حاکم کو ظل اللہ اور ظل الہیٰ کہتے تھے۔ آخر اس میں کیا تھا کہ

سراپا برسر پائے خودم از بے خودی قربان

زگرد مرکز خود صورت سرکار می رقصم

اس شعر کا کمال یہ ہے کہ وحدت الوجود کا پورا فلسفہ اور نظریہ اس میں سمو دیا گیا ہے جس کا داعی حسن بن منصور حلاج تھا اور جو عثمان ہارونی کا شیخ تھا۔ مرید شیخ منصورم

بہر حال شعر شیخ شہباز (عثمان مروندی) کا نہیں بلکہ انھی کا ہے۔ آخر ہمیں اتنا اور عرض کرنا ہے کہ آج کل فیشن ایبل دانش اور عقل کل علامہ کل بننے کی کوشش میں آدھی ادھوری معلومات بہانے کی روش عام ہے جو پڑھنے والوں کو گمراہ کرتی ہے۔ بڑے بڑے نام بے شک لیجیے، تورات، فراعین، بنی اسرائیل ، دجلہ و فرات،  یونان و روم کے حوالے ضرور دیجیے لیکن تھوڑی سی محنت کر کے پڑھنے والوں کو صحیح معلومات دیں ورنہ نہ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔