تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ

غلام محی الدین  اتوار 1 دسمبر 2013
معاہدہ ایران کی عظیم ترین سفارتی فتح ہے، جس نے یورینیئم کو افزودہ کرنے کے حق کو قانونی طور پر تسلیم کرا لیا ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ۔ فوٹو : فائل

معاہدہ ایران کی عظیم ترین سفارتی فتح ہے، جس نے یورینیئم کو افزودہ کرنے کے حق کو قانونی طور پر تسلیم کرا لیا ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: ایران اور عالمی طاقتوں نے 24 نومبرکی صبح تہران کے متنازع جوہری پروگرام کے حوالے سے جس معاہدے پر اتفاق کیا ہے، اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے ۔

معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر قدغن لگے گی لیکن اس کے بدلے میں ایران پر عاید پابندیوں میں نرمی بھی ہو گی۔ عالمی طاقتوں میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین شامل تھے۔ ایران کے ساتھ چار روز سے زیادہ جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اتوار کی صبح تمت بالخیر اس معاہدے پر ہوئی۔ یہ معاہدہ سوئیزرلینڈ کے شہر جینیوا میں طے پایا۔

معاہدے کے مطابق ایران اعلیٰ افزودہ یورینیئم کی تیاری روک دے گا۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ایران یورینیئم کی افزودگی پانچ فی صد کی سطح تک محدود رکھے گا جب کہ اس کے بدلے میں اس پر عاید عالمی پابندیوں میں قدرے نرمی کر دی جائے گی۔ اس نرمی سے ایران کو کئی قریباً سات بلین کے قریب فائدہ ہوگا۔ بتایا گیا ہے کہ اس ڈیل کے بعد غیرملکی بینکوں میں موجود اربوں ڈالر مالیت کے منجمد اثاثے ایران کو واپس ہو جائیں گے اور دھاتوں، پیٹروکیمیکل اور ہوائی جہازوں کے پروزوں کے شعبے میں بھی اس کے ساتھ دوبارہ تجارت شروع ہو جائے گی۔

تجزیہ کاروں نے بھی اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ایران کو یورینیئم کی افزودگی کے حساس کام پر پیش رفت سے روکا جاسکے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عاید امریکا ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی پابندیوں میں نرمی کردی جائے گی جس سے ایرانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں مدد ملے گی۔

عالمی امریکن کونسل کے صدر ماجد رفیع زادِہ نے العربیہ سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے تک پہنچنے میں متعدد عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں اول یہ کہ اوباما انتظامیہ، ایران کے جوہری تنازع سے نمٹنے کے لیے متبادلات پر غور کرنے کو تیار نہیں تھی اور وہ ایران کے خلاف فوجی آپشن کو بھی بروئے کار لانے پر غور کر ہی تھی۔

معاہدے کو گزشتہ ایک دہائی سے جاری تنازع کے حل کے لیے عالمی سطح پر پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے جو تاحال عبوری معاہدہ ہے۔ معاشی تناظر میں عالمی منڈیوں پر اس معاہدے کے فوری اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں دو ڈالر فی بیرل کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان اور آسٹریلیا کے بازار حصص میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ ایران اور مغربی ممالک اعتماد سازی کے لیے کیا کیااقدامات کریں گے۔ مغربی طاقتوں کا ہدف تھا کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو روکا جائے جب کہ ایران کا موقف تھا کہ اس کے یورینیئم کی افزودگی کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ واضح رہے کہ ایران کے نئے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ وہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان موجود اس مسئلے کا جلد حل چاہتے ہیں۔ ان کے عہدہ سنبھالتے ہی عالمی طاقتوں نے تہران کے جوہری تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز تر کر دیا تھا۔

ایران جوہری معاہدہ، عالمی رہ نماؤں کا خیرمقدم، اسرائیل کی سیخ پائی
عالمی رہ نماؤں اور زیادہ تر ممالک کی جانب سے اس معاہدے کو دنیا کو محفوظ بنانے کی جانب ایک قدم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے تاہم اسرائیل کی طرف سے اس پر بھی تنقید سامنے آئی ہے۔ اسرائیلی رہ نماؤں کے مطابق اس معاہدے میں اس بات کی گارنٹی نہیں کہ ایران مستقبل میں ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ عالمی رہ نماؤں کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے ’’آج امریکا نے اپنے قریبی اتحادیوں اور پارٹنرز کے ساتھ مل کر ان تحفظات کے جامع حل کی جانب پہلا اہم قدم بڑھایا ہے، جو اسلامک ری پبلک آف ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہیں۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ جان کیری ان الفاظ میں معاہدے کی تعریف کرتے ہیں ’’یہ پہلا قدم ہے اور میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ایران دراصل اس پروگرام کو، جہاں یہ آج ہے، وہاں سے رول بیک کرے گا۔ معاہدہ پروگرام کے عمل درآمد کے وقت کو بڑھائے گا، یہ سب کچھ اس معاہدے کے بغیر ممکن نہ ہوتا، یہ خطے میں ہمارے پارٹنرز کو محفوظ بنائے گا اور (سب سے بڑھ کر) یہ اسرائیل کو محفوظ بنائے گا۔‘‘ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو تلملا رہے ہیں ’’جو کچھ گزشتہ شب جینیوا میں حاصل کیا گیا، وہ تاریخی معاہدہ نہیں ہے (بل کہ) ایک تاریخی غلطی ہے۔

آج دنیا کہیں زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے کیوں کہ دنیا کی خطرناک ترین حکومت نے دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار کے حصول کی جانب ایک اہم قدم بڑھا رکھا ہے۔‘‘ اسرائیلی وزیر خارجہ اویگدر لیبرمن کے الفاظ تو کچھ اور ہیں البتہ تاثر بہت مختلف نہیں ’’یہ معاہدہ ایران کی عظیم ترین سفارتی فتح ہے، جس نے یورینیئم کو افزودہ کرنے کے حق کو قانونی طور پر تسلیم کرا لیا ہے۔‘‘ جب کہ ایرانی صدر حسن روحانی فرماتے ہیں ’’یہ معاہدہ تمام علاقائی ممالک اور عالمی امن کے لیے فائدہ مند ہے، مذاکراتی ٹیموں کی تعمیری بات چیت اور ان تھک کوششوں نے نئے افق دکھائے ہیں۔‘‘ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اس معاہدے کے لیے تمام فریقوں کو خراج پیش کرتے ہیں ’’کسی کو بھی نقصان نہیں ہوا، ہر ایک کی فتح ہوئی ہے، ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ایران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ نیک نیتی کے ساتھ تعاون کرے گا۔‘‘ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی امکانات کے پیشِ نظر خوش گمانی کا اظہار کرتے ہیں ’’یہ معاہدہ بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کی بہ حالی میں معاون ہوگا اور مشرق وْسطیٰ میں امن اور استحکام کا ضامن ہوگا۔‘‘ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ بھی معاہدے کو ان الفاظ میں سراہتے ہیں ’’یہ معاہدہ پوری دنیا کے لیے اچھا ہے، بہ شمول مشرق وسطیٰ کے ممالک اور ایران کے اپنے عوام کے۔‘‘ فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس کا کہنا ہے۔

’’یہ سمجھوتہ ایران کے سویلین جوہری توانائی کے حق کی تصدیق کرتا ہے مگر اس کے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی کی نفی کرتا ہے۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے ایک طرح سے خبردار کرتے ہیں ’’ہمیں آئندہ مہینوں کو باہمی اعتماد کی فضاء قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اس معاہدے کو شفاف اور قابلِ تصدیق انداز سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ جرمنی ’پی فائیو پلس وَن‘ گروپ کا حصہ ہے جس میں اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا، فرانس، برطانیہ، روس اور چین شامل ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے معاہدے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ’’یہ مشرقِ وسطیٰ کے عوام اور اقوام کے لیے تاریخی موقع ہے۔‘‘

ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے وضاحت کی ’’یہ عبوری معاہدہ مستقبل میں مزید بہتری کے لیے حالات ساز گار کرے گا۔ صدر روحانی کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ ایرانی مذاکرات کاروں کو دیگر ممالک کے بے جا مطالبات کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔‘‘

اسرائیل کو ’ٹھنڈا‘ کرنے کی امریکی کوشش
امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیل کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے واشنگٹن اور یروشلم حکومتوں کے تعلقات پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ یہ بات انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کے تناظر میں کہی جس میں انہوں نے اس معاہدے کو ’’تاریخی غلطی‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اوباما نے معاہدے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات بھی کی۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس ٹیلی فونک گفت گو سے متعلق ایک بیان بھی جاری کیا جس کے مطابق اوباما نے زور دیا کہ امریکا، اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوطی سے قائم رکھے گا۔ اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایران کے ارادوں پر اسرائی لا شک کچھ جائز بھی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق اوباما نے تصدیق کی کہ وہ جامع حل تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی کوششوں کے تناظر میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان مشاورت کا عمل فوری طور پر شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔‘‘

معاہدے کے خدوخال
ٌایران، یورینیم کی پانچ فی صد سے زیادہ افزودگی روک دے گا اور درمیانے درجے تک ٌافزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ناکارہ بنائے گا۔
ٌ آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر مزید کام نہیں کیا جائے گا۔

ٌ جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو نتنانز اور فردو میں واقع جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائے گی۔
ٌ ان اقدامات کے بدلے میں چھ ماہ تک جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔
ٌ قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عاید کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔

ٌ ایران کی تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی، جس کی بدولت ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہو سکے گا، اس کے بدلے امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اسے محدود اور عارضی ریلیف فراہم کریں گے لیکن تیل کی برآمد، بینکاری اور معاشیات پر تعزیرات برقرار رہیں گے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ چھے ماہ کے لیے ابتدائی معاہدہ ہے، جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو بڑی حد تک محدود کرنا، اس کی یورینیئم افزودہ کرنے کی صلاحیت اور افزودہ یورینیئم کی موجودہ کھیپ، جوہری آلات کی تعداد اور صلاحیتوں کے علاوہ ہتھیاروں کے درجے والی پلوٹینیئم پیدا کرنے کی ایرانی صلاحیت سمیت دیگر اشد ضروری معاملات پر تحفظات دور کرنے کا آغاز شامل ہے۔ واشنگٹن نے کہا ہے کہ معاہدے کے تحت ایران نے جو وعدے کیے ہیں، ان سے ایران کے جوہری پروگرام کی شفافیت بڑھے گی اور اس کی زیادہ قریب سے نگرانی ہوسکے گی۔

معاہدے کا جو مرکزی نکتہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد ایران پر کسی حد تک پابندیاں نرم کی جائیں گی مگر ایران کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ معاہدے کی پاس داری کررہا ہے ورنہ پابندیاں پھر سے لاگو کردی جائیں گی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کی جانے والی ’فیکٹ شیٹ‘ کے مطابق ایران، پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے تیل اور پیٹرو کیمیکلز کی فروخت اور قیمتی دھاتوں کی تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کر سکے گا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں ایران کو سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تجارت سے ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ تیل اور پیٹروکیمیکلز کی فروخت سے حاصل ہونے والے چار ارب بیس کروڑ ڈالر ایران کو صرف اسی صورت میں اقساط میں دیے جائیں گے جب وہ معاہدے کی پاس داری کرتا رہے گا۔

امریکی ٹی وی چینل اے بی سی سے بات کرتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل دونوں کا ایک ہی مقصد ہے اور ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے حوالے سے یہ معاہدہ پہلا قدم ہے ’’اس معاہدے کے باعث مزید مذاکرات ہوں گے اور ہم مزید سخت شرائط رکھیں گے تاکہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار نہ کر سکے اور اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے اور اسرائیل زیادہ محفوظ ہو گا۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ کانگریس اس معاہدے کے فوائد کو دیکھے گی اور ایران کے خلاف مزید پابندیاں عاید کرنے سے گریز کرے گی جب کہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں سے ابتدائی سمجھوتے کو جلد از جلد جامع جوہری معاہدے کی شکل دینے کی کوشش کرے گا۔

ایران میں عوامی جوش و خروش
ایران میں مذاکرات کاروں کی واپسی پر جشن منایا جا رہا ہے اور ایرانی پرچم اور پھول لیے ہجوم نے تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف کا استقبال کیا اور انہیں ’’امن کا سفیر‘‘ کہ کر پکارا، لوگوں نے نعرے لگائے، جن میں جنگ، پابندیوں، جھکنے اور توہین کے خلاف نعرے شامل تھے۔

ایران آمد کے بعد ہوائی اڈے پر سرکاری ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ایران اس معاہدے کے لیے ضروری اقدامات کے لیے تیار ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’’ہم جو اقدامات کریں گے، وہ اعتماد سازی کے لیے ہوں گے اور انہیں فوری طور پر واپس لیا جاسکتا ہے لیکن یقیناً ہمیں امید ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔‘‘ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں ایران میں اتنے بڑے پیمانے پر عوامی دل چسپی کی ایک وجہ اس کے نتیجے میں پابندیوں کا بہ تدریج خاتمہ بھی ہے۔

پاکستان کا موقف
پاکستان نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر تہران اور دنیا کی چھے بڑی طاقتوں کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’اہم پیش رفت‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی پر اثرات مرتب ہونے چاہییں۔ سینٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے مخالفین ’’انتہا پسندانہ‘‘ سوچ رکھتے ہیں، میرے خیال میں ہر ایک کو اپنے نظریاتی تعصبات سے بالا تر ہوکر سوچنا پڑے گا کہ اس سے علاقی امن کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے پر زور دیتا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تصادم کی صورت میں ہمارا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں قانون ساز اور تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ اس معاہدے سے خطے اور مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کی امید بندھی ہے۔ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد ایران اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ۔

جس سے آئندہ سال کے اواخر تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور وہاں قیام امن کی کوششوں میں مدد ملے گی، ’’جان کیری نے دو باتیں اچھی کی ہیں کہ 2003 میں ایرانی پیش کش کو ضائع کیا گیا جب ان کے پاس 164 سنٹری فیوجز تھے، اب 19 ہزار ہیں اور دوسرے یہ کہ انہوں نے پوچھا کہ اگر معاہدہ نہ کیا جائے تو جنگ کے علاوہ اس کا متبادل کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے مخالفین ’’انتہا پسندانہ‘‘ سوچ رکھتے ہیں، میرے خیال میں ہر ایک کو اپنے نظریاتی تعصبات سے بالاتر ہوکر سوچنا پڑے گا کہ اس سے علاقائی امن کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں۔‘‘

امریکا، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کے وزارئے خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے جینیوا میں طویل مذکرات کے بعد اتوار کو اعلان کیا کہ تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے وہ ابتدائی معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔ دفاعی اور خارجہ امور کے ماہر حسن عسکری رضوی ایران امریکا تعلقات اور عالمی طاقتوں سے اس معاہدے کی پاکستان کے لیے اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں ’’اگر یہ تعلقات کشیدہ رہتے ہیں تو ایک تو ایران، پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ غالباً امریکا پاکستان کی سرزمین استعمال کر کے ایران کے خلاف کارروائی کر سکے گا، دوسرا مسئلہ امریکا کی مخالفت کی وجہ سے ایرانی گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی الجھا ہوا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے نفاذ پر اسلام آباد کو موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ واشگٹن سے کہے کہ اربوں ڈالر کے پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے سے متعلق اپنی مخالفت ترک کرے۔ ایران، شام میں بشارالاسد حکومت کی حمایت کرتا ہے اور پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی کام یابی اور معاہدے پر اتفاق کے بعد تہران اور دمشق کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جارحیت کے امکانات میں کمی بھی ممکن ہے۔ معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان جوہری معاہدے کے حوالے سے کہا ’’ایران اب نئے معاہدے کے بعد 5 فی صد تک یورینیئم افزودہ کر سکے گا، اب وہ اس سے صرف بجلی ہی بنا سکے گا، ایران کے عالمی طاقتوں سے معاہدے کے بعد اسرائیل کی ’’تکلیف‘‘ ختم ہو جائے گی، اسے ایرانی ایٹمی ہتھیاروں سے خوف تھا، ایران ایٹمی ری ایکٹر سے بجلی بناتا رہے تو اس پر اسرائیل کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

موجودہ معاہدے کے بعد ایران ایٹمی اسلحہ نہیں بنا سکے گا۔ ایران نے چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ یورینیئم افزدہ نہ کرنے کا معاہدہ کر کے اپنا جوہری پروگرام عملاً ختم کر دیا ہے۔ اگر یورینیئم کی افزودگی نہیں ہو گی تو پھر ایٹمی ہتھیار بنا نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان نے جو بھی ہتھیار بنائے ہیں، وہ خطرات کو سامنے رکھ کر بنائے ہیں۔ پاکستان اقتصادی طاقت بنے گا لیکن اس نے ہتھیاروں کے حوالے سے کبھی ورلڈ پاور بننے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کو علم ہے کہ اسے کہاں سے، کہاں تک خطرہ ہے۔ ایران کا عالمی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی توانائی کے حوالے سے خاصا مشکل معاہدہ ہے، آئندہ چھے ماہ میں ایران یورینیئم کے تمام ذخائر تلف کر دے گا اور یورینیئم کی افزودگی بھی نہیں کرے گا تو پھر ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اگر ایران کو یورینیئم افزدہ کرنے کی سرے سے اجازت ہی نہیں تو پھر پاور پروگرام بھی ختم ہو گیا۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ توازن اس بنیاد پر منحصر ہے کہ ہمارا جوہری پروگرام کس نوعیت کا ہے، ہم نے جو بھی ہتھیار بنائے ہیں وہ خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے، ہم نے کبھی کوشش نہیں کہ 4000 یا 5000 کلو میٹر رینج کے میزائل بنائیں اور ان کو ٹیسٹ کر دکھائیں تاکہ ہمارا دنیا میں کوئی سٹیٹس بن جائے کہ ہم ورلڈ پاور ہیں، ہم نے ورلڈ پاور بننے کی کوشش کبھی ہتھیاروں کے بل پر نہیں کی، ہم چاہیں گے کہ ہم اقتصادی طاقت بنیں، ہم نے ہتھیاروں کے لحاظ سے اپنا پروگرام اس حد تک محدود رکھا ہے کہ جو ہماری ضروریات ہیں اور جو ہمیں خطرہ ہے وہ ہمارے علم میں ہے کہ کہاں تک ہے اور کہاں سے ہے۔‘‘

ایران ‘جوہری حق’ پر سمجھوتہ نہیں کرے گا
ایران کے سپریم رہ نما خامنائی نے کہا کہ وہ ایرانی مذاکرات کاروں کے لیے “سرخ لکیر” کا تعین کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ان کا ملک جوہری توانائی کے حق سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوگا‘‘۔ آیت اللہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا نیا دور جینیوا میں ہورہا تھا۔ مذاکرات کے آغاز سے چند گھنٹے قبل تہران میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم رہ نما نے کہا کہ وہ ایرانی مذاکرات کاروں کے لیے “سرخ لکیر” کا تعین کر رہے تھے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران تمام ممالک بہ شمول امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔

یاد رہے کہ معاہدے میں تاخیر کی وجہ ایران کا یہ دعویٰ تھا کہ اسے یورینیم افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے جب کہ امریکا کے بہ قول یہ دعویٰ غلط تھا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا کہ معاہدے میں اس قسم کی کوئی بات شامل نہیں ہے ’’پہلے مرحلے میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایران کو یرینیئم کی افزودگی کا حق حاصل ہے، اس بارے میں کسی بھی طرح کا کیا جانے والا تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ معاہدے میں شامل نہیں۔‘‘ ایک پریس کانفرنس میں ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے افزودگی پر بڑی گرم جوشی سے بات کی لیکن ان کی باتوں سے ظاہر تھا کہ معاہدے میں ایران کے پروگرام کو تسلیم کیا گیا، نہ کہ اس کے حق کو۔ ظریف کا کہنا تھا کہ ’’ متعدد بار، کم از کم دو مرتبہ واضح انداز میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ایران کے پاس افزودگی کا پروگرام ہوگا اور ہمارا ماننا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے، جس پر ہم عمل کر رہے ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس حق کا احترام کیا جائے۔‘‘

امریکا کے پاس موجود معاہدے کے خلاصے کے مطابق، ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے موجود افزودہ یورینیئم کے ذخیرے کو تلف کرے گا، یورینیئم کی کم سطح کی افزودگی کو روکے گا، یورینیئم کو افزودہ کرنے کے لیے سنٹری فیوجز کی تعمیر، تنصیب اور استعمال روکے گا اور پلوٹونیئم پیدا کرنے والے نئے ری ایکٹرکی تعمیر منجمد کر دے گا۔ خلاصے میں کہا گیا کہ ایران نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کی بھرپور اجازت دے گا تاہم ایران کے تیل کی برآمدات اور اس کے معاشی شعبے پر عاید پابندیاں بہ دستور برقرار رہیں گی۔

ماضی کی سپر طاقت کا موقف
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ اس سمجھوتے سے کسی کی شکست نہیں ہوئی بل کہ یہ سب کی جیت ہے جب کہ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ معاہدے سے عالمی جوہری پھیلاؤ کے نظام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور مشرق وسطٰی میں امن و استحکام کا تحفظ ہوگا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لارؤف نے تہران کے جوہری پروگرام پر ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے معاہدے کو سراہا ہے اور زور دیا ہے کہ یہ تمام فریقین کے مفاد میں ہوگا۔ معاہدہ عالمی جوہری توانائی ادارے آئی اے ای اے کی جانب سے وسیع پیمانے پر معائنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے مشرق وسطٰی میں انتہائی درکار اعتماد کو فروغ ملے گا اور جوہری پھیلاؤ کے خدشات کم ہوں گے۔ انہوں نے روسی صحافیوں کو بتایا کہ اب آئی اے ای اے کی جانب سے متعین کردہ حقائق سے ادھر اْدھر ہونا انتہائی مشکل ہوگا۔

روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر قائل ہیں کہ ایران اچھے یقین کے ساتھ ادارے کے ساتھ تعاون کرے گا۔ آئندہ چھے ماہ میں ہونے والے مذاکرات ایران کو پرامن جوہری سرگرمیوں کے لیے درکار پیرا میٹرز کا تعین کریں گے، بالخصوص جوہری پاور اسٹیشنز کے لیے ایندھن کی پیداوار، تحقیقی ری ایکٹرز اور میڈیکل اور دیگر انسانی ضروریات کے لیے آئیسو ٹوپس پیدا کرنے والے ری ایکٹرز کی پیداوار شامل ہے۔ سرگئی لاروف نے اس عرصے کے دوران مغرب کی جانب سے عاید پابندیوں میں نرمی کے فیصلے کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان یک طرفہ پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا یک طرفہ پابندیوں کو ہٹا کر ایران پر دباؤ میں کمی کا آغاز درست ہے۔ لاروف نے ایران کے نئے صدر حسن روحانی کے سنجیدہ ارادوں کی تعریف کی، جن کے نتیجے میں معاہدہ ممکن ہوا ہے۔

لاروف کا کہنا تھا کہ ایران میں نئے صدر کے برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی ہم نے اس معاملے کے حل سے متعلق خواہش کے اعلانات سنے، جن نے سنجیدہ بنیادیں رکھی گئیں۔ وزارت خارجہ نے اپنے غیر معمولی ٹویٹ میں کہا کہ پی فائیو پلس ون اور ایران نے یہ (کارنامہ) کر دیا، اس نے معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا نے اپنے موقع کو نہیں گنوایا۔ چین نے بھی ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر پابندیوں میں نرمی کے بدلے روکنے کے حوالے سے طے پانے والے اہم معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ تہران کے ساتھ معاہدے سے مشرق وسطٰی میں امن اور استحکام میں مدد ملے گی۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدر آمد کی راہ ہموار ہو گئی؟
معاہدے کے اگلے دن پیر کو پاکستان ایران کے وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی ایران پہنچ گئے۔ وہ ایرانی حکام سے ملاقاتیں کر کے معاہدے کی ڈیڈ لائن میں توسیع اور گیس کی قیمت پر نظرثانی کے حوالے سے بات چیت کرناچاہتے تھے۔ ماہرین کے مطابق معاہدے کے بعد ایران پر سے عالمی پابندیاں ہٹنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے، جس سے خطے کے دیگر معاملات پر جہاں مثبت اثرات مرتب ہوں گے، وہاں ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے سے پاک ایران گیس پائپ لائین منصوبے پر عمل در آمد کی راہ بھی ہم وار ہوجائے گی جو کہ پاکستان کے لیے ایک خوش آئند بات ہو گی۔

پیر کو مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز کی زیر قیادت ایران روانہ ہونے والے وفد میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی بھی شامل تھے۔ اس حوالے سے حکومتی ذرائع پر امید تھے کہ وزیر پٹرولیم کا دورہ کام یاب ثابت ہو گا اور ایرانی حکومت معاہدے پر عمل در آمد کی آخری تاریخ میں توسیع کے ساتھ ساتھ گیس کے نرخوں پر بھی نظر ثانی کے لیے تیار ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ مذکورہ معاہدے کے تحت پاکستان 31دسمبر 2013 سے ایران سے گیس خریدنے کا پابند ہے بہ صورت دیگر حکومت پاکستان کو یکم جنوری 2014 سے 30لاکھ ڈالر یومیہ جرمانہ حکومت ایران کو ادا کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔