World War Z : زندہ لاشوں کی عالمی جنگ

محمد اختر  اتوار 1 دسمبر 2013
World War Z اسی نام کے ایک ناول سے ماخوذ ہے۔ اس ناول کا مصنف میکس بروکس ہے۔ فوٹو : فائل

World War Z اسی نام کے ایک ناول سے ماخوذ ہے۔ اس ناول کا مصنف میکس بروکس ہے۔ فوٹو : فائل

“World War Z” ہالی وڈ کی ایک فلم ہے جس میں ایک ایسے زمانے کی منظر کشی کی گئی ہے جب ایک نامعلوم وائرس پھیلنے سے پوری دنیا زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکی ہے اور دنیا بھر میں پھیلی نسل انسانی خطرے میں پڑچکی ہے۔

یہ فلم اسی نام کے ایک ناول سے ماخوذ ہے۔اس ناول کا مصنف میکس بروکس ہے۔ مبصرین کے مطابق زندہ لاشوں (zombies)کے تصور پر لکھے جانے والے بہت سے زومبی ناولوں اور کہانیوں کی طرح یہ ناول بھی عالمی سیاست اور حالات بالخصوص تیسری دنیا میں تیزی سے بگڑتے ہوئے سماجی حالات پر ایک طنز ہے۔ اس ناول کی زبردست کامیابی کے بعد اسے فلم کی شکل میں ڈھالا گیا ہے۔ اس فلم کا نام “World War-1″ اور “World War-2″ یعنی پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے وزن پر رکھا گیا ہے لیکن اس میں انسانوں کے بجائے زندہ لاشوں کی عالمی جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے۔

ناول اور فلم کی کہانی کا لب لباب دنیا کے تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات اور وسائل کی کمی کے باعث ان کے درمیان پیدا ہونے والی جنگ وجدل کی صورت حال ہے۔مبصرین کے مطابق ہالی وڈ کی زومبی فلمیں دنیا بھر بالخصوص تیسری دنیا کے تیزی سے بگڑتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کا ایک تمثیلی منظرنامہ پیش کرتی ہیں۔دنیا میں بڑھتا ہوا کنزیومر ازم ، ناقابل حل مسائل کی بھرمار اور بالخصوص تیسری دنیا میں کثرت آبادی، جہالت، غربت، بیروزگاری اور بیماری کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے ، وہ مبالغہ آرائی کی شکل میں زومبی فلموں میں پیش کی جاتی ہے۔

زومبی فلموں میں جس طرح زندہ لاشیں ایک دوسرے کو نوچتی بھنبھوڑتی دکھائی دیتی ہیں، اسی طرح دنیا میں انسانوں کی بھیڑ ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہی ہے۔ کرپشن ، قتل وغارت ، فسادات ، قحط اور بیماری کے مارے انسانوں کی نقشہ کشی کے لیے زومبی یعنی زندہ لاشوں کی فلموں کو استعمال کیاجاتا ہے۔ 2013 میں ریلیز ہونے والی World War Z بھی دنیا بھر کے انسانوں کو زندہ لاشوں میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھاتی ہے اور اس میں کسی مذہب ، نسل اور خطے سے قطع نظر تمام انسانوں کو پیش کیاگیا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یورپ سے لیکر لاطینی امریکہ اور ایشیا سے لیکر افریقہ تک انسان زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دیگر صحت مند انسانوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔

ناول World War Z جب شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوا تو ہالی وڈ کے سپرسٹار بریڈ پٹ کی کمپنی ’’پلان بی‘‘ نے 2007 میں اس ناول کے حقوق خریدلیے تاکہ اس پر فلم بنائی جاسکے۔فلم کا مرکزی کردار بھی بریڈ پٹ ہی کررہے ہیں فلم کی ہدایت کاری کے لییمارک فارسٹر سے رابطہ کیا گیاتاہم 2009 میں میتھیو کارناہان سے رابطہ کیاگیا اور اسے فلم کا سکرپٹ نئے سرے سے لکھنے کو کہا گیا جس کے بعد 2011 میں جاکر کہیں فلم کی عکاسی کا کام شروع ہوسکا۔

فلم کی شوٹنگ مالٹا ، گلاسگو اور بڈاپسٹ سمیت دنیا کے کئی شہروں میں ہوئی۔فلم کی ریلیز کی تاریخ 2012 رکھی گئی تاہم پروڈکشن اور دیگر مسائل کی وجہ سے یہ لیٹ ہوتی رہی۔ اس کے بعد فلم میں مزید خرابیاں سامنے آئیں اور عملہ دوبارہ بڈاپسٹ پہنچا اور بہت سے مناظر کی دوبارہ شوٹنگ کی گئی۔ اس کے بعد پھر تاخیر ہوئی اور فلم کے تیسرے ایکٹ کی تحریر کے لیے ڈامن لنڈے لوف کی خدمات حاصل کی گئیںتاہم وہ بھی مقررہ وقت میں سکرپٹ مکمل نہ کرسکا اور اس کے لیے رائٹر ڈریو گوڈرڈ کو لیا گیا اور یوں اکتوبر 2012 میں دوبارہ شوٹنگ ہوئی۔ اس طرح فلم جون 2013  میں ریلیز ہوسکی۔

فلم کا پریمیئر دوجون 2013 کو لندن میں ہوا اور اس کے بعد یہ ان فلموں میں شامل ہوئی جن سے ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا آغاز ہوا۔اکیس جون کو فلم امریکہ میں ریلیز کی گئی ۔ فلم پر 190 ملین ڈالر (19 کروڑ ڈالر)کی لاگت آئی لیکن اس نے ریکارڈ 540 ملین ڈالر(54 کروڑ ڈالر) کمائے۔ فلموں کو فنی لحاظ سے بھی بہت معیاری قرار دیا گیا اور اس کے لیے مثبت تجزیے سامنے آئے۔فلم کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اگلا سیکوئیل تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو بعدازاں فلمسازی کے دوران مشکلات کے باعث منسوخ کردیا گیا لیکن اب یہ دوبارہ تیاری کے مراحل میں ہے۔فلم کی کہانی بہت دلچسپ ہے اوراس میں پوری دنیا کی منظر کشی کی گئی ہے۔

فلم کا مرکزی کردار اقوام متحدہ کا سابق ملازم گیری لین (بریڈ پٹ) ہے۔ فلم کا افتتاحی منظر کچھ یوں ہے کہ گیری، اس کی بیوی کیرن اور دو بیٹیاں فلاڈیلفیا کی ایک مشہور شاہراہ پر ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہیںجب اچانک شہر پر زندہ لاشیں حملہ کردیتی ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک افراتفری پھیل جاتی ہے اور گیری لین اور اس کی فیملی نیوجرسی کے شہر نیوآرک کی طرف فرار ہونے لگتے ہیں اور وہاں ایک اپارٹمنٹ میںچھپ جاتے ہیں۔ اس گھر میں ایک جوڑا اور ان کا نوجوان لڑکا ٹومی رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھیری اومٹونی جو کہ گیری کا ایک پرانا دوست ہے، ان کی مدد کے لیے ایک ہیلی کاپٹر بھیجتا ہے جو گیری کے خاندان اور ٹومی کو وہاں سے نکال لیتا ہے۔

انہیں بحراوقیانوس میں واقع امریکی بحریہ کے ایک جہاز میں سوارکرادیا جاتا ہے جس میں سائنس دان اور فوجی افسران دنیا بھر میں پھیلی اس بیماری کے بارے میں جاننے کی کوشش کررہے ہیں جس سے لوگ زندہ لاشوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ایک ڈاکٹر اینڈریو بتاتا ہے کہ بیماری کی وجہ ایک وائرس ہے جو دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ وائرس کے خلاف ویکسین تبھی تیار کی جاسکتی ہے جب وائرس کے ماخذ کا پتہ چل جائے ۔گیری ہچکچاہٹ کے ساتھ اس بات پر تیار ہوجاتا ہے کہ وہ بیماری کا ماخذ جاننے کے لیے ڈاکٹر اینڈریو کی مدد کرے گا کیونکہ اسے دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اسے اور اس کے بیوی بچوں کو جہاز پر سے اتار دیا جائے گا۔

گیری اور ڈاکٹر اینڈریو جنوبی کوریا میں واقع امریکی فوج اڈے کیمپ ہمفریز پہنچتے ہیں جہاں پہنچتے ہی زندہ لاشیں ان پر حملہ کردیتی ہیں۔وہ واپس جہاز پر سوار ہونے کے لیے بھاگتے ہیںتاہم ڈاکٹر اینڈریو کا پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ گرپڑتا ہے۔ زندہ لاشوں کے ہاتھوں مرنے کے خوف سے وہ خود پر گولی چلا کر اپنے آپ کو مارڈالتا ہے۔کیپٹن سپیک کی قیادت میں باقی فوجی گیری کوبچالیتے ہیں۔گیری کو پتہ چلتا ہے کہ فوجی اڈے پر موجود ڈاکٹر نے یہ بیماری متعارف کرائی ہے جسے ایک فوجی جلا کر ختم کردیتا ہے تاہم وہ خود بھی زخمی ہوکر اس وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے۔انہیں پتہ چلتا ہے کہ وائرس ایک عالمگیر وبا بن چکا ہے اور دنیا بھر کے انسان زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ایک قیامت کا ماحول برپا ہوچکا ہے۔

فوجی اڈے پر سی آئی اے کا ایک سابق کارکن قید ہے جو گیری کو بتاتا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے یروشلم (بیت المقدس) میں ایک سیف زون بنایا ہوا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اسرائیلی ایجنسی بیماری کے بارے میں باخبر تھی اور اس نے پہلے ہی یہ سیف زون بنالیا تھا۔وہ اسے کہتا ہے کہ وہ اسرائیل جائے اور بیماری کے ماخذ کے بارے میں معلوم کر ے۔گیری اور اس کی ٹیم موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر ہوائی جہاز کی طرف بھاگتی ہے لیکن زندہ لاشیں ان پر حملہ کردیتی ہیں اور کئی فوجیوں کو ہلاک کردیتی ہیں۔ ان کے حملے میں کیپٹن سپیک وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے اور خودکشی کرلیتا ہے۔گیری اور اس کے ساتھی ہوائی جہاز پر فرار ہوجاتے ہیں۔

بیت المقدس میں گیری کی ملاقات اسرائیلی موساد کے سربراہ جرگن وارم برن سے ہوتی ہے جو اسے بتاتا ہے کہ کئی ماہ قبل انہوں نے بھارتی فوج کی جانب سے بھیجے جانے والے ایک خفیہ پیغام کے بارے میں پتہ چلایا تھا جس میں بھارتی فوج کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجی ’’زندہ لاشوں‘‘سے جنگ کررہے ہیں۔اس پر اسرائیل نے بیت المقدس کے ارد گرد ایک مضبوط دیوار تعمیر کرلی تھی اور اپنی زیادہ تر آبادی کو اس دیوار کے حصار میں لاکر محفوظ کرلیا تھا۔وہ اسے یہ دیوار دکھاتا ہے جو بہت موٹی اور مضبوط ہے۔دیوار کے اگلی طرف لاکھوں انسان زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہاں پر گیری دیکھتا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ مختلف گروہوں میں جمع ہوکر اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں مشغول ہیں کہ خدا انہیں اس آفت سے بچائے۔

لوگوں کی عبادت کا شور اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ دیوار کے پار موجود زندہ لاشوں کو ان کی خبر ہوجاتی ہے اور وہ دیوہیکل دیوار کو پھلانگ کر اندر آنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یوں لاکھوں کی تعداد میں زندہ لاشیں یروشلم میں داخل ہوجاتی ہے اور صحت مند لوگوں کو شکار کرنے لگتی ہیں۔ جرگن اسرائیلی فوجیوں کو گیری کو ہوائی جہاز میں بٹھانے کا حکم دیتا ہے۔راستے میں گیری دیکھتا ہے کہ زندہ لاشیں ایک بیماربوڑھے شخص اور ایک دبلے پتلے لڑکے پر حملہ نہیں کررہیں۔ کچھ ہی دیر بعد گیری کے ساتھ موجود ایک خاتون اسرائیل فوجی ’’سیگن‘‘ کو ایک زندہ لاش زخمی کردیتی ہے اور اس کے بازو پر کاٹ لیتی ہے ۔ گیری فوری طورپر اس کا متاثرہ ہاتھ کاٹ دیتا ہے تاکہ انفیکشن اس کے پورے جسم میں پھیل کر اسے زندہ لاش میں نہ تبدیل کردے۔گیری اور سیگن ایک کمرشل ہوائی جہاز میں سوار ہوکر وہاں سے فرار ہوجاتے ہیں جبکہ زندہ لاشیں پورے اسرائیل میں پھیل جاتی ہیں۔

گیری ، تھیری سے رابطہ کرتا ہے اور ہوائی جہاز کو ویلز میں واقع عالمی ادارہ صحت کے ایک دفتر کی طرف موڑ لیا جاتا ہے۔جہاز ہوا میں ہی ہوتا ہے کہ اس میں چھپی ہوئی ایک زندہ لاش مسافروں پر حملہ کردیتی ہے۔ جہاز میں بہت سے مسافر زندہ لاشوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس پر گیری ان پر دستی بم سے حملہ کردیتا ہے اور یوں عین منزل کے قریب جہاز کریش ہوجاتا ہے۔گیری اور سیگن زخمی ہوجاتے ہیں۔وہ عالمی ادارہ صحت کے دفتر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔گیری بے ہوش ہوجاتا ہے اور تین دن بعد ہوش میں آتا ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد وہ دفتر کے عملے کو زندہ لاشوں کے بارے میں اپنے مشاہدات کے بارے میں بتاتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس نے مشاہدہ کیا ہے کہ زندہ لاشیں زخمی اور بیمار افراد پر حملہ نہیں کرتیں کیونکہ وہ ان کے وائرس کو پھیلانے کے لیے موزوں ’’میزبان‘‘ نہیں ہوتے۔

گیری مشورہ دیتا ہے کہ اس مشاہدے کی تصدیق کے لیے وہاں پرموجود کسی شخص کو جان بوجھ کر وائرس سے متاثرکیا جائے لیکن وائرس کی شیشیاں جس جگہ پر رکھی ہیں وہاں پہلے ہی زندہ لاشیں گھوم رہی ہیں۔گیری ، سیگن اور ایک سرکردہ ڈاکٹر شیشیاں حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں لیکن راستے میں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔گیری اس جگہ پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں شیشیاں رکھی ہیں جبکہ سیگن اور ڈاکٹر واپس مرکزی عمارت میں چلے جاتے ہیں۔زندہ لاشیں گیری کوگھیر لیتی ہیں لیکن وہ اپنے جسم میں وائرس کو انجیکٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اوراس کے بعد زندہ لاشیں اسے کچھ نہیں کہتیں اور یوں اس کے مشاہدے اور نظریے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔وہ جب واپس عملے میں پہنچتا ہے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔اس طرح وہ وائرس کا علاج ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

زومبی کیا ہے؟
اس قسم کی فلموں میں دکھائی جانے والی زندہ لاشوں کو انگریزی میں ’’زومبی‘‘ کہا جاتا ہے۔زومبی کا تصور لٹریچر میں کہاں سے آیا؟ سینہ بہ سینہ کہانیوں کے مطابق افریقہ کے قدیم قبائل میں جادو کے ذریعے مردہ انسانوں کو زندہ کردیا جاتا تھا اور اس کے بعد ان زندہ مردوں یا undead کو جادوگر اپنی مرضی سے استعمال کرتا تھا۔

اس طرح مغربی افریقہ کے ایک عقیدے کے مطابق جادو کے ذریعے مردہ لوگوں کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔ اس جادو کو ’’ووڈو‘‘کہا جاتا ہے۔ اس طرح زندہ کیے جانے والے مردے اس ساحر کے کنٹرول میں آجاتے ہیں جو ان کو زندہ کرتا ہے۔انگریزی میں زومبی کا تصور انہی افریقی ماخذات سے آیا۔ ان پر لاتعداد کہانیاں لکھی جاچکی اور فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔