قرار داد پاکستان: متعصب مؤرخین کے پھیلائے مغالطے

 اتوار 22 مارچ 2020
بابائے قوم کی ہدایت پر قرارداد پاکستان کی ساگرہ 23 مارچ کو منانے کا رواج شروع ہوا ۔ فوٹو: فائل

بابائے قوم کی ہدایت پر قرارداد پاکستان کی ساگرہ 23 مارچ کو منانے کا رواج شروع ہوا ۔ فوٹو: فائل

مارکس سیسرو (متوفی 43 قبل مسیح) اٹلی کا مشہور فلسفی، سیاست داں اور ادیب گذرا ہے۔ اس کا منفرد قول ہے: ’’ایک قوم احمقوں کے ساتھ گزارا کرلیتی ہے۔ خواہشوں کے اسیر بھی اُسے کاری ضرب نہیں لگاپاتے، لیکن وہ اپنے اندر بیٹھے غداروں کے واروں سے آخر کار تباہ ہوجاتی ہے۔ وجہ یہ کہ دروازے پر بیٹھا دشمن تو صاف نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے کی خاطر قوم پوری تیاری بھی کرتی ہے لیکن اس کی صفوں میں گھسے غدار ہر جگہ آزادی سے دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے اور اختلافات کی آگ کو آنچ دیتے ہیں۔‘‘

اطالوی فلسفی کا قول برحق ہے۔ وطن عزیز میں ہی نظر دوڑائیے۔ شروع سے یہاں تقریباً ہر شعبے میں ایسے کچھ غدار موجود ہیں جنہوں نے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور اسے نقصان پہنچانے کی اپنی سی کوششیں کرتے رہے۔ شعبہ تاریخ میں بھی ایسے مورخین سامنے آئے جنہوں نے اپنے گروہی یا ذاتی مفادات پورے کرنے کی خاطر نظریاتی، تاریخی اور سیاسی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی شعوری سعی کی تاکہ پاکستانی قوم کو متحد اور یکجا ہونے سے روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو خاص نشانہ بنایا جن میں قرارداد پاکستان بھی شامل ہے۔

تحریک آزادی پاکستان کی تاریخ میں یہ قرارداد ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو پیش کرکے مسلمانان ہندوستان نے بالآخر فیصلہ کرلیا کہ وہ علیحدہ وطن حاصل کرکے رہیں گے تاکہ وہاں آزادی سے اپنی دینی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔ اقدار و عقائد کی حفاظت کریں اور رسوم و رواج اپنالیں۔ ہندوستان میں ہندو اکثریت کی بڑھتی طاقت پسندی اور من مانیوں نے مسلم اقلیت کو اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند کردیا تھا۔

پنجاب اور صوبہ سرحد سے لے کر بنگال تک ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اس زمانے میں غربت، جہالت اور بیماری کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھی۔ اگر انگریزوں کی روانگی کے بعد متعصب ہندو لیڈر ہندوستان کے حاکم بن جاتے تو ان کی یہی سعی ہوتی کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کو زیادہ سے زیادہ رعایات دیں اور انہیں پھلنے پھولنے کے مواقع عطا کریں۔ ہندوؤں کی زبردست اکثریت آخر کار مسلم علاقوں میں بھی اثرو نفوذ کرجاتی جیسا کہ حال ہی میں یہ عمل ریاست جموں و کشمیر میں دیکھنے کو ملا۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن نریندر مودی کی حکومت نے ریاست پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ بھارت عسکری طاقت کے بل پر ہی حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کی ریاستوں کو بھی زیر تسلط لے آیا  تھا۔

پچھلے ساڑھے پانچ برس میں خصوصاً مودی سرکار کے مسلم دشمن اقدامات تمام مسلمانان برصغیر پر آشکارا کرچکے کہ ان کے بزرگوں نے پاکستان قائم کرنے کا درست فیصلہ کیا تھا جہاں آج ساڑھے اکیس کروڑ پاکستانی بھارتی مسلمانوں کی نسبت زیادہ آزادی و خودمختاری سے زندگی گزار رہے ہیں۔ مسائل اور مصائب انہیں بھی درپیش ہیں مگر کم از کم پاکستانی مسلمانوں کو یہ خوف تو دق نہیں کرتا کہ اسلامی لباس پہننے یا ڈاڑھی رکھنے پر ہندو انتہا پسند غنڈے ان پر حملہ کردیں گے۔ بھارتی مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں تو یہ خوف ان کی شخصیت کا حصہ سا بن رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر  بہت اذیت میں مبتلا ہیں۔

پاکستان میں مگر آج بھی کچھ مورخین وقتاً فوقتاً پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے یا اپنی ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ کے لیے درفطنیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ قرارداد پاکستان کے حوالے سے ان کی پہلی درفطنی یہ سامنے آئی کہ یہ 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی لیکن خاص طور پر جرنیلوں نے چند مقاصد حاصل کرنے کی خاطر ہمارے ہاں یہ نظریہ پھیلا دیا کہ یہ 23 مارچ کو منظور ہوئی۔ اسی لیے اس تاریخ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے۔

یہ عیاں ہے کہ اس الزام سے ہماری ا فواج کو بدنام کرنا مقصود تھا جو ہمارے بعض نام نہاد دانشوروں کا محبوب مشغلہ ہے کیونکہ اس سے انہیں کبھی کبھی  شہرت و دولت یا عزت مل جاتی ہے۔ایک مخصوص طبقہ انھیں سر آنکھوں پر بھی بٹھاتا ہے۔ بہرحال آئیے اس دعوی کو سچ و جھوٹ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں کہ کیا  کچھ جرنیلوں نے 24 نہیں 23 مارچ  کو یوم پاکستان منانے کا آغاز کیا؟

قائداعظم کی آمد

آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی اس کا سب سے اعلیٰ ذیلی ادارہ تھی۔ اس نے وسط 1939ء میں طے کیا کہ پارٹی کا سالانہ ستائیسواں اجلاس 28 تا 30 دسمبر کو لاہور میں منعقد ہوگا۔ تاہم پنجاب کے وزیراعلیٰ، سکندر حیات خان کی درخواست پر انعقاد کی تاریخ 22 تا 24 مارچ 1940ء رکھ دی گئی۔ سکندر حیات اجلاس کی تیاریوں کے یے وقت چاہتے تھے۔ قائد 21 مارچ کی صبح دہلی سے لاہور پہنچے۔ سب سے پہلے اسپتال جاکر زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔ شام کو ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں فیصلہ ہوا کہ قرارداد پاکستان کا ابتدائی متن قائداعظم اور سکندر حیات مل کر تیار کریں گے۔ قائداعظم مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ اس لیے ابتدائی متن سکندر حیات نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے بنایا۔

22 مارچ کو صبح گیارہ بجے ورکنگ کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوا۔ اس میں ابتدائی متن پر بحث و مباحثہ ہوا۔ تاہم کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ کمیٹی ایک بجے برخاست ہوگئی۔ ڈھائی بجے عام اجلاس شروع ہوا۔ منٹو پارک ایک لاکھ افراد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا حالانکہ جلسے میں شرکت کا ٹکٹ لگا تھا۔ فرش پر بیٹھنے والوں نے فی کس آٹھ آنے دیئے۔ کرسی پر بیٹھنے کا خرچ دس روپے تھا۔ ڈائس پر بیٹھنے والوں نے سو روپے فی کس دیئے۔

یہ رقم اجلاس منعقد کرنے کے اخراجات میں کام آئی۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد نظمیں بشمول ’’ملت کا پاسباں ،محمد علی جناح‘‘ پڑھی گئیں۔ پھر نواب ممڈوٹ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ پھر قائداعظم نے تقریر کی۔ اردو کے چند جملے بول کر وہ انگریزی میں تقریر کرنے لگے۔ حاضرین میں بیشتر ان پڑھ تھے مگر سبھی اتنی خاموشی سے اپنے محبوب قائد کی باتیں سنتے رہے کہ یہ منظر دیکھنے کے لائق تھا۔ قائد ایک سو منٹ تک فی البدیہہ تقریر کرتے رہے۔ ایک غیر معمولی انسان ہی یہ کارنامہ دکھلا سکتا تھا۔انہوں نے بڑی خوبی سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین فرق واضح کرتے ہوئے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ اس کے بعد عام اجلاس ختم ہوگیا۔

خصوصی کمیٹی کے اجلاس

قرارداد پاکستان کو آخری شکل دینے کی خاطر ایک خصوصی (سبجیکٹ) کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اختتام جلسہ کے بعد پنڈال میں رات نو بجے اسی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا جو چار گھنٹے جاری رہا۔ اس دوران ارکان کمیٹی نے متن پر بحث و مباحثہ اور غورو خوص کیا۔ تاہم کوئی اتفاق رائے نہ ہو پایا۔

23 مارچ کی صبح ساڑھے دس بجے دوبارہ خصوصی کمیٹی کے ارکان مل بیٹھے تاکہ قرارداد پاکستان کو قطعی شکل دی جاسکے۔ اب دوبارہ طویل مباحثہ ہوا۔ آخر کار دوپہر دو بجے قرارداد کا متن تیار کرلیا گیا۔ اس کے ایک گھنٹے بعد تین بجے عام یا کھلے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد سیکرٹری جنرل لیاقت علی خان نے سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ پھر وزیراعلیٰ بنگال فضل الحق نے تاریخی قرارداد پیش کی جسے پہلے پہل ’’قرارداد لاہور‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ صرف حصوں (پیراگرافس) پر مشتمل تھی اور ہر حصہ ِتحریر ایک جملے پر محیط تھا۔ بعدازاں مختلف لیگی رہنماؤں نے قرارداد کے حق میں تقاریر کیں۔

نماز مغرب کے وقت عام اجلاس ختم کردیا گیا۔ اسی رات نو بجے خصوصی کمیٹی کا اگلا اجلاس ہوا۔ اس میں فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اور خاکساروں پر حکومتی ظلم کی مذمت کے سلسلے میں قراردادیں تیار کی گئیں۔24 مارچ کو صبح سوا گیارہ بجے آل انڈیا مسلم لیگ کا اختتامی کھلا اجلاس شروع ہوا۔ اس میں سب سے پہلے قرارداد پاکستان پر مختلف رہنماؤں نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ یہ اجلاس وقفے کرتے ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہا۔

تقریباً دس بجے اس عام اجلاس میں قرارداد پاکستان سبھی حاضرین نے متفقہ طور پر منظور کرلی۔ یوں پارٹی کا تاریخی اجلاس اختتام کو پہنچا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرارداد میں مسلمانوں کی مجوزہ مملکت کو پاکستان کا نام نہیں دیا گیا ۔وجہ یہ  کہ یہ لفظ تب تک مسلمانان ہند میں مشہور نہیں ہوا تھا۔ لفظ چوہدری رحمت علی نے 1933ء میں تخلیق کیا تھا۔ ہوا یہ کہ ہندوؤں کے اردو اور انگریزی اخبارات لاہور کی قرارداد کو ’’قرارداد پاکستان‘‘ لکھنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ نام مسلمانوں میں تیزی سے مقبول ہوگیا۔

ہندو اور برطانوی پریس کا شکریہ

19 اپریل 1940ء کو قائداعظم کی ہدایت پر مسلمانان ہند نے ’’یوم آزادی‘‘ منایا۔ اسی دن پارٹی نے پورے ہندوستان میں جلسے منعقد کرکے مسلمانوں کو قرارداد لاہور کی غرض و غایت سے آگاہ کیا۔ انہیں بتایا کہ علیحدہ وطن کے قیام سے انہیں کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ یوپی، سی پی اور کئی دیگر علاقوں میں یہ دن ’’یوم پاکستان‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ اس سچائی سے عیاں ہے کہ ایک ماہ کے کم عرصے میں بھی لفظ پاکستان مسلمانان ہند میں مشہور ہوگیا تھا۔

مسلم دشمن ہندو پریس نے پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے اور مسلمانوں میں متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔25 دسمبر 1940ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں قائداعظم نے حاضرین کو بتایا: ’’ہمیں اپنے مجوزہ وطن کے لیے ایک مناسب لفظ درکار تھا۔ ہندو اور برطانوی پریس کا شکریہ کہ انہوں نے وہ ہمیں عطا کردیا۔‘‘ جیسے ہی قائداعظم نے لفظ پاکستان کی توثیق کی، پورے ہندوستان میں مسلمان پاکستان کے متوالے ہوگئے۔ جلد ہی پارٹی کے آئین میں ترمیم کردی گئی۔ اب ہر نئے رکن کو پارٹی میں شامل ہوتے ہوئے یہ حلف اٹھانا پڑا کہ وہ ’’پاکستان سے وفادار رہے گا۔‘‘

قرارداد کی پہلی سالگرہ

22 فروری 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا دہلی میں اجلاس منعقد ہوا۔اس  میں یہ غوروفکر کیا گیا کہ قرارداد پاکستان کی پہلی سالگرہ تزک و احتشام سے 23 مارچ کو منائی جائے یا 24 مارچ کو؟ تبھی قائداعظم کی ہدایت پر 23 مارچ کو قرارداد کی سالگرہ منائی گئی۔

اس امر کا ٹھوس ثبوت ’’قائداعظم پیپرز‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ اس دستاویز میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام اہم اجلاسوں کی کارروائی نہایت تفصیل سے درج ہے۔ اسی دستاویز میں لکھا ہے کہ قائداعظم کے حکم پر 23 مارچ 1941ء کو قرارداد کی پہلی سالگرہ منائی گئی۔ اس سچائی سے عیاں ہے کہ خود بابائے قوم کی ہدایت پر قرارداد پاکستان کی ساگرہ 23 مارچ کو منانے کا رواج شروع ہوا۔ مگر متعصب پاکستانی مورخین کبھی یہ حقیقت عیاں نہیں کرتے کیونکہ اس طرح ان کا دعویٰ ٹھس ہوجاتا ہے۔

قائداعظم پیپرز میں تفصیل سے یہ درج نہیں کہ 23 مارچ کو سالگرہ منانے کا فیصلہ کیوں ہوا؟ اس ضمن میں بہرحال محب وطن مورخین نے کچھ قیاس لگائے ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندو اور برطانوی پریس کی بدولت مسلم عوام کے اذہان میں یہ بات بیٹھ گئی کہ قرارداد پاکستان 23 مارچ کو پیش ہوئی۔

لہٰذا یہی تاریخ ان کے ذہنوں میں جم گئی۔ اب اسے 24 مارچ کردیا جاتا تو خواہ مخواہ کا تناقص جنم لیتا۔ اسی سے بچنے کے لیے شاید قائداعظم نے ہدایت دی کہ ہندوستان بھر میں مشہور ہوجانے والی تاریخ (23 مارچ) کو ہی سالگرہ منائی جائے حالانکہ اسے 24 مارچ کی رات منظور کیا گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قرارداد کی تیاری کی تاریخ (23 مارچ) کو منظوری والی پر ترجیح دی گئی۔ غرض یہ ایسا مسئلہ نہیں کہ اسے لے کر پریشان ہوا جائے۔ مگر ہمارے متعصب مورخین نے اسی کو رائی کا پہاڑ بنادیا۔ گو معاملے کی گہرائی میں جایا جائے تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی صورت حال ہی عیاں ہوتی ہے۔

ریاست یا ریاستیں؟َ

قرارداد پاکستان کے متعلق فسادی مورخین یہ پخ بھی سامنے لائے کہ اس میں ’’ریاست‘‘ نہیں ’’ریاستوں‘‘ کا ذکر ہے۔ گویا ہمارے بزرگ ایک نہیں کئی پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان میں ایک پاکستان کے سلسلے میں اتفاق موجود نہیں تھا۔ متعصب مورخین اسی بات کو یوں اچھالتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈروں میں سنگین باہمی اختلافات موجود تھے۔ تاہم حالات و واقعات کا جائزہ لینے سے ان کے اس منفی نکتے کی قلعی بھی اتر جاتی ہے۔

جنگ آزادی 1857ء کے بعد انگریز ہندوستان کے حاکم بنے، تو جلد ہی برہمن بت پرست مطالبہ کرنے لگے کہ حکومت میں اردو نہیں ہندی نافذ کی جائے۔ یہ 1861ء کی بات ہے۔ سرسید احمد خان تب مجسٹریٹ تھے۔ انہی دنوں اردو ہندی تنازع کے سبب وہ سب سے پہلے یہ نظریہ سامنے لائے کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو مل کر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

اسی نظریے کو پھر مستقبل کے مسلم لیڈروں نے مختلف طریقوں سے بیان کیا۔ ان کا اتفاق اس امر پر تھا کہ مسلمانوں کو اپنی ایک علیحدہ و خودمختار ریاست یا ریاستیں بنالینی چاہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمان پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ کسی ایک جگہ مسلم ریاست بنالینا کٹھن مرحلہ تھا۔ تب بقیہ علاقوں سے مسلمانوں کو مجوزہ ریاست میں ہجرت کرنا پڑتی۔

جب مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو یہ سوچ جنم لے چکی تھی کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، وہاں مسلم ریاست وجود میں آجائے۔ تاہم یہ نظریہ ابھی ارتقا پذیر تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قرارداد پاکستان میں ریاست کے بجائے ریاستیں لکھا گیا۔ ممکن ہے کہ ایسا غلط فہمی کے باعث ہوا ہو۔ کیونکہ اجلاس کی ساری کارروائی پڑھی جائے، تو احساس ہوتا ہے کہ قائداعظم سمیت سبھی لیگی رہنما اپنی تقریروں میں ’’ریاست‘‘ کا لفظ ہی استعمال کرتے رہے۔ لہٰذا تاریخ پاکستان کے محققین کا خیال ہے کہ ریاستوں سے مراد وہ مسلم اکثریتی صوبے ہیں جو ایک مسلم ریاست کا آئینی و قانونی حصہ بن جاتے۔

درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ قرارداد پاکستان میں ’’ریاستوں‘‘ کا ذکر بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اسے لے کر شور مچادیا جائے۔ قیام پاکستان کی سوچ ابھی ارتقا پذیر تھی اور ایسے میں نادانستہ طور پر غلطیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ لیکن ان غلطیوں کا سراغ لگا کر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر حملے کرنے کا عمل متعصب مورخین کی بدنیتی اور منفی ذہنیت کا پول کھول دیتا ہے۔

پاکستان میں کیڑے نکالنے کی جستجو میں زندگیاں کھپا دینے والے ان فتنہ انگیز اور نام نہاد محققوں کا ایک اور بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ جرنیل ہیں جنہوں نے 23 مارچ کو فوجی پریڈ کے طور پر منایا جانا شروع کیا ۔ اس دعویٰ کو بھی تاریخی حالات اور واقعات کے آئینے سے دیکھتے ہیں۔

عسکری پریڈ کا قضیہ

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ہندوستان میں برطانوی حکمران گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت حکومتی نظم و نسق چلا رہے تھے۔ پاکستان نے اسی نظام حکومت میں کچھ تبدیلیاں لاکر اسے اپنایا۔ پاکستان میں نافذ کردہ یہ حکومتی نظام ’’انڈیپینڈینس ایکٹ 1947ء ‘‘کہلایا۔ بھارت میں بھی اسی قسم کا حکومتی نظام اپنایا گیا تھا۔بھارت کی آئین ساز اسمبلی نے ڈیڑھ سال میں نیا آئین بنایا اور اسے نافذ کر دیا۔ یوں بھارتی حکومت نے سابق آقاؤں کے حکومتی نظام سے چھٹکارا پالیا۔

پاکستان میں مگر سیاسی مذہبی اور نظریاتی اختلافات کے باعث آئین بنانے کا مرحلہ طویل تر اور کٹھن بن گیا۔ حتیٰ کہ گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی ہی تحلیل کردی۔ افسوس کہ تاریخ پاکستان کے اولیّن دس گیارہ برس سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور جوڑ توڑ سے پُر ہیں۔ انہی کی وجہ سے پاکستان میں معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر مضبوط پاکستانی معاشرہ جنم نہیں لے سکا۔

جون 1955ء میں پاکستان کی دوسری آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ اس کی کل نشستیں تھیں جن میں سے مسلم لیگ صرف 25 جیت سکی۔ پہلی آئین ساز اسمبلی میں اس کی 64 سیٹیں تھیں۔ تاہم گورنر جنرلسکندر مرزا اور وزیراعظم چوہدری محمد علی مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان کے سیاسی اتحاد، یونائیٹڈ فرنٹ میں شراکت داری کرانے میں کامیاب رہے۔ یوں حکومت بنانے اور آئین تشکیل دینے کا معاملہ آگے بڑھا۔ ارکان اسمبلی نے جنوری 1956ء تک آئین تیار کرلیا۔ محمد علی اور سکندر مرزا نے مشاورت کے بعد اسے 23 مارچ 1956ء کو نافذ کردیا۔ اس دن کو ’’یوم جمہوریہ‘‘ قرار دیا گیا۔

خاص بات یہ ہے کہ 23 مارچ 1956ء ہی کو تاریخ پاکستان میں پہلی بار افواج پاکستان کی مشترکہ پریڈ بھی منعقد ہوئی۔ یہ پریڈ کراچی کے پولو گراؤنڈ میں کی گئی جسے عوام و خواص نے بہت دلچسپی اور جوش و جذبے سے دیکھا۔ برطانیہ کی وزارت، کامن ویلتھ ریلیشنز کے انڈر سیکرٹری، ایلن نوبل اس پریڈ کے مہمان خصوصی تھے۔ اسی پریڈ میں سویت یونین کے طاقتور ڈپٹی نائب وزیراعظم، اناستاس میکویان بھی شریک تھے۔ اس پریڈ کی ایک تصویر آج بھی محفوظ ہے۔ اگلے دو برس بھی یوم جمہوریہ کے موقع پر افواج پاکستان کی مشترکہ فوجی پریڈ پولو گراؤنڈ، کراچی میں منعقد ہوئی۔ ان مواقع پر جنگی سازو سامان اور عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔

اس حقیقت سے عیاں ہے کہ پاکستان میں 23 مارچ 1956ء سے یوم جمہوریہ کے موقع پر مسلح افواج کی پریڈ کا آغاز ہوا۔ تب ہمارے دیس میں جمہوری حکومت تھی، فوجی نہیں۔ مزید براں بھارت میں بھی یوم جمہوریہ پر افواج کی مشترکہ پریڈ ہوتی تھی۔ نیز دنیا کے کئی ممالک میں رواج ہے کہ مخصوص قومی ایام میں افواج کی شاندار پریڈ سے اپنی دفاعی و جنگی صلاحیتوں اور قوتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تاکہ عوام الناس جان سکیں، ان کی زندگیاں محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ پاکستان میں مگر متعصب مورخین نے عسکری پریڈ کو متنازع بناڈالا تاکہ افواج وطن پر کیچڑ اچھال کر اپنے مذموم عزائم پورے کرسکیں۔

سیاسی رسّہ کشی

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس دوران قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اندر اور باہر اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی۔ حکمران بننے کی خاطر سیاست داں ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے۔ سرکاری افسر بھی اس عمل میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

وطن عزیز کو عدم استحکام اور ابتری سے بچانے کی خاطر معاملات میں پاک فوج کو بھی دخل اندازی کرنا پڑی جو تمام سرکاری اداروں میں سب سے زیادہ منظم اور قانون پسند ادارہ تھا۔سیاسی رسّہ کشی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ اپریل 1953ء سے دسمبر 1956ء تک صرف تین سال آٹھ ماہ میں اہل پاکستان کو پانچ وزرائے اعظم اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے اور نکلتے دیکھنے پڑے۔ اس عرصے میں سیاسی جماعتیں اور خاصی حد تک ایوان صدر بھی پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنے گروہی مفادات پورے کرنے پر کمر بستہ رہے۔

برطانیہ کے مشہور رسالے، دی اکنامسٹ میں برطانوی صحافی، کیویئر کرام ویل نے 11 اکتوبر 1958ء کو اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’’پاکستان میں مارشل لا لگنے سے چند ماہ قبل سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ کہ انہیں ایک طرف تو مضحکہ خیز اور دوسری سمت ڈراؤنے کہا جاسکتا ہے۔‘‘ تب سیاست دانوں اور صدر سکندر مرزا کی زیر قیادت بیوروکریسی کے مابین اقتدار کی جنگ عروج پر پہنچ گئی تھی۔ آخر کار 7 اکتوبر 1958ء کو صدر سکندر مرزا نے مارشل لا لگاکر آئین کالعدم قرار دے ڈالا۔ 27 اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا حکومت کا بوریا بستر گول کیا اور انہیں گھر بھجوا دیا۔

متعصب مورخین نے جنرل ایوب خان پر کئی قسم کے الزامات لگائے ہیں۔ مثلاً انہیں بزدل فوجی، جوڑ توڑ کے ماہر اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا جرنیل کہا گیا۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا جوش و جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی لیے سیاسی بوالعجبیوں سے تنگ آکر انہوں نے حکومت سنبھال لی۔ تاریخ پاکستان میں ان کا گیارہ سالہ دور معاشی لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

بہرحال جب 1959ء میں 23 مارچ کا تاریخی دن قریب آیا تو وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اسے ’’یوم پاکستان‘‘ کے طور پر منایا جائے۔ متعصب مورخین کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا کیونکہ فوجی حکومت 23 مارچ کو بطور یوم جمہوریہ منانے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔ لیکن یہ اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ یوم پاکستان منانے کا فیصلہ کرنے والی حکومت میں جمہوریت کے چمپئن سمجھے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو، منظور قادر اور محمد شعیب جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ ویسے بھی یوم پاکستان زیادہ معنی خیز، وسعت پذیر اور قومی نوعیت کا دن قرار پایاجو امن، محبت اور خیر کے مثبت جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔

وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو

بھارت میں 26 جنوری 1950ء کو آئین نافذ ہوا تھا۔ تب سے بھارتی حکومت اس دن کو بطور ’’یوم جمہوریہ‘‘ منارہی ہے۔ بھارتی حکمران بڑے فخر سے اپنی مملکت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہیں۔

دیکھ لیجیے کہ اس عظیم ترین جمہوری مملکت میں اقلیتوں خصوصاً بائیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ کیسا انسانیت سوز اور ظالمانہ سلوک ہورہا ہے۔یہ جمہوریت نہیں دیوہیکل جیل خانہ ہے جہاں کروڑوں مسلمان قید کیے جا چکے۔اس انسان دشمن بھارتی جمہوریت سے کیا وہ آمریت یا بادشاہت اچھی نہیں جس میں ہر شخص کو شہری حقوق حاصل ہوں اور وہ آزادی سے سر اٹھا کر زندگی گزار سکے؟ طرز حکمرانی اہم نہیں،بنیادی بات یہ ہے کہ ایک حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کتنی سرگرم ہے اور کیا مملکت میں سبھی شہریوں کو اچھی خوراک،تعلیم ،صحت اور شہری سہولیات میسّر ہیں؟

دلچسپ بات یہ کہ 26 جنوری 1950ء سے ہر یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارتی افواج بھی تزک واحتشام سے عسکری پریڈ کرتی ہیں۔ اس دوران بھارتی حکمران بڑے غرور سے اپنی عسکری طاقت کی نمائش کرتے ہیں لیکن پاکستان کے متعصب مورخین کو بھارت کی فوجی پریڈ دکھائی نہیں دیتی۔ ظاہر ہے، اگر وہ اس کا تذکرہ کردیں، تو افواج پاکستان کے خلاف ان کی دشنام طرازی کے بلند آہنگ دعویٰ اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔

قارئین کرام، درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ بعض مورخین نے جو اپنے آپ کو عقل ِکُل، روشن خیال اور مہا دانشور سمجھتے ہیں، قرارداد پاکستان کو متنازع بنانے کی منظم کوششیں کیں تاکہ خصوصاً نئی پاکستانی نسل کو تحریک آزادی سے برگشتہ کیا جاسکے۔

تاہم وہ اپنی منفی و گھٹیا سعی میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اہل پاکستان، خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی صفوں میں چھپے غداروں کو پہچانیں اور ان کی تفرقہ، نفرت اور کدورتیں پھیلانے کی سرگرمیوں کو ناکام بنادیں۔اس وقت قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے تاکہ مقامی وعالمی سطح پر درپیش چیلنجوں کا پوری قوم مل کر مقابلہ کر سکے۔ ہماری نئی نسل کو شاعر مسرور انور کا یہ آفاقی پیغام یاد رکھنا چاہیے:

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے

یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے

اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے

اس زمیں کا ہر ذرہ ِآفتاب تم سے ہے

یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں

کہکشاں کے یہ اجالے، رہ گزر تمہارے ہیں

اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا

ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا

نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو

وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو

یہ زمیں مقدس ہے ،ماں کے پیار کی صورت

اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت

دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو

یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔