عصاء اور یدبیضاء

عبد القادر شیخ  اتوار 22 مارچ 2020
حضرت موسیٰ  ؑ کو عطاکردہ معجزات ۔  فوٹو : فائل

حضرت موسیٰ  ؑ کو عطاکردہ معجزات ۔ فوٹو : فائل

عصاء لاٹھی یدبیضاء سفید ہاتھ اور معجزے کے معنی خرق عادت جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کے ہاتھ سے ظاہر کرے دوسرے معنوں میں وہ معاملہ جو عام عادات اور اسباب ظاہری کے خلاف ہو ایسا معاملہ چوںکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو ۔ حضرات انبیاء کرام سے جو یہ مافوق العادت کیفیات اور اعمال صادر ہوتے ہیں ان کے لیے عام طور پر معجزہ کا لفظ بولا جاتا ہے۔

یہ لفظ قرآن حکیم میں آیا ہے اور نہ ہی احادیث مبارکہ میں یہ لفظ برہان آیا ہے جس کے معنی دلیل ہیں، جو اپنے مفہوم کو نہایت خوبی سے ظاہر کرتا ہے۔ قدیم محدثین نے ان قرآنی الفاظ کی جگہ دلائل و علامات کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو ان کے ہم معنی ہیں مگر اب لفظ معجزہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اسے ترک بھی نہیں کیا جا سکتا۔

سیرت النبی ؐ میں لکھا ہے کہ معجزہ اس خارق عادت چیز کو کہتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیغمبر کی تصدیق کے لیے صادر ہو۔ (جلد دوم صفحہ35)

قرآن حکیم کی جن سورتوں میں معجزات کا ذکر ہے وہاں لفظ آیات کثرت سے آیا ہے دیکھیے سورہ بقرۃ آیات 248-273، آل عمران 49، اعراف 132، ہود 64، بنی اسرائیل 101، طٰحٰہ 47، الشعراء 15، نمل 14، زحزف 47، النازعات20 میں آیات الکبرٰی کہا ہے اعراف میں آیات مفصلات کہا ہے 133، اور کہیں صرف آیاتنا کہا ہے ۔ (بنی اسرائیل آیت1)

حضرت موسٰی ؑ اللہ کے بھیجے ہوئے اولوالعزم پیغمبر اور جلیل القدر رسول ہیں۔ ان کو سابقہ انبیاء کرام کے سچے دین کی تلقین وتبلیغ اور نبی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی خاطر چنا گیا اور ساتھ ہی ساتھ فرعون کی راہ نمائی کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔ وادیٔ مقدس (طوٰی) میں خدائے بزرگ و برتر سے ہم کلامی کے بعد آپؑ کو رسول چنا گیا پھر دو معجزے عطا کیے گئے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ترجمہ’’موسٰی تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے جواب دیا کہ یہ میری لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑلیتا ہوں اس سے مجھے اور بھی فوائد ہیں۔ فرمایا۔ اے موسٰی! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے۔‘‘ (سورہ طٰحٰہ آیات 17-18) ’’پھر جب اسے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح پھن پھنا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کرواپس ہوگئے اور مڑکر رخ بھی نہ کیا۔ ہم نے کہا اے موسٰی آگے آ‘ ڈرمت یقیناً توہر طرح امن والاہے اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان (بغل ) میں ڈال دے، وہ بغیر کسی قسم کے روگ کے چمکتا ہوا سفید نکلے گا اور خوف سے (بچنے کے لیے) اپنے بازو اپنی طرف ملالے۔ پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں۔‘‘ (سورہ القصص آیات31-32)

ان آیات کریمہ میں دو معجزات کا ذکر ہوا ہے۔ لاٹھی کے سانپ یا اژدہا بننے کی صورت میں جو خوف حضرت موسٰی ؑ کو ہوا اس کا حل بتیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کر یعنی اپنا پنجہ بغل میں دبا لیا کر جس سے خوف جاتا رہے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف جاتا رہے گا۔

امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ حضرت موسٰی ؑ کی اقتدا میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم ازکم ہلکا ضرور ہوجائے گا ان شاء اللہ۔ حضرت موسٰی ؑ نے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل میں فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کیے کیوںکہ فرعون اور اس کے حواری اللہ کی اطاعت سے نکل کر اللہ اور اس کے دین کے مخالف ہوگئے تھے، بلکہ فرعون تو بذات خود خدائی کا دعوے دار بن بیٹھا تھا۔

حضرت موسٰی ؑ اللہ کے حکم سے فرعون کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے دربار میں پہنچے تو فرمایا کہ میں اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہوں تو اس نے اپنے باپ دادا کی ربوبیت کا اظہار کیا تاکہ موسٰی ؑ پر اس کا رعب پڑے پھر کہنے لگا کہ میرے علاوہ بھی کیا کوئی رب ہے؟ اگر ہے تو بیان کر۔ بارگاہ الٰہی سے آپؑ کو حکم تھا کہ فرعون کے آگے اپنا مدّعا بیان کرتے وقت شیریں کلامی اور نرم گفتاری اختیار کرنا، چناںچہ آپؑ نے بڑے دل نشیں انداز میں اپنی بات کو رکھا ترجمہ’’میرے رب نے علم و حکمت عطا فرمایا اور مجھے اپنے پیغمبروں میں سے کردیا۔‘‘ (الشعراء آیت21) رب کے ذکر سے فرعون چونکا اور پوچھنے لگا۔ ترجمہ’’فرعون نے کہا رب العالمین کیا (چیز) ہے۔

موسٰی (علیہ السلام ) نے فرمایا وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے اگر تم یقین رکھنے والے ہو فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کہ کیا تم سن نہیں رہے۔ موسٰی علیہ السلام ) نے فرمایا وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا رب ہے۔ فرعون نے کہا تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے۔

بولے وہی مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو، (فرعون بولا) اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بتایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دوں گا فرمایا اگر چہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں؟ تو فرعون نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو پیش کر۔ آپ نے اپنی لاٹھی ڈال دی جو اچانک کھلم کھلا اژدہا بن گئی اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اسی وقت ہر دیکھنے والے کو سفید اور چمکیلا نظر آیا۔

اپنے اردگرد کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے۔ یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین ہی سے نکا ل دے۔ بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو۔‘‘(سورہ الشعرا آیات 23تا35)فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر حضرت موسٰی کی تصدیق کرتا اور ایمان لے آتا بلکہ اس نے ان کی تکذیب و عناد کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے تمام درباریوں کی رائے کے مطابق ایک دن مقرر کیا جسے قرآن حکیم نے یوم الزینت کہا ہے۔

عبدالوہاب نجار لکھتے ہیں کہ یہ مصریوں کی عید کا دن کہلاتا ہے۔ اس دن ملک مصر کے تمام جادوگروں کو اکٹھا کیا جن کی تعداد مختلف روایات کے مطابق12ہزار سے 70ہزار تک لکھی ہوئی ہے۔

انہوں نے حضرت موسٰی ؑ سے پوچھا کہ پہلے تم ڈالتے ہو یا ہم کریں آپؑ نے فرمایا پہلے تم ہی کرو۔ چناںچہ انہوں نے اپنی اپنی رسیاں پھینکیں جو چشم زدن میں چھوٹے بڑے سانپوں کی شکل اختیار کر گئیں۔ پھر قوم قبط نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر بھی دیکھا جو ناقابل یقین تھا۔ حضرت موسٰی ؑ کے عصاء سے جو معجزہ رونما ہوا کہ وہ جادو گروں کے تمام سانپوں کو آناً فاناً نگل گیا۔ جادوگر حقیقت کو بھانپ چکے تھے کہ یہ جادو نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ چناںچہ انہوں نے فوراً ایمان لانے کا اعلان کردیا جس پر فرعون سخت مشتعل ہوگیا اور انہیں سزائے سخت دینے کا اعلان کیا اور وہ حضرت موسٰی ؑ کے بھی قتل کا ارادہ کرچکا تھا۔

اس کا خیال تھا کہ اگر اس نے حضرت موسٰی ؑ کو قتل کردیا تو پھر اسے کسی کا خطرہ نہ ہوگا کہ جو اسے خدا کہلانے سے روکے فرعون اور اس کے دربار ی ابھی اس قسم کے منصوبے بنا ہی رہے تھے کہ شوروغل کی آواز آئی لوگ دہائی دیتے ہوئے فرعون کے پاس آئے اور کہنے لگے اے خداوند! ہم بہت پیاسے ہیں ہم جہاں بھی پانی تلاش کرتے ہیں خون بہتا ہوا ملتا ہے۔ جھیلوں، تالابوں، کنوؤں غرض ہمارے گھروں کے گڑھوں تک میں خون بھرا ہوا ہے۔

ہمیں پانی فراہم کریں کہ ہم بہت پیاسے ہیں۔ فرعون نے ہامان سے مشورہ کیا جس نے یہ تجویز پیش کی کہ مختلف مقامات پر نئے کنویں کھود دیے جائیں مگر نتیجہ لاحاصل۔ ہر کنویں میں سے خون ہی نکلا۔ فرعون نے لوگوں کو اس وقت تسلی دے کر بھیج دیا اور فوراً ہی حضرت موسٰی ؑ کو بلایا ان کے سامنے صورت حال رکھی اور یہ بھی وعدہ کیا کہ اپنے خدا سے کہہ کر یہ عذاب ختم کروادو ہم بھی اس خدا پر ایمان لے آئیں گے اور نبی اسرائیل کو بھی تیرے ساتھ جانے کی اجازت دے دوں گا۔ حضرت موسٰی ؑ کی دعا سے اللہ نے یہ عذاب ٹال دیا اب موسٰی ؑ نے اسے اپنا وعدہ یاد دلایا مگر وہ صاف انکار کر گیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو بہت سی برہان اور نشانات (معجزات ) سے نوازا تھا جس کی تفصیل قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر آئی ہے، جو اس طرح ہے (1) سورہ البقرۃ (2)الاعراف (3) اسراء( 4) طٰحٰہ (5) النمل (6) الشعراء(7) القصص (8) المومن (9)الزخرف (10) القمر(11) النازعات۔ ان سورتوں کی آیات میں آپؑ کو دیے گئے معجزات کا ذکر مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے۔ سورہ اسراء میں ارشاد باری ہے۔ ترجمہ ’’اوربلاشبہہ ہم نے موسٰی کو نو نشانات واضح عطا کئے پس تو بنی اسرائیل سے دریافت کر‘‘۔ (آیت 101) یہاں صرف نشانات کی تعداد بتائی گئی ہے، معجزات کی نوعیت نہیں بتائی۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ترجمہ’’پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون کہ یہ سب آیات مفصلات ہیں ‘‘ یعنی معجزے ہیں۔ (الاعراف آیت133)

مفسرین کرام سورہ اسراء کی آیت 101کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ نو معجزات تھے (1) لاٹھی (2) یدبیضا (3) نقص ثمرات (4) طوفان (5) جراد (ٹڈی دل)(6) قمل (کھٹمل، جوئیں اور گھن) (7) ضفادع (مینڈک) (8) خون(9) قحط سالی۔ امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی معجزات جیسے لاٹھی کو پتھر پر مارنا جس سے بارہ چشمے جاری ہونا بادلوں کا سایہ اور من وسلوٰی ہیں لیکن یہاں آیات تسعہ سے مراد وہی نو معجزات ہیں جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا حضرت ابن عباس ؓ نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانا) کو بھی نو معجزات میں شمار کیا ہے اور نقص ثمرات اور قحط سالی کوایک ہی معجزہ مانا ہے۔ ترمذی کی ایک حدیث میں آیات تسعہ کی تفصیل مختلف بیان ہوئی ہے جس کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ اس کی اسناد ضعیف ہیں ۔

فرعون اپنی سرکشی، ظلم، حق کے ساتھ استہزا اور نافرمانی کے باعث خدائے تعالیٰ کی جانب سے مختلف ہلاکتیں اور عذاب آتے رہے اور ان کے خاتمے کی خاطر وہ حضرت موسٰی سے رجوع کرتا اور جب بلاٹل جاتی تو وہ پھر اپنے وعدے سے انحراف کر بیٹھتا تھا۔ اب پھر فرعون اور اس کی قوم کو ایک نئے عذاب نے آگھیرا تمام دریاؤں جھیلوں اور جوہڑوں سے تمام مینڈک نکل کر فرعون کے محل اور آبادی میں پھیل گئے جس کی وجہ سے تمام آبادی فرعون کے محل میں داخل ہوکر ملتجی ہوئی کہ اے خداوند! ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا۔ فرعون نے پھر موسٰی ؑ کو دربار میں طلب کیا اور مینڈکوں سے نجات کی درخواست کی تو آپؑ نے فرمایا تو اس سے قبل بھی وعدہ خلافی کرچکا ہے لیکن میں پھر بھی دعا کروں گا اللہ اس سے نجات دے گا۔ فرعون نے پھر ایمان لانے کا وعدہ کیا اور موسٰی دست بہ دعا ہوئے اور مینڈک کے عذاب سے نجات مل گئی فرعون پھر اپنے وعدے سے پھر گیا اور سر کش ہی رہا۔

ایک روز صبح ہی سے گرج چمک ہونے لگی دیکھتے ہی دیکھتے اولے برسنے لگے جس کی وجہ سے تمام مویشی ہلاک اور فصلیں تباہ ہوگئیں۔ قوم دہائی دیتی ہوئی پھر فرعون کے پاس پہنچی فرعون نے پھر حضرت موسٰی ؑ کو بلا کر ان ہی پرانے وعدوں پر قائم رہنے کے لیے کہا اور اپنے خدا سے یہ طوفان ٹالنے کی دعا کی درخواست کی۔

موسٰی ؑ نے فرمایا تم پہلے بھی وعدہ خلافیاں کر چکے ہو تمہاری بات کا اعتبار نہیں ہے، تاہم میں پھر بھی اپنے خدا سے دعا کروں گا کہ وہ قوم کو اس طوفان سے نجات دے آپؑ کی دعا قبول ہوئی موسٰی ؑ نے فرعون کو وعدہ یاد دلایا مگر وہ بھول چکا تھا۔

اس قوم کی سرکشی پر اللہ نے ایک مرتبہ پھر عذاب نازل کیا مشرق کی جانب سے ہوا کے جھونکے چلے اور ٹڈیوں کے جھنڈ چلے آئے جنہوں نے پوری فصلوں کو تباہ کردیا اور ان کے غلے اور پھل تمام چٹ کر گئے۔ اسی طرح قمل کا عذاب بھی آیا قمل سے مراد جوں ہے جو انسان کے جسم اور بال اور کپڑوں میں پڑگئیں بستر میں کھٹمل ہوگئے۔ اناج اور غلوں میں سرسریاں پڑگئیں عام طور پر انہیں گھن کہا جاتا ہے یہ جب غلے میں پڑ جائے تو اس کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔

چوپایوں میں یہ جونک بن کر آتی ہیں بہرحال یہ قمل ہر شے میں آجانے سے ایک مرتبہ پھر قوم پریشان ہوگئی اور فرعون سے درخواست کی کہ اس عذاب سے چھٹکارا دلایا جائے یہ عذاب بھی حضرت موسٰی ؑ کی دعا سے فرو ہوا۔

عذاب کی یہ پانچ قسمیں تھیں جو سورۂ اعراف میں بیان ہوئی ہیں ایک کے بعد دوسرا عذاب اس سے تنگ آکر وہ حضرت موسٰی کے پاس آتے آپؑ کی دعا سے وہ عذاب ٹل جاتا تھا مگر فرعون اور اس کی قبطی قوم ایمان لانے کے بجائے کفرو شرک پر مضبوطی سے جم جاتے۔ یوں تھوڑے تھوڑے سے وقفے کے بعد ان پر عذاب نازل ہوتے رہے لیکن ان کے دلوں میں جو رعونت اور دما غوں میں جو تکبر تھا وہ حق کی راہ میں ان کے لیے زنجیرپا بنا رہا اور اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود وہ ایمان کی دولت سے محروم رہے۔

جب مصر میں حضرت موسٰی ؑ کا قیام لمبا ہوگیا اس وقت فرعون کا دارالحکومت عین شمس تھا۔ یہ شہر آج بھی قاہرہ کے نزدیک واقع ہے۔ موسٰی ؑ نے فرعون اور اس کی قوم پر ہر طرح کی حجت قائم کردی، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب میں مبتلا کرکے سامان عبرت بنادیا جائے۔ چناںچہ حضرت موسٰی ؑ کو حکم ہوا کہ راتوں رات نبی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں اور یہ بھی فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا گھبرانا نہیں۔ قرآن حکیم میں یہ ذکر یوں آیا ہے۔

ترجمہ ’’پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے جب دونوں نے ایک دوسرے کودیکھ لیا تو موسٰی ؑ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو یقیناً پکڑے گئے موسٰی ؑ نے کہا ہرگز نہیں یقین مانو میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔

ہم نے موسٰی ؑ پر وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مار پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا اور ہم نے دوسروں کو اسی جگہ لاکھڑا کیا اور موسٰی کو اور ان کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا۔‘‘(سور ہ الشعراء آیات 61تا 66) یہ معجزہ حضرت موسٰی ؑ نے اپنی عصاء کے ذریعے فرعون کو دکھا یا کہ وہ سب تو پار ہوگئے اور جب فرعون اپنی قوم قبط کو لے کر عین دریا کے وسط میں آیا تو پانی واپس اپنی جگہ پر آیا اس طرح فرعون مع اپنی قوم کے غرق ہوگیا اور تاقیامت نشان عبرت بن گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔