جب ذہن بوڑھا ہونے لگے

تحریم قاضی  اتوار 22 مارچ 2020
علامات جو عمر رسیدگی کے عمل سے پہلے ظاہر ہونا پریشان کن ہیں

علامات جو عمر رسیدگی کے عمل سے پہلے ظاہر ہونا پریشان کن ہیں

مشہور چینی کہاوت ہے کہ ’’اگر آپ کا ذہن مضبوط ہے تو تمام مشکل چیزیں آسان ہوجائیں گی، لیکن اگر ذہن کمزور ہے تو تمام آسان چیزیں مشکل ہوجائیں گی‘‘ روزمرہ کی زندگی میں اس کہاوت کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

جو لوگ ذہنی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ ناصرف اپنے نجی بلکہ کاروباری و دیگر امور کو بڑی مہارت سے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں توازن نہیں رکھ پاتے وہ دراصل ان کی کم درجہ ذہنی استطاعت کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ مضبوط اعصاب کے مالک بڑی سے بڑی مشکلات کو ہمت و استقامت سے جھیل جاتے ہیں جبکہ کمزور اعصاب بعض اوقات ایک صدمے کو بھی برداشت نہیں کرپاتے۔

یہ بھی بہرحال ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جسمانی طور پر انسان ویسا تندرست و توانا نہیں رہتا۔ بالکل ویسے ہی انسانی ذہن پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذہنی کمزوری بڑھتی عمر کی ایک نشانی تصور کی جاتی ہے لیکن اگر یہ وقت سے پہلے کسی کو اپنا شکار بنارہی ہو تو ضروری ہے کہ چوکنا ہوا جائے۔ وقت سے پہلے اور کم عمری میں ذہنی استعداد کے کم ہونے کو ایک بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کی علامات مندرجہ ذیل ہیں۔

٭عمر رسیدگی
ہمارے ذہن اور جسم میں وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں میں بہ نسبت ایسی شعوری خلل سے پیدا ہونے والی بیماریوں مثلاً الزائمر اور ڈیمنشیاء کے، اس حوالے سے ایک امریکی ماہر نفسیات میچل آر و سرمین کا کہنا ہے کہ ’’ایک صحت مند دماغ کے لیے یہ معمولی بات ہے کہ جب عمر رسیدگی کا عمل شروع ہو تو وہ کام سست رفتاری سے کرے کیونکہ عمر بڑھنے سے دماغ اور جسم کے درمیان مطابقت پیدا کرنے والے نیورون سست رفتار ہوجاتے ہیں جس سے جسم اور ذہن کے درمیان معلومات کا تبادلہ سست روی کا شکار ہوجاتا ہے۔

لیکن اس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام افراد کا ذہنی و جسمانی نظام ایک سا نہیں ہوتا۔‘‘ اس حوالے سے ڈاکٹر میچل کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کئی افراد سے مل چکے ہیں جو سو برس کے ہونے کے باوجود ذہنی اور جسمانی طور پر ہوشمند اور چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ دوسری چیز جو اس ضمن میں اہم ہے وہ یہ کہ جب انسان کے شعوری مسائل اس کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرنے لگیں جن کی علامات کو عمر رسیدگی سے پہلے محسوس کرلیا جائے تو اس وقت کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ناگزیر ہے۔

٭ فوری بھول جانے کا عارضہ
ذہنی عارضوں اور شعوری بیماریوں کی ابت کی جائے تو الزائمر (بھول جانے کی بیماری) ایک بڑا مرض ہے اور اس کی علامات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ماہرین کا اس حواے سے کہنا ہے کہ الزائمر شعور کے جس حصہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ ہے فوری یادداشت۔ سو ایسی صورت میں جب انسان کو چھوٹی چھوٹی باتیں بھولنے لگیں اور قلیل مدتی یادداشت متاثر ہو تو سمجھ جانا چاہیے کہ الزائمر آہستہ آہستہ حملہ آور ہورہا ہے۔

اب ان باتوں میں روزمرہ کی وہ تمام چھوٹی چھوٹی اہم باتیں ہیں جنہیں آپ بھول رہے ہیں۔ بار بار سوال دہرانا اور پہلے کی گفتگو کو بھول جانا اس کی واضح علامات ہیں۔ یہ ذہن کے کسی خاص حصے میں خرابی کے باعث پیدا ہوتا ہے اور پھر بہت سے ذہنی عارضوں کا سبب بنتا ہے۔

٭ بھول جانے کا عارضہ
کہا جاتا ہے نسیان(بھول جانے کا عارضہ) بھی ایک نعمت ہے، مگر دھیان رکھیے اگر لمبے عرصے تک باتیں اور واقعات یاد نہیں رہتے تو ممکن ہے کہ کوئی ڈیمنشیاء کی بیماری کا شکار ہوچکا ہو۔

گوکہ الزائمر کے مریضوں کے لیے لمبے عرصہ تک باتوں کو یاد نہ رکھ پانا ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن ڈیمنشیاء کی مختلف اقسام سے بھول جانے کے مسائل طوالت اختیار کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ذہن کے اس حصے پر جو یادداشت کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کا کام کرتا ہے کوئی ایسی چوٹ پہنچی ہو یا اس کی ساخت میں کوئی بگاڑ پیدا ہوا ہو جس کے باعث وہ اپنے کام کرنے کی استطاعت کھوچکا ہو۔ یہ صورت حال خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

٭ نام اور الفاظ بھول جانا
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی نام کو یا لفظ کو یاد کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور ذہن میں یہ تصور بھی چل رہا ہوتا ہے کہ آپ اسے جانتے ہیں یا فلاں موقع پر تو لیا تھا مگر افسوسناک صورتحال ہوہ ہوتی ہے جب آپ اسے یاد نہیں کرپاتے اور بعض اوقات اس سے شرمندگی بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ مگر زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت اس لمحے ہوتی ہے جب معمول کی چیزیں مثلاً اُون، ٹوسٹر، فریج، گاڑی کا سٹرینگ اور وہ چیزیں جن سے روٹین میں پالا پڑتا ہو، ان کے نام بھولنے لگیں۔

الفاظ کو بولنے میں دشواری ایک شعوری مسئلہ ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ذہن کا جو حصہ ہماری لسانیات یا ہماری زبان کو کنٹرول کررہا ہوتا ہے جیسے سیکالوجی کی زبان میں ’’لیفٹ ٹیمورل‘ یا ’پیریٹئل لوب‘‘ کہتے ہیں وہ فعال نہ ہو جوکہ الزائمر کی ایک واضح نشانی ہونے کے ساتھ دماغ فالج یا صدمے کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔

٭ ڈرائیونگ میں مسائل
عموماً ڈیمنشیا کے مریضوں کو اس بیماری کی وجہ سے درپیش مشکلات و مسائل کا اندازہ نہیں ہوپاتا لیکن ان کے دوستوں خاندان اور عام لوگوں کو ان مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے جو ان مریضوں کی وجہ سے اٹھانا پڑتی ہیں۔

یہ درست ہے کہ بہت سے جسمانی عموامل جیسے کہ عمر کا بڑھتا اور جسمانی کمزوری نظر اور سماعت کو متاثر کرتے ہیں جس سے ڈرائیونگ کے دوران بھی مشکل پیش آتی ہے مگر ڈیمنشیاء اور الزائمر کے مریضوں کو راستے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے راستہ بھول جانا، اپنے پیاروں کے رابطہ نمبر بھول جانااور اپنے گھرکا ایڈیس بھول جاناشامل ہیں۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ ہوسکتی ہے کہ ایسے مریض ہر وقت ایک دستی ڈائری اپنے ہمراہ رکھیں جس میں خود ان کا نام پتہ اور اپنے عزیزوں کے رابطے لکھے ہوں تاکہ ایسی صورتحال میں وہ کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچ سکیں۔

٭ مزاج اور رویے میں تبدیلی
انسان کا مزاج اور اس کا رویہ اس کی ذہنی حالت کی عکاسی کرتے ہیں۔ خود کو بوجھل اور بے حس محسوس کرنا بھی اس وقت قابل فکر ہوجاتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر ہولزمین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’جب رویہ بہت ناامیدی اور ڈپریشن کا مظہر ہو تو یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انسان میں شعوری طور پر کوئی خلل پیدا ہوا ہے جوکہ الزائمر کے مرض کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ منفی سوچوں سے بھی دماغی صلاحتیں متاثر ہوتی ہیں۔

٭ پریشان کن صورتحال
بعض اوقات چیزیں معمول میں ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑرہا ہوتا مگر اچانک اس روٹین میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے جوکے ہٹ کر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب جسمانی توازن میں خلل واقعہ ہوتا ہے تو یہ ڈیمنشیاء کی نشانی ہوسکتی ہے۔

دماغی خلل کی نشانیاں جسمانی طور پر بھی وضع ہوتی ہیں جیسے کہ کھڑے ہونے میں دقت پیش آنا، اپنے پیروں پر جسم کا بوجھ نہ سنبھال سکتا اور چکرانا یا بار بار سہارا تلاش کرنا۔ ایسی حالت ذہن کی ابتر صورت حال کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ بعض اوقات پارکسنز کے مرض میں بھی ایسی علامات سامنے آتی ہیں۔ اکثر افراد کو ہیولے بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔جو کے دماغ میں ہونے والی پیچیدگیوں کی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔

٭سونگھنے کی صلاحیت

انسان کو دی گئی حسیات کا درست کام کرنا اس بات کی علامت ہے کہ انسان تندرست ہے۔ ایسی صورت حال جس میں کو حس اپنا کام نہ کر پا ہی ہو اس بات کی علامت ہے کہ جسم میں کہیں نہ کہیں مسئلہ ہے۔ سونگھنے کی حس کا متاثر ہونا الزائمر اور پارکنسنز کے مرض کی  علامت ہے۔

سن 2016 ء میں الزائمر کی علامات جانے کے سلسلے میں کی جانے والی ایک تحقیق  سے معلوم ہوا کے ایسے مریض عام خوشبوں جیسے کے چائے، کافی ،سگریٹ اور پھلوں کی مہک کو محسوس کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔

٭قوتِ سماعت
قوتِ سماعت کے متاثر ہونے کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کے انفکشن ہوجانا یا کان کے پردے کمروز ہونا مگر اس کی ایک اور وجہ الزائمر بھی ہے۔ ذہن کا تعلق ان سماعت کو متاثر کرنے والی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو ٹھیک سے سنائی نہیں دیتا یا باوجود کوشش کسی کی بات کو سن اور سمجھ نہیں سکتے اور ابھی آپ نے بڑھاپے کی حدود کو بھی نہیں چھوا تو اس کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔

٭معالج سے رجوع
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے ذہنی سطح پہ آنے والی تبدیلیاں جیسے کے شعوری مسائل اور   یاداشت کی کمزوری کو صرف بڑھتی عمر کی علامت ہی  نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ایسی حالت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔

اگریاداشت کے مسائل روزمرہ معاملات میں خلل پیدا کریں تو ایسی صورت میں فوری اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور مناسب طبی امداد حاصل کریں۔کم عمر میں اگر ایسی علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو یہ خطرناک ہو سکتی ہیں۔ جو کہ آگے چل کر مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں، سو احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج آپ کو کسی بڑی زہنی بیماری کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔