ضبط کے آداب سے انکار کس کو ہے مگر

شاہد سردار  اتوار 22 مارچ 2020

ہر سال مارچ کا مہینہ آتے ہی ہمارے گرد و پیش عورت کی ذات پر تبصرے، ٹی وی ٹاک شوز شروع ہوجاتے ہیں، مختلف این جی اوز کی طرف سے ریلیاں اور عورتوں کے حوالے سے بیانات گردش کرتے ہیں اور پورے مہینے ہی اس کا غلغلہ رہتا ہے۔

’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ گزشتہ سال عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے ہمارے ملک میں گونجا تھا اور امسال بھی اس کے چرچے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عورت کے جسم پر اس کی مرضی چل ہی نہیں سکتی کیونکہ اگر ایسا ہو سکتا تو کوئی بھی عورت کبھی اپنے آپ کو بوڑھی نہ ہونے دیتی۔ اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عورت کے حوالے سے ہمارے نظام، ہمارے سماج یا ہماری سوسائٹی کے دو چہرے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک طرف عورت کو جسم بیچنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو دوسری طرف غیرت کا نشانہ بھی اسے بننا پڑتا ہے۔ایسے ملک یا ایسے معاشرے میں جو خواتین سے تعصب میں دنیا میں سرفہرست ہو اور جہاں 90 فیصد عورتیں جنسی تشدد یا ہراسانی کا نشانہ بنتی ہوں وہاں عورتوں کے حقوق کے بارے میں گلے بٹھانا یا عورتوں کا اپنے جسم پر اپنے اختیار کا تقاضا کرنا بڑا عجیب سا لگتا ہے۔

ویسے بھی عورتیں حق خود اختیاری اور مساوی صنفی و انسانی حقوق مانگیں تو پدرشاہانہ بالادستی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ عریاں منظر نگاری کرنے والے بھی شرم و حیا اور اسلامی عفت و عصمت کے مبلغ نظر آنے لگے ہیں۔ کیا ستم ہے اب اسلامی تہذیب و سکھائیں گے، جو مغلظات، مجرے اور جنس پرستی جن کا شیوہ ہے، جو عورت کو فقط سفلی تشفی کا آلہ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک عورت ہمیشہ سے ایک شے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عورت دنیا کی وہ سستی ترین مزدور ہے جس کی ساری عمر اس غلط فہمی میں گزر جاتی ہے کہ وہ گھر کی مالکن ہے، بظاہر اس کے کئی گھر ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں کوئی بھی گھر مکمل طور پر اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ وہ کتنی ہی ذہین، بااختیار، بااثر یا فطین ہو، زندگی میں کتنی ہی کامیاب ترین کیوں نہ ہو مرد کی نگاہ میں ناقص العقل ہی رہتی ہے۔ عمر بھر اپنے مرد کو اعتماد و اعتبار دیتے دیتے فنا ہو جاتی ہے مگر ایک لمحہ اسے بے بھروسہ کرنے کو کافی ہوتا ہے۔

عورت کا اونچا لہجہ مرد کو کبھی برداشت نہیں ہوتا لیکن یہ عورت ہی ہوتی ہے جو اس کی بلند آواز کو ’’مردانگی‘‘ کا خوبصورت نام دے کر عمر بھر اسے جھیلتی ہے۔ عورت ہر روز ’’تجدید محبت‘‘ چاہتی ہے جب کہ مرد ایک بار اسے تسخیر کرلے تو پھر وہ اس کے لیے ’’دال چاول‘‘ کی طرح محض زندگی کی ایک ضرورت بن کے رہ جاتی ہے۔

ایک مذاکرے میں ایک خاتون نے عورتوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہمارے جسم پر کسی اور کی مرضی ہوگی تو وہ تو ریپ کہلائے گا۔‘‘ اب بندہ ایسی خرافات کا بھلا کیا جواب دے؟ ویسے ہم ذاتی طور پر عورتوں کو ہر قسم کی آزادی دینے کے قائل ہیں بشرطیکہ وہ اپنی شرم و حیا کو برقرار رکھیں اور اپنی عزت اور ان سے منسوب لوگوں کی غیرت کے ساتھ کھیل یا بے وفائی نہ کریں۔ کیونکہ قرآن کا فرمان ہے کہ جہاں عورت گمراہی کے راستے پر چلتی ہے وہ پورے معاشرے کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہے اور اس کی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتی ہیں کیونکہ سچی اور پاک باز عورت نسلیں سنوار دیتی ہے لیکن اس امر سے بھی نگاہ نہیں چرائی جاسکتی کہ عورت چاہے جس حیثیت میں بھی ہو اس کی تذلیل ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے بقول ابرار ندیم کے:

ضبط کے آداب سے انکار کس کو ہے مگر

حوصلہ اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ

جس طرح ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک کامیاب اور تعلیم یافتہ عورت کے پیچھے بھی ایک مرد ہی کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ مرد اس کا باپ، بھائی، شوہر یا پھر اس کا کوئی ہمدرد دوست بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عورت کی زندگی میں آزادی، تحفظ اور اعتماد اس کے اپنوں کے تعاون یا ایثار سے ہو پاتا ہے۔ اور عورت اپنی پوری زندگی میں دو مردوں کو کبھی نہیں بھول پاتی۔ ایک وہ جو اس سے محبت کرتا ہے، دوسرا وہ جو اس کی عزت کرتا ہے، مگر ہمیشہ پلڑا اسی کا بھاری رہتا ہے جو اس کی عزت کرتا ہے۔ محبت کرنے والے شاید وقت کی گرد میں دب جاتے ہوں مگر عزت دینے والا سدا دل کے سب سے اونچے مسند پر براجمان رہتا ہے۔

عورت محبت کی پیاسی ہو یا ٹھکرائی ہوئی ہو رہتی وہ محبت کی تلاش میں ہی ہے۔ ہم اور ہمارا معاشرہ عورت کے حقوق، اس کے مرتبے اور اس کے دکھ کو جانتے تو ہیں لیکن اس کو محسوس نہیں کرتے۔ بالخصوص طلاق یافتہ اور ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں ہمارا سماج انھیں کسی طور احترام، مان سمان دینے پر کبھی تیار نہیں ہوتا۔ شاید اس لیے بھی کہ عورت دھوکا کھانا بھی جانتی ہے اور دھوکا دینا بھی۔ عورت کو گورکھ دھندہ بھی کہا جاتا ہے جب چاہتی ہے ٹھکرا دیتی ہے اور جب چاہتی ہے اپنا لیتی ہے۔ جس طرح پینٹ کرنے سے عام طور پر در و دیوار کی عمر بڑھ جاتی ہے، شاید بیشتر خواتین اسی لیے لمبی عمر پاتی ہیں کہ ان کا ایک ہاتھ اپنے میک اپ بکس پر اور ایک پاؤں بیوٹی پارلر میں ہوتا ہے۔

عورت کے لیے ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ان کی خوبصورتی اہم ہوتی ہے یا ان کی صلاحیت؟

تو اس کا آسان جواب یہی ہے کہ خوبصورتی ہو یا صلاحیت تقدیر کی مہربانی کے بغیر دونوں کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اگر اچھے مواقع اور ماحول نصیب نہ ہوں تو حسین سے حسین اور باصلاحیت عورت بھی رل جاتی ہے البتہ خوشگوار حالات میں حسن کے جادو کو تسلیم نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ حسن نے تو بڑے بڑے شہنشاہوں کے دماغ اور تخت الٹ دیے اور ایک ہی جست میں کنیزوں سے ملکاؤں کے درجے حاصل کیے ہیں، مگر حسن کو صلاحیت کے مقابلے میں جلدی زوال آجاتا ہے اور ہنرمندی یعنی صلاحیت عورت کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے۔ گھر ہو یا دفتر وہ عورت مردوں کی نظروں میں معتبر، قابل عزت اور قدردان بناتی ہے۔ تاہم حسن اور صلاحیت یکجا ہو جائیں تو کیا ہی کہنے مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے، بسا اوقات خوبصورتی عورت کے لیے مصیبت بن جاتی ہے مگر صلاحیت عورت کو ہمیشہ معزز و مقدم بنا دیتی ہے۔

عام طور پر زمانہ عورت کو اسی پیمانے پر تولتا ہے جس پر اس کا شوہر اسے رکھتا ہے۔ اگر شوہر کی نگاہ میں عورت ہلکی ہو تو سارے زمانے کی نظروں میں وہ کاغذ کی طرح ہو جاتی ہے اور زمانے کی ہوائیں ادھر سے ادھر اڑتی لوگوں کے قدموں میں کچلتی ہوئی بالآخر کچرے کے ڈھیر میں کچرا بن جاتی ہے۔ لیکن آفاقی سچائی ہے کہ اسی کاغذ پر پردے اور نظریں رکھی جاتی ہیں۔ غزلیں، نظمیں، شاعری اور دنیا کے بڑے بڑے پروانے بھی اسی کاغذ پر لکھے جاتے ہیں حتیٰ کہ پھانسی کا فیصلہ اسی کاغذ پر لکھا گیا ہے۔ عورت کا وجود جسے چھو جائے وہ وزن دار ہو جاتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ یہ خاک کی پتلی جبھی سونا بنتی ہے جب مرد اسے چھوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔