اگرکوئی ٹیسٹ مثبت آجاتا تو؟

سلیم خالق  اتوار 22 مارچ 2020
 بورڈ حکام کو کوئی یہ بتا دے کہ ہم ان کے دشمن نہیں مگر درباریوں کی خوشامد سے فرصت ملے تب ہی کوئی اس جانب سوچ سکے گا۔ فوٹو: فائل

بورڈ حکام کو کوئی یہ بتا دے کہ ہم ان کے دشمن نہیں مگر درباریوں کی خوشامد سے فرصت ملے تب ہی کوئی اس جانب سوچ سکے گا۔ فوٹو: فائل

زندگی میں کبھی کبھی کچھ ایسا بھی ہو جاتا ہے جس کی آپ کو بالکل توقع نہیں کر رہے ہوتے، دنیا کے تقریباً تمام انسانوں کے ساتھ ان دنوں یہی ہو رہا ہے۔

ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک وائرس کی وجہ سے چار دیواری میں بند ہوکر رہنا ہوگا،زندگی کے تمام کام ٹھپ ہو جائیں گے، ان دنوں گھر سے کام کرتے ہوئے جب ویب سائٹس اور ٹی وی چینلز دیکھوں تو ہولناک خبریں ہی سامنے آتی ہیں،انسانی جانوں کے سامنے کھیلوں کی کوئی اہمیت نہیں، ہر روز کسی کے کسی ایونٹ کے التوا کا اعلان ہو رہا ہے، ایسے میں اگر پی ایس ایل بھی جاری نہ رہ سکی تو اس پر افسوس نہیں کرنا چاہیے۔

بس یہی دعا کریں کہ دنیا کو کورونا سے نجات ملے اور دوبارہ رونقیں بحال ہوں،بس اسی آس میں وقت گذر رہا ہے کہ شاید کوئی ویکسین سامنے آ جائے، ایسا ہی کچھ سوچتے ہوئے فون کی گھنٹی بجی تو دوسری جانب لاہور سے اسپورٹس رپورٹر میاں اصغر سلیمی تھے، انھوں نے بتایا کہ ’’ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کا پیغام آیا جس میں ایک لنک کے ذریعے سی ای او وسیم خان کی ویڈیو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے‘‘۔

مجھے اس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ مشکل کی اس گھڑی میں پی سی بی بھی قوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور یقیناً متاثرین کورونا کیلیے کسی امداد کا اعلان ہوگا، ساتھ وسیم خان  بورڈ کے تمام پلیٹ فارمز سے  وائرس کیخلاف بھرپور مہم چلانے کا  کہیں گے،میرے ذہن میں یہ بھی آیا کہ شاید بورڈ اپنی اکیڈمی یا دیگر مقامات قرنطینہ کیلیے وقف کرنے کا بھی کہے۔ مگر کچھ دیر بعد جب دوبارہ میاں اصغر کا فون آیا تو بڑی مایوسی ہوئی، انھوں نے بتایا کہ ’’سی ای او نے پی ایس ایل کے التوا سے ممکنہ مالی نقصان، نئی تاریخوں اور دیگر کرکٹنگ امور پر ہی زیادہ بات کی‘‘۔

اس وقت میں یہ سوچنے لگا کہ وسیم خان کو اس ٹیلی کانفرنس کی ضرورت کیا تھی، شاید اسی لیے لوگ نادان دوستوں سے دور رہنے کا کہتے ہیں مگرسی ای او ایسے ہی افراد میں گھرے ہیں جو غلط شاٹس کھیل کر انھیں مسلسل نقصان پہنچاتے ہیں، ان دنوں جو حالات ہیں ان میں  کرکٹ تو بہت دور چلی گئی، جان ہے تو جہان ہے، ابھی تو کچھ عرصے خاموش رہ کر  یہ دیکھنا چاہیے کہ کورونا سے جنگ میں حکومت کا کس حد تک ساتھ دیا جا سکتا ہے، مگر افسوس  بورڈ پیچھے رہ گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پی سی بی کی ٹویٹر بریگیئڈ اسی پر واہ واہ کرتی رہی کہ ٹیلی کانفرنس سے  نئی روایت ڈالی گئی،اب اس پر کیا کہیں نجم سیٹھی کے دور سے یہ روایت قائم ہوئی جو اب بھی برقرار ہے، واٹس ایپ پر ملنے والے پیغامات پر ٹویٹس کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوا۔ بورڈ کو کیا ہم سب پاکستانیوں کو شکر کرنا چاہیے کہ پی ایس ایل5کے بعد تمام کرکٹرز،سپورٹ اسٹاف، کمنٹیٹرزاور براڈ کاسٹرز کے کورونا ٹیسٹ کلیئر آئے، خدانخواستہ اگر ایک ٹیسٹ بھی مثبت آ جاتا تو ہماری ساکھ ختم ہو جاتی۔

پی سی بی کو کئی دن قبل لیگ ملتوی کرا دینی چاہیے تھی مگر صرف براڈ کاسٹر سے رقم ملنے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا، کھلاڑیوں سمیت سب لوگ بیحد سہمے ہوئے تھے اسی لیے دستبردار بھی ہو گئے، باقی رہنے والے پلیئرز کو مجبوراً نیشنل اسٹیڈیم میں ایک میچ کراؤڈ کے ساتھ اور باقی 2میچز خالی گراؤنڈ میں ہوئے توان میں حصہ لینا پڑا، افسوس اس بات کا ہے کہ بورڈ میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آ رہا جس میں قوت فیصلہ موجود ہو،اسی لیے کورونا کے باوجود پہلے پی ایس ایل جاری رکھنے کا اعلان ہوا، پھر خالی گراؤنڈ میں میچز کرانے کا کہا، بعد میں پلے آف ختم کر کے سیمی فائنلز اور فائنل کرانے کا اعلان ہوا اور آخر میں غیرمعینہ مدت تک لیگ ملتوی کر دی۔

حالانکہ کئی فرنچائزز نے خالی میدانوں پر ایونٹ جاری رکھنے کے فیصلے سے بھی اختلاف کرتے ہوئے ابتدا میں التوا کی تجویز دی تھی مگر اس وقت کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، جب پانی سر سے اونچا ہوا اور دیگر ایونٹس ملتوی ہوتے دیکھے تو تاخیر سے فیصلے ہوتے رہے، جیسا کہ پہلے بتایا کہ اگر کسی ایک کھلاڑی کے ٹیسٹ کا نتیجہ  بھی مثبت آ جاتا تو آئندہ آپ بھول جاتے کہ کوئی بڑا نام ہماری لیگ میں آتا، اب بقیہ میچز کیلیے مختلف آپشنز پر غور جاری ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انعقاد ہو سکے گا۔

بعض تجاویز تو بڑی مضحکہ خیز ہیں جیسے آئندہ سال لیگ سے 10دن پہلے مقابلے کرا لیں، یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ ڈرافٹ میں کھلاڑیوں کا ردوبدل بھی تو ہوگا، اگر کوئی تبدیل ہوا تو کیا وہ چند میچز ایک اور اگلا ایونٹ دوسری ٹیم کیلیے کھیلے گا؟ ساتھ 10دن کیلیے ٹرافی جیت کر کسی ٹیم کو کیا حاصل ہوگا؟ انگلینڈ جولائی، اگست میں پاکستان سے شیڈول سیریز ابھی سے ویسٹ انڈیز منتقل کرنے کا سوچ رہا ہے،آگے ایشیا کپ اور ورلڈکپ کا انعقاد بھی یقینی نہیں، آپ کو کہاں سے چار میچز کیلیے ونڈو ملے گی؟

اگر مل بھی گئی تو غیرملکی کھلاڑی کیا ان دنوں فارغ ہوں گے؟ شائقین کو خوامخواہ آس دلانے کے بجائے اچھا  یہی رہے گا کہ آپ عالمی وبا کی وجہ سے ایونٹ کو منسوخ کرتے ہوئے انعامی رقم متاثرین کورونا کے فنڈ میں دے دیں، یا اگرہر حال میں بقیہ میچز کرانا ہیں تو ونڈو ملنے پر اگلے سال ڈرافٹ سے قبل انعقاد کرلیں، اس سے پی ایس ایل6کی ہائپ بھی بن جائے گی، فراغت کے وقت پی سی بی حکام کو بھی پریس کانفرنسز کے بجائے زیرالتوا کام کرنے پرتوجہ دینا چاہیے، ابھی کسی سے ملاقات نہیں کرنی، کوئی تقریب بھی نہیں ہونی تو ڈومیسٹک کرکٹ میں نظر آنے والی خامیوں کو دور کرنے سمیت دیگر امور پر توجہ دیں۔

آپ اچھے کام کریں گے تو کسی سے کہہ کر وضاحتی/ تعریفی خبریں چلوانے یا واٹس ایپ پر پیغامات بھیج کر ٹویٹس کرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، مجھ سمیت سب لوگ دل سے تعریف کریں گے،کاش بورڈ حکام کو کوئی یہ بتا دے کہ ہم ان کے دشمن نہیں مگر درباریوں کی خوشامد سے فرصت ملے تب ہی کوئی اس جانب سوچ سکے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔