کورونا اور خدمت کا زریں موقع

خرم علی راؤ  پير 23 مارچ 2020
کورونا وائرس سے پیدا شدہ موجودہ حالات میں انفرادی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا وائرس سے پیدا شدہ موجودہ حالات میں انفرادی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کسی کو کسی بھی لحاظ سے آسانی یا آسانیاں مہیا کرنے کی نیت کے ساتھ کیا گیا خدمت کا عمل چاہے کسی بھی شکل اور شغل میں ہو، یعنی مالی خدمت، جسمانی خدمت، علمی خدمت، عملی خدمت یا پھر روحانی خدمت، جو کہ اہل اللہ کا طرۂ امتیاز ہے، بہت ہی بڑا عمل اور بے مثال عبادت ہے اور اس کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں ملتا ہے اور بہت خوب ملتا ہے۔

خدمت ایسا عمل ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اسے بے غرضی اور استقلال سے اختیار کرنے والا چاہے کسی بھی عقیدے، مذہب، مسلک سے تعلق رکھتا ہو یا حتیٰ کہ ایک مفہوم میں ملحد یا دہریہ ہی کیوں نہ ہو، اس کا اجر پائے بغیر نہیں رہ سکے گا اور یقیناً اسے دنیا کی زندگی میں عزت، دولت اور وجاہت ضرور بالضرور ملتی ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے کہ عبادت سے جنت ملتی ہے اور خدمت سے خدا ملتا ہے اور جب خدا ہی مل گیا تو گویا سب کچھ ہی مل گیا۔

خدمت کے بے شمار فضائل ہیں جو کتابوں میں ملتے ہیں اور علما و صلحا کے مواعظ و بیانات میں کثرت سے بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اوراس حوالے سے بے شمار واقعات نہ صرف اسلامی کتابوں بلکہ غیر مسلم حضرات کی کتابوں میں بھی ملتے ہیں کہ کبھی کبھی کسی خاص موقعے پر کسی کی خدمت اوپر والے کو ایسی بھا جاتی ہے کہ اس خادم کو مخدوم بنادیا جاتا ہے اور دنیا بھی مال و منال اور اسباب کے اعتبار سے اس پر کشادہ کردی جاتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ بس دینا شروع کردیں، آنا خود شروع ہوجائے گا۔ تو یہ بات تجربے سے ثابت شدہ اور بالکل درست ہے۔ یہاں تک کہ انسان تو انسان دوسرے جانداروں کی کسی بھی لحاظ سے خدمت کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔

دینی حلقوں میں ایک بات یا اصول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اجر اور نتائج کے اعتبار سے اجتماعی عمل کی مثال سمندر جیسی ہے اور انفرادی عمل کی مثال قطرے جیسی۔ اور اسی لیے شاید اجتماعیت پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی بتایا جاتا ہے اور روایات میں آیا ہے کہ کچھ خاص حالتوں میں اور بعض خصوصی مواقع پر قطرے جیسے انفرادی عمل کا اجر اور اس کی جزا سمندر جیسے اجتماعی اعمال سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ آج کل ساری دنیا میں عموماً اور وطن عزیز میں خصوصاً کورونا وائرس سے پیدا شدہ موجودہ حالت اور صورتحال خدمت کے اعتبار سے ایسی ہی بے پناہ کمائی برائے اجر و ثواب کا موقع ہے۔ اب خدمت کا یہ عمل سرکاری سطح پر ہو، طبی عملے کی کاوشوں کی صورت میں ہو یا انفرادی سطح پر ہو، کسی طرح بھی فائدے سے خالی نہیں۔

موجودہ صورتحال بلاشبہ تشویشناک ہے اور ملک میں ویسے ہی ہر سطح پر اور ہر شعبے میں جس جس طرح کا بگاڑ و زوال کا راج، نیز تعلیم و شعور اور دیگر سہولتوں کا فقدان ہے، اس نے اس معاملے اور اس پریشان کن وبا کو مزید خطرناک بنادیا ہے۔ جو کچھ سرکاری سطح پر ہورہا ہے اور جو جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، سو وہ اپنی جگہ لیکن عوامی سطح پر یعنی میری اور آپ کی سطح پر بھی ہم خدمت کے عمل اور جذبے کو خلوص اور محبت سے بروئے کار لاتے ہوئے اس مصیبت کو نعمت میں بھی تبدیل کرسکتے ہیں اور اسی جذبے کا مظاہرہ ایک بار پھر دنیا کو دکھا سکتے ہیں، جو ہم نے 2005 کے آزاد کشمیر کے زلزلے میں بے دریغ اجتماعی ایثار اور بھائی چارے کی شکل میں دکھایا تھا اور ساری قوم اپنے اپنے تعصبات، اختلافات اور معاملات کو بھلا کر اس مصیبت کی گھڑی میں ایک ہوگئی تھی۔ انفرادی سطح پر بھی بہت سے ایسے کام ہیں جو عوام الناس اپنی اپنی سطح پر کرسکتے ہیں اور ماشااللہ کچھ تو کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔

اگر اس عالمگیر وبا کے نتیجے میں جس کا ابھی تک واحد دفاع اور علاج قرنطینہ اور پرہیز کی شکل میں دستیاب ہوا ہے اور بھیڑ بھاڑ سے پرہیز اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے ضروری ہے تو پھر اس کےلیے حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات لینے کے نتیجے میں جو طبقہ سب سے زیادہ مالی اور معاشی اعتبار سے متاثر ہورہا ہے وہ غریب اور خاص طور پر وہ مزدور طبقہ ہے جو روز کنواں کھودتے اور روز پانی پیتے ہیں، یعنی دیہاڑی دار افراد۔ تو ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنی اپنی سطح پر ان حضرات کی جو بھی مدد، مالی شکل میں یا راشن کی شکل میں کرسکتے ہیں اس سے دریغ نہ کریں۔ اور بہت سے لوگ جو اپنی زکوٰۃ رمضان شریف میں اس لیے نکالتے ہیں کہ رمضان میں زیادہ ثواب ملتا ہے، وہ اگر موجودہ صورتحال میں اپنی واجب زکوٰۃ کے ساتھ خیرات اور صدقات کی کثرت اور اہتمام کریں تو کیا بعید ہے کہ اجر و جزا دینے والی وہ ذات جو سارے خزانوں اور فضائل کی مالک ہے، رمضان شریف سے بھی زیادہ ثواب اور بدلہ عطا فرمادے کہ اسے اپنے بندوں کی خدمت کرنے کا عمل چاہے کسی بھی شکل میں ہو بہت عزیز ہے۔

یوں تو ہم اس اعتبار سے پہلے ہی بہت خوش قسمت ملک ہیں کہ چیریٹی کرنے کے اعتبار سے ہمارے ملک اور قوم کا شمار دنیا کے تین اولین ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں بہت سے فلاحی ادارے، این جی اوز اور گروپس ہیں جو انسانی خدمت کے عمل میں بین الااقوامی سطح تک معروف ہیں اور یقیناً وہ سب بھی اس اجتماعی مصیبت سے نمٹنے کےلیے اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور سرکار کی بھی معاونت کررہے ہیں۔ پاک فوج بھی ہمیشہ کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے اور حکومتی ادارے اور سرکاری ذمے داران بھی کاوشیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن ان سب کے ساتھ ہمیں بھی انفرادی طور پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا اور خاص طور پر منفی حرکتوں اور افواہوں سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کی اپنی سعی بھی کرنا پڑے گی۔

اجتماعی مصیبت سے نمٹنے کےلیے سب کو اپنا اپنا حصہ مثبت طور پر ڈالنا پڑتا ہے اور کسی بھی لحاظ سے اپنے سے کمزور لوگوں کا سہارا بننا پڑتا ہے اور اگر ساتھ مل کر، ایک ہوکر ایسا کرلیا جائے تو بڑی سے بڑی مصیبت ہلکی پڑ جاتی ہے اور خطرناک طوفانوں کے رخ بھی بدل جایا کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔