اسمارٹ فون ؛ کورونا وائرس کے خاتمے کی ایک امید

ویب ڈیسک  اتوار 22 مارچ 2020
برطانیہ کے 2011 میں ’فلو فون‘ پروجیکٹ اور جنوبی کوریا کی ُکورونا 100 میٹر ایپ‘ کی کامیابی خوش آئند ہے، ماہرین (فوٹو: فائل)

برطانیہ کے 2011 میں ’فلو فون‘ پروجیکٹ اور جنوبی کوریا کی ُکورونا 100 میٹر ایپ‘ کی کامیابی خوش آئند ہے، ماہرین (فوٹو: فائل)

اسٹینفورڈ: ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اسمارٹ فون سے کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی وبا کو روکا جا سکتا ہے۔

امریکا کے ماہر وبائی امراض اور پبلک ہیلتھ پروفیسر جان لونائیڈس نے اپنے آرٹیکل میں دعویٰ کیا ہے کہ ایک ایسی چیز جس کے ذریعے کورونا وائرس سے متعلق حقیقی ڈیٹا جمع کیا جا سکتا ہے اور جس کے ذریعے علاج معالجے کی درست معلومات براہ راست مریض کو فراہم کی جاسکتی ہیں وہ اسمارٹ فون ہے۔

پروفیسر جان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ایسی وبائی صورت حال کا ایک صدی میں ایک بار سامنا ہوسکتا ہے اور بدقسمتی سے اس وقت بھی ایسی ہی صورت حال ہے تاہم خوش قسمتی سے اس وقت تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں ایک اسمارٹ فون موجود ہے اور کہیں ایسا نہ بھی ہو تو ہر خاندان میں ایک فرد کے پاس ایک اسمارٹ فون ضرور ہے۔

یہ خبر پڑھیں : موبائل فون کو کورونا وائرس سے کس طرح محفوظ رکھا جائے؟

اسمارٹ فون رکھنے والے شخص کی پورے سال اور دن میں چوبیس گھنٹے نگرانی کی جا سکتی ہے اور بس ضرورت ہے تو صرف ایک ایسی ایپ کی جس میں معالجین، ماہرین اور طبی عملے کا مریض سے رابطہ رہے۔ ایسا پروجیکٹ 2011 کو برطانیہ میں ’فلو فون‘ کے نام سے کافی کامیاب رہا تھا۔

یہ خبر پڑھیں : واٹس ایپ نے مصدقہ اطلاعات کیلئے کورونا وائرس انفارمیشن ہب قائم کردیا

اسی طرز پر جنوبی کوریا میں 11 فروری کو کورونا 100 میٹر (Corona 100m)  نامی ایپ لانچ کی گئی تھی جس کی مدد سے صارف کو اُس وقت فوری طور پر خبردار کردیا جاتا ہے جب وہ اُس علاقے میں داخل ہوتا ہے جہاں 100 میٹر کے اندر کورونا وائرس کا مریض موجود ہو۔

یہ پڑھیں : کورونا وبا سے متعلق 24000 تحقیقی مقالے ایک پلیٹ فارم پر موجود

پروفیسر ڈاکٹر جان لونائیڈس کا مزید کہنا تھا کہ ایسی ایپ کے لیے عالمی قوتوں کو سافٹ انجینئرز سے مدد لینی چاہیئے اور کوئی ایسا سافٹ ویر یا اپلیکیشن بنانا چاہیئے جو بڑے شہروں ہی نہیں بلکہ گلی محلوں اور دیہاتوں میں بھی لوگوں کے لیے کارآمد ہوسکے جس کے لیے برطانیہ کے  ُفلو فون‘ اور جنوبی کوریا کی ’کورونا 100 میٹر‘ ایپ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔