ہندو کی فیکٹری پر قبضہ نہ کرنے پر میرے والد کو غدار قرار دے دیا گیا

رضوان طاہر مبین  منگل 24 مارچ 2020
تہذیب سے جوڑے رکھنے کے لیے ’اردو میڈیم‘ اسکول میں بٹھایا گیا، سنیئر صحافی عظمت انصاری کی زندگی کے نشیب وفراز۔ فوٹو: فائل

تہذیب سے جوڑے رکھنے کے لیے ’اردو میڈیم‘ اسکول میں بٹھایا گیا، سنیئر صحافی عظمت انصاری کی زندگی کے نشیب وفراز۔ فوٹو: فائل

انہوں نے دشمن کی قید سے نکلنے کے لیے خفیہ طور پر ایک ’سرنگ‘ کھودنا شروع کی۔۔۔ کھدائی کے لیے مختلف چیزوں کو جوڑ جاڑ کر ’اوزار‘ کیا۔۔۔ نگرانوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے اس کے اوپر پانی کا ڈرم دَھرا رہتا۔۔۔ سرنگ سے نکلنے والی ریت ٹھکانے لگانے کو ’پینگوئن بیگ‘ بنائے، جو پتلون کے اندر ہوتے اور فرد کے ٹہلتے ہوئے اس سے تھوڑی تھوڑی مٹی گر کر پھیلتی رہتی۔۔۔ یہ سرنگ باہر کلاشنکوف بردار سپاہیوں کی چوکی کے نیچے سے گزر کر ’کیمپ‘ سے 20  گز آگے تک پہنچ چکی تھی۔۔۔

ایک طرف یہ سرنگ آگے بڑھ رہی تھی، تو دوسری طرف پردیس میں محصور اِن قیدیوں کو سرنگ کے اگلے سِرے پر ’امید‘ کی کرن دکھائی دے رہی تھی۔ کوئی یہاں سے بمبئی جانے کا خواب رکھتا، تو کوئی سپنے میں اپنا دیس دیکھتا، جب کہ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ نیپال جانے کا ارمان سنبھالے ہوئے تھے۔۔۔ جن سات افسران نے مہارت سے یہ کام کیا، انہیں یہ لوگ ’مگنیفنسٹ سیون‘ کہتے، سرنگ کے اندر ہوا کے لیے ایک پنکھا بھی لگایا گیا۔ تقریباً ایک مہینے تک یہ کام چلتا رہا، پھر کسی طرح یہ بات باہر نکلی، اور سارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔۔۔ سزا کے طور پر اِن سب سے چارپائیاں واپس لے لی گئیں۔۔۔!

کسی افسانے کا سنسنی خیز ورق محسوس ہوتی ہوئی یہ سچی داستان سنیئر صحافی عظمت انصاری کی ہے، جو 1971ء کی جنگ کے نتیجے میں قید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کے ساتھ الہ آباد میں 22 ماہ اسیر رہے۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں بطور فلائٹ لیفٹننٹ،’آئی ایس پی آر‘ کا حصہ بنے۔ اس دوران وہ مشرقی پاکستان بھی گئے، جہاں ہتھیار ڈالے جانے کے بعد 90 ہزار قیدیوں میں شامل ہو گئے۔

اپنی رہائی کے حوالے سے عظمت انصاری بتاتے ہیں کہ ہمیں واپس تو آنا ہی تھا، لیکن ہماری واپسی ذوالفقار علی بھٹو کا کام تھا۔ وہاں ہمیں بالواسطہ افسران کے ذریعے حکم دیتے اور ہم اپنے افسران ہی کے ماتحت تھے۔

سابق ’مشرقی پاکستان‘ کے تجربات بانٹتے ہوئے عظمت انصاری نے انکشاف کیا کہ انہوں نے وہاں غیربنگالیوں کے قتل کی خبر بنائی، تو بتایا گیا کہ جنرل یحیٰی کے احکامات ہیں کہ ایسی خبریں نہ دی جائیں، کیوں کہ اس سے ’مغربی پاکستان‘ میں ردعمل کا خدشہ ہے۔ انہوں نے وہاں ’سنتھار‘ کی ایک تصویر دیکھی، جس میں ایک تالاب میں چھے ہزار غیربنگالیوں کی لاشیں بھری ہوئی تھیں۔۔۔ یہ 1969ء کی بات ہے، جب وہاں کئی نوزائیدہ بچوں کو ابلتے ہوئے پانی میں پھینکا گیا۔ ہمارے سپاہیوں کو کہا گیا تھا کہ جواباً بھی گولی نہیں چلانی۔ اس لیے وہ یحییٰ خان کو بنگالیوںکا ’دوست‘ کہتے ہیں۔

عظمت انصاری کا دعویٰ ہے کہ ایک طرف یہ خبریں جنرل یحییٰ خان کے حکم پر روکی جا رہی تھیں، تو دوسری طرف مغربی ذرایع اِبلاغ نے بھی اِن واقعات کو مکمل طور پر دبایا۔ انہیں جنرل ٹکا خان کے (اپریل 1971ء) آنے سے پہلے کے یہ واقعات نظر ہی نہیں آئے۔۔۔ اس میں ’یہودی لابی‘ بھی پیش پیش تھی۔

عظمت انصاری کہتے ہیں کہ جنرل ٹکا خان کے مشرقی پاکستان میں گورنر متعین ہونے سے قبل سو، پچاس غیربنگالیوں کو قتل کرکے گڑھوں میں دبانا بہت عام سی بات تھی! میں عالمی ذرایع اِبلاغ کے نمائندوں کو ’فرنٹ‘ پر لے جا کر ہندوستانی فوج کی گولا باری دکھاتا۔ سول کپڑوں میں بھی بھارتی فوجی موجود تھے، ہم 30 ہزار سپاہیوں کے ساتھ اتنا بڑا محاذ کیسے سنبھال سکتے تھے، وہاں 27 ہزار میل طویل ہندوستانی سرحد ایسی تھی کہ پیدل چلتے ہوئے چلے جائیں اور آجائیں۔ مغربی ذرایع اِبلاغ اسے ’مقبول انقلاب‘ بنا کے دکھا رہا تھا، جب کہ یہ ایک ’اسٹیج مینجڈ ریولوشن‘ تھا۔ مغرب ہمیں پہلے دن سے توڑنے کے درپے تھا۔ ہم نے بھی بنگالیوں سے زیادتیاں کیں، لیکن وہ اس پیمانے کی نہ تھیں کہ ردعمل میں ایک جگہ چھے ہزار لوگوں کو قتل کر دیا جائے۔۔۔!

ہم نے عظمت انصاری سے یہاں سے مشرقی پاکستان جانے والے افسران کی رعونت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دفاتر میں بنگالیوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا، تو انہوں نے ایسے مشاہدات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے، وہاں بنگالیوں کو ہم سے شکایات ضرور تھیںکہ آپ ہمارے فنڈز کھا رہے ہیں، لیکن ایسا نہ تھا۔

عظمت انصاری کہتے ہیں کہ ’ٹکا خان کے آنے کے بعد فوج کی گولی نہ چلانے کی حکمت عملی بدلی۔ اس سے پہلے جتنے غیربنگالی مرے اس کا کسی کو کچھ پتا نہیں۔‘

ہم نے پوچھا ’تو کیا ان کی میتیں یہاں نہیں آتی تھیں؟‘ وہ کہتے ہیں کہ کچھ آتی تھیں اور کچھ نہیں بھی آتی تھیں۔

ہم نے کہا اُس وقت کے فوجی ترجمان بریگیڈیئر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی نے تو ایسی کوئی بات نہیں لکھی، جو آپ بتا رہے ہیں؟ جس پر وہ بولے کہ انہوں نے مناسب نہیں سمجھا ہوگا، لیکن حقیقت اب آہستہ آہستہ سامنے آنے لگی ہے، جیسے اکرام سہگل نے اپنی کتاب میں یہ سب لکھا ہے۔

ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے عظمت انصاری بتاتے ہیں کہ ’میں وہاں ایک ماہ اور 16 دن رہا، اس کے بعد ہتھیار ڈال دیے گئے، ہماری شکست کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، لیکن یہ دراصل جنرل یحییٰ خان کا حکم تھا۔‘

’لیکن وہ تو یہاں کہہ رہے تھے کہ میں آخری دم تک لڑوں گا؟‘ ہمیں جنرل یحییٰ کا 1971ء کی جنگ کے حوالے سے بیان یاد آیا، وہ بولے: ’’وہ تو تھا، لیکن میں نے خود پڑھا اُن کا وہ آرڈر۔۔۔‘‘

’جب یہ حکم آیا تو جنگ کی صورت حال کیا تھی؟‘ ہم نے معلومات چاہی، تو وہ بولے کہ ’ہم ڈھاکا اور دیگر شہروں میں کچھ عرصے رک سکتے تھے، لیکن جب انہوں نے ہتھیار ڈالنے کا کہا تو کوئی مصلحت ہوگی۔ مجھے لگتا ہے مغربی طاقتوں نے مجبور کیا، ہماری مغربی پاکستان کی سرحدوں پر دباؤ تھا۔ ہم نے مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی سرحدوں پر ہارا! ہمیں اپنی جان بچنے کی قطعی کوئی خوشی نہیں!‘

وہ بتاتے ہیںکہ ہندوستان سے واپسی کے بعد کچھ عرصے ’آئی ایس پی آر‘ کے میگزین ’شاہین‘ سے منسلک رہا، پھر استعفا دے کر مستقل سکونت کی نیت سے امریکا گیا۔ وہاں ایک براڈ کاسٹنگ اسکول میں ڈپلوما کیا، لیکن پھر محسوس ہوا کہ یہاں رہنے کے لیے جتنی جدوجہد کرنا پڑے گی، پھل اتنا نہیں ملے گا، یوں ایک سال بعد 1979ء میں کراچی لوٹا اور اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ’فری لانس‘ کام شروع کیا۔ ریڈیو میں انگریزی اور اردو میں خبریں پڑھیں، انگریزی اخبار، ٹی وی اور دستاویزی فلموں کے لیے لکھا اور ’وائس اوور‘ کیا، ایک رسالے میں کچھ ماہ چیف ایڈیٹر رہا۔ ’جنگ‘ ’حریت‘ اور ’اخبار جہاں‘ کے لیے بھی لکھا۔ نام ور لکھاری ’پال سارتر‘ کی موت پر ان کا افسانہ ترجمہ کیا۔ ’ڈان‘ کے لیے سعادت منٹو کے دو تین افسانے انگریزی میں ڈھالے۔ اس کے بعد ایک کالج میں تدریس سے جُڑ گیا، انگریزی اور مطالعہ پاکستان پڑھائی۔ دو سال بعد ’اقرا یونیورسٹی‘ اور دیگر نجی جامعات میں ’میڈیا‘ نفسیات، بزنس ایڈمنسٹریشن، اشتہاریات، ڈیجیٹل مارکیٹنگ وغیرہ پڑھاتے رہے۔

ذاتی زندگی کے حوالے سے عظمت انصاری بتاتے ہیں کہ میں 1943ء میں عبداللہ پور (ہریانہ) میں پیدا ہوا۔ چھے بھائی اور دو بہنوں میں میرا نمبر چوتھا ہے۔ آبائی وطن مارہرہ ہے، جب کہ ننھیال سہسوان (یوپی) سے ہے، جہاں سے ’اسٹیٹ بینک‘ کے پہلے گورنر زاہد حسین کا تعلق تھا، ان کی اہلیہ ہماری امی کی بچپن کی سہیلی تھیں۔ وہ کھمبوں پر تیل سے جلنے والے چراغوں کی روشنی میں بیٹھ کے پڑھتے تھے، ہمیں مثال دی جاتی تھی کہ دیکھو کتنی محنت کی اور آج وہ گورنر اسٹیٹ بینک ہیں۔ میری والدہ سادہ لیکن ہنرمند خاتون تھیں، والد رؤف انصاری ہریانہ میں ہندوستان کے معروف نیشنلسٹ ڈی ڈی پوری کی سرسوتی شوگر مل میں مینجر تھے، ’جلو‘ میں انہی کی ایک ٹیکسٹائل مل بھی تھی، فسادات کے دوران اس کے ہندو مینجر کا قتل ہوگیا، جس پر والد کو یہاں بھیجا۔ وہ یہاں آئے اور ایک گینگ سے شوگر مل کا قبضہ چھڑایا اور پھر اسے بہت خوبی سے چلایا اور ڈی ڈی پوری کو اس کی خبر کی۔ ان دنوں میں پاکستان میں بہت کم ملیں اور فیکٹریاں تھیں، اس لیے اس کی بہت شہرت تھی، بہت واہ واہ ہوئی۔ اس وقت گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر نے والد کو بلایا اور کہا کہ ’’انصاری، یہ مِل ایک ہندو کی ملکیت ہے، میں تمہیں دے رہا ہوں، تم لے لو۔۔۔!‘‘

والد بولے کہ ’جو چیز میری نہیں ہے، وہ میں نہیں لوں گا‘ سردار نشتر نے کہا تم غدار ہو! انہوں نے کہا کچھ بھی کہیں، میں نہیں لوں گا۔ پہلے بھی میرے والد کے لیے یہ تاثر تھا کہ اِن کے ہندوؤں سے تعلقات ہیں۔

ہریانہ کی یادداشتوں کے حوالے سے عظمت انصاری کہتے ہیں کہ جب ابا جان کا وہاں سے لاہور (جلو) جانے کا وقت آیا، تو مسلمانوں کے ساتھ ہندو اور سکھ بھی آب دیدہ تھے، ان کی الوداعی تقریب کے جذباتی ’سپاس نامے‘ ہمارے پاس بہت دنوں تک محفوظ رہے۔

ہریانہ میں میرے لیے صرف ایک استاد تھے، پھر میں چار سال کا تھا، جب والد یہاں آگئے۔ ’انگریزی میڈیم‘ کے طور طریقے بالکل الگ تھے، ابا جان چاہتے تھے کہ میں اپنی تہذیب سے قریب رہوں، اس لیے انہوں نے مجھے ’اردو میڈیم‘ اسکول میں بٹھایا، مجھے انگریزی پڑھانے کے لیے الگ سے اساتذہ رکھے گئے۔ لاہور میں ’ادبستان صوفیا اسکول‘ میں ابتدائی تعلیم کے بعد تیسری جماعت سے ’رنگ محل مشن ہائی اسکول‘ میں بیٹھ گیا، میٹرک کے بعد ایف سی کالج سے انٹر کیا۔

1961ء میں والد کا انتقال ہوگیا، پھر میں بدین میں ماموں کی زمین کی دیکھ بھال کرنے لگا، جو انہیں آبادکاری کے لیے لیز پر ملی تھی۔ وہاں گاڑی چلانے سے پہلے ٹریکٹر چلانا سیکھا۔ دو سال بعد تعلیم کا منقطع سلسلہ بحال کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور جامعہ پنجاب سے تاریخ میں ماسٹرز کیا۔ 1966ء میں ’پاکستان ٹائمز‘ میں ٹرینی ’سب ایڈیٹر‘ ہوگیا، یہاں چھے ماہ کی تربیت کے دوران 150 روپے ملتے، پھر میری تقرری راول پنڈی میں کر دی، لیکن میں والدہ کی وجہ سے لاہور نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میرے کراچی میں موجود بھائی عشرت انصاری نے ’السٹریڈ ویکلی آف پاکستان‘ میں انور مراد سے بات کی اور یوں پھر میں کراچی آگیا اور یہاں پھر بہت سے دل چسپ انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔

ہاتھ سے ’اخبار‘ لکھتے اور پھر دیوار پر چپکا دیتے!

عظمت انصاری بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں قید کے دوران انہوں نے اردو اور انگریزی کے ’ہفت روزہ‘ نکالے۔ کیمپ کے ڈھائی تین سو افراد کی خبروں پر مشتمل یہ ’اخبار‘ وہ ہاتھ سے لکھتے اور دیوار پر چپکا دیتے۔۔۔! ہم نے پوچھا کہ ’دیواری اخبار‘ کا خیال کہاں سے آیا، تو وہ بولے کہ یوں ہی بس بیٹھے بیٹھے۔ وہاں ہمیں 70 روپے ملتے، جس میں سے 35 روپے کاغذ وغیرہ میں لگا دیتے، باقی صابن اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ جیسی ضروریات میں صرف ہوتے۔

دوران قید پابندیوں سے متعلق استفسار پر وہ بولے کہ ہماری روزانہ پریڈ ہوتی اور رات کو وقت پر بتیاں بجھانا اور سونا لازمی ہوتا۔ دن بھر کوئی کام نہیں ہوتا تھا، جو نماز نہیں پڑھتے تھے، وہ نماز پڑھنے لگے اور جنہوں نے قرآن نہیں پڑھا تھا، انہوں نے وہ پڑھ لیا۔ ہم ریڈیو سن سکتے تھے، اخبار نہیں ملتے تھے، البتہ ہم کتابیں وغیرہ منگا سکتے تھے۔ وہاں ایک ’بزم اقبال‘ تشکیل دی، ایک ینگ لفٹیننٹس کی تنظیم ’ایگل‘ بنائی۔ صدیق سالک دوسرے کیمپ میں تھے، ہمارے ’کیمپ‘ کے کچھ بریگیڈیئر بعد میں جنرل بھی بنے۔ ایئرچیف بننے والے مہدی صاحب بھی ہمارے ساتھ ہی تھے۔

’’خان عبدالغفارخان ہمارے ہاں ٹھیرتے تھے‘‘

عظمت انصاری بتاتے ہیں کہ اُن کے والد آل پاکستان میوزک کانفرنس کے ’کو فاؤنڈر‘ تھے۔ ہمارے گھر میں مشہور ہندوستانی موسیقار جھنڈے خان وغیرہ بھی آتے، دراصل ہمارے مہمان خانے میں مختلف شخصیات آکے ٹھیرتی تھیں، جن میں خان عبدالغفار خان بھی شامل تھے۔ ہماری وابستگی تھوڑی سی کانگریس کی طرف تھی، کیوں کہ وہاں مسلم لیگ نہیں تھی۔ 1947ء میں ہریانہ فسادات سے محفوظ پایا۔ عظمت انصاری بتاتے ہیں کہ ہندوستان سے رہائی کے بعد اُن کی شادی ہوئی، لیکن مزاج نہ مل سکے، بعد میں پھر دوسری شادی کی۔ اُن کے صاحب زادے دبئی میں ہیں، جب کہ صاحب زادی کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان دنوں وہ اپنی خود نوشت ’یادوں کے دریچے‘ کو انگریزی میں ڈھال رہے ہیں۔

دادا کو والد کی ملازمت کا پتا چلا تو انہوں نے دو دن کھانا نہیں کھایا

عظمت انصاری کے بقول ان کے والد کی پیدائش مارہرہ کی تھی، وہاں دادا کی بہت جاگیریں تھیں، لیکن تیسری ’لینڈ ریفارمز‘ کے بعد زمینیں بہت تھوڑی رہ گئی تھیں۔ ہم نے اِن زمینوں سے متعلق استفسار کیا تو وہ بولے کہ یہ موروثی زمینیں مغلیہ دور میں کبھی ملی ہوں گی، یہ وسیع اراضی سکڑتے سکڑتے چند ایکڑ تک رہ گئی تھی، والد نے یہ صورت حال دیکھ کر ملازمت کرلی۔ جب دادا کو پتا چلا، تو انہوں نے اس غم میں دو دن کھانا نہیں کھایا، کیوں کہ ملازمت کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا، کہ یہ کیا ہے کہ کسی کی جی حضوری کر رہے ہیں۔

شیخ مجیب الرحمن کا آنسوؤں سے تر کُرتا۔۔۔

عظمت انصاری عوامی لیگ کے راہ نما شیخ مجیب الرحمٰن کو سچا محب وطن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں غدار بنایا گیا۔ ایس ایچ ہاشمی بتاتے ہیں کہ شیخ مجیب ایک دن ان کے پاس آئے تو ان کا کُرتا آنسوؤں سے تر تھا، وہ بولے کہ بھائی کو بھائی لڑوا رہا ہے، بھٹو ہمیں ساتھ نہیں رہنے دے گا! عظمت انصاری کا خیال ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو وزیراعظم بننے کی بہت جلدی تھی، ان کی قابلیت پر کوئی شک نہیں، لیکن ان کی ترجیحات درست نہ تھیں، وہ مجیب کو وزیراعظم بنا دیتے تو شاید یہ اتنے جلدی نہ ہوتا، یا اگر وہ الگ ہوتے لیکن ہم سے کسی نہ کسی سطح کا تعلق رہتا۔ وہ خودمختار ہوتا، لیکن اسکاٹ لینڈ کی طرح ساتھ رہتا۔

عظمت انصاری بتاتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن سے کراچی پریس کلب میں وقت لیا، پھر ’پی ای سی ایچ ایس‘ میں چیل والی کوٹھی میں ان کا انٹرویو لیا، وہ بولے کہ ہمارے سیلاب زدگان کے لیے جو روپیا ’ورلڈ بینک‘ سے آتا ہے وہ مغربی پاکستان کی سڑکوں پر لگ جاتا ہے!

آٹے سے میدہ نکال کر عید پر مٹھائی بنائی

ہم نے عظمت انصاری سے ہندوستانی قید کے حوالے سے پوچھا کہ آپ کو کیسا لگتا تھا کہ آپ کے آبا جس کے قرب وجوار (مارہرہ) سے چلے، اب آپ تاریخ اور جغرافیے کا ایک پھیرا کاٹ کے دوبارہ وہیں پہنچ گئے، لیکن حیثیت اور زمانہ کتنا بدل گیا۔۔۔؟

وہ بولے کہ ہم تو زیادہ تر پاکستان واپسی کا ہی سوچتے تھے۔ ہمیں کچھ پتا نہ تھا کہ یہ ہمیں مار دیں گے یا کیا کریں گے، سب سے زیادہ پریشانی سنیئر افسران کو تھی، جن کے بارے میں سنا جا رہا تھا کہ انہیں بنگلادیش بھیج کر ’جنگی جرائم‘ پر مقدمہ چلایا جائے گا! ہم نے وہاں عید کا ذکر کیا تو بتایا کہ بس عید کی نماز پڑھ کر گلے مل لیتے۔۔۔ وہاں آٹے سے میدہ نکالتے اور پھر اِس میدے سے مختلف چیزیں تیار کرتے، جیسے عید پر اس سے مٹھائی بھی بنائی جاتی۔۔۔

قید تنہائی میں ’برنارڈشا‘ کے سب کردار باری باری خود ادا کرتا

ہندوستانی قید میں جانے کے دو تین ماہ بعد عظمت انصاری بہ ذریعہ ’پوسٹ کارڈ‘ اہل خانہ کو خیریت کی اطلاع کر سکے۔ یہاں کسی خط کے بہ جائے بنا لفافے کے ’پوسٹ کارڈ‘ ہی جاتے تھے اور انہیں وقتاً فوقتاً پڑھا بھی جاتا۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے بھائی کو جنرل ایوب خان کا ایک جملہ لکھا کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم کچھ سوچ رہی ہیں، لیکن دراصل ان کا دماغ ماؤف ہو چکا ہوتا ہے!‘ یہ کارڈ پکڑا گیا، جس پر سزا ہوئی۔ عموماً سزائیں یہی ہوتیں کہ دو، ڈھائی گھنٹے دھوپ میں کھڑا کر دیتے، اذیت دینے کے لیے سپاہی کنپٹی پر بندوق تانے رہتا، لیکن انہیں پھر ایک ماہ کی قید تنہائی میں دلی بھیج دیا، جہاں ایک بڑی سی جیل میں بالکل اکیلا رہنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ تنہائی بہت خراب چیز ہوتی ہے۔ میں وہاں تلاوت کرتا تھا، اور برنارڈشا کی ایک کتاب ’مائی فیئر لیڈی‘ (My Fair Lady) کے مختلف کردار باری باری بن کر خود ہی ادا کر لیتا تھا۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔