کورونا وائرس: قدرت کا انتقام یا اعمال کی سزا؟

ندا ڈھلوں  بدھ 25 مارچ 2020
اب بھی وقت ہے اگر ہم سچے دل سے توبہ کرلیں، اللہ کو راضی کرلیں تو وہ رحمان ہم پر رحم کر دے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اب بھی وقت ہے اگر ہم سچے دل سے توبہ کرلیں، اللہ کو راضی کرلیں تو وہ رحمان ہم پر رحم کر دے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس وقت پوری دنیا ایک جان لیوا وائرس کا شکار ہوچکی ہے۔ کورونا وائرس نے ساری دنیا کو قید تنہائی میں ڈال دیا ہے۔ لوگ جو چند سیکنڈوں کےلیے گھر میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھے اب سارے کام چھوڑ کر اپنی زند گی کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وائرس نے اللہ کی طاقت اور انسان کو اس کی اپنی بے بسی کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔ اس نے انسان کو بتا دیا ہے کہ اصل میں انسان کیا ہے۔ اس نے انسان کے سامنے چند حقیقتیں واضح کردی ہیں، وہ حقیقتیں جنہیں بھول کر انسان اپنی زندگی گزار رہا تھا۔

اس نے بتادیا ہے کہ جس زندگی کا آغاز روزانہ انسان ناشکری کے ساتھ کرتا تھا، وہ زندگی اصل میں کتنی قیمتی ہے۔ اس نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ انسان چاہے جتنی بھی ترقی کرلے، سمندروں کو فتح کرے یا چاند کو تسخیر کرے، وہ ازل سےقدرت کے سامنے بے بس تھا اور ابد تک بے بس ہی رہے گا۔ قدرت انسان کو اتنا ہی اُڑنے کی صلاحیت دیتی ہے جتنا وہ دینا چاہتی ہے۔ اور جب انسان قدرت کے دائرے سے نکلنے یا پھر قدرت کا منکر ہونا شروع کرتا ہے تو قدرت اپنی اصل طاقت دکھا دیتی ہے۔

اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ قدرت ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ انسان ناشکرا ہونے کے ساتھ ساتھ مجبور و بے بس بھی ہے۔ خود کو ’’سپر پاور‘‘ کہلوانے والی طاقتیں بھی اس سے چھپ کر قید تنہائی میں رہ رہی ہیں۔ پوری انسانیت ہی ایک عجیب سی کشمکش کا شکار نظر آرہی ہے۔ لوگ موت کے خوف سے گھروں میں بند ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ہر کسی کے دل میں نئے آنے والے دن کے حوالے سے خوف اور خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ آنے والا دن اپنے ساتھ کیا خبر لائے گا؟ اس بات نے لوگوں کی زندگی میں بے چینی اور ڈپریشن پیدا کر دیا ہے۔ لوگ اپنے اور اپنے پیاروں کےلیے فکرمند ہیں اور اسی فکر نے زندگی میں سکون ختم کر دیا ہے۔

یہ مشکل ترین وقت ضرور ہے مگر یہ وقت ہمیں مضبوط کرنے کےلیے آیا ہے۔ اس مشکل وقت میں ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ ہمیں خود احتسابی کرنی ہے اور شکر گزاری کی عادت اپنانی ہے، کیونکہ قدرت کو اس کی نعمت کی ناقدری سخت ناپسند ہے۔ اور ہم تو بے وجہ خواہشات کے اسیر بن کر اپنی زندگی کی اصل نعمتوں ہی کو بھول چکے تھے۔

آزادی سے اپنے گھر سے کام پر جانا، آزادی سے اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے کھانا کھانا، آزادی سے سینما میں اپنی پسند کی فلم دیکھنا، یہ سب چیزیں ہم بغیر کسی رکاوٹ کے کیا کرتے تھے۔ آج احساس ہوا کہ یہ تو زندگی کی بہت بڑی نعمتیں تھیں۔ سب سے مشکل بات یہ ہے کہ اللہ کا گھر بھی خالی ہوگیا ہے۔ وہ گھر جہاں ہر درد مند اپنی آرزو لے کر اس یقین کے ساتھ جاتا تھا کہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے گا، اس گھر کے دروازے بھی ہم پر بند کردیئے گئے ہیں۔

اب بھی وقت ہے اگر ہم سچے دل سے توبہ کرلیں، اللہ کو راضی کرلیں تو وہ رحمان ہم پر رحم کردے گا۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے خود فرمایا ہے: ’’میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے۔‘‘ بس اب اللہ کی رحمت ہی ہمیں اس آفت سے نجات دے سکتی ہے۔

کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے اور عوام سے بھی یہی اپیل کی جارہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔ اس مشکل وقت میں جہاں سب لوگ اپنے اپنے پیاروں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے ہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف، پولیس اور مسلح افواج اپنی ڈیوٹی سرانجام دے ر ہے ہیں۔ پاک فوج پر تنقید کرنے والے خود تو اپنے پیاروں کے ساتھ گھر میں بیٹھے ہیں مگر مسلح افواج عوام کی سیفٹی کےلیے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔

وقت کی یہی حسین بات ہے کہ یہ جیسا بھی ہو، گزر جاتا ہے۔ اس لیے اللہ سے اُس کی رحمت کی امید کرنی ہے اور اُس سے ہمارے اعمال کی معافی مانگنے کا وقت ہے۔ وہ معاف کردے گا، کیونکہ وہ انسان کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ وہ ہمارے صبر اور برداشت کرنے کی ہمت کو جانتا ہے اس لیے وہ کبھی ہم پر وہ بوجھ نہیں ڈالے گا جو ہم اُٹھا نہ سکتے ہوں۔

اس مشکل ترین وقت کو ہمیں ہمت کے ساتھ ساتھ مثبت طریقے سے بھی گزارنا ہے۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ہمیں لوگوں کی ہر حد تک مدد کر نی ہے جن کےلیے زند گی کا پہیہ چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ اپنے گھر ہی صرف راشن سے نہیں بھرنے بلکہ دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقے کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیجیے اور اپنے گھروں میں مقیم رہیے تاکہ نہ آپ خود تکلیف اُٹھائیں اور نہ کسی دوسرے کی تکلیف کا موجب بنیں۔

اتحاد، یقین اور امید کا دامن تھام کر ہی ہم اس مشکل وقت سے گزر سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندا ڈھلوں

ندا ڈھلوں

بلاگر جامعہ پنجاب سے فارغ التحصیل ہیں، مختلف ٹی وی چینلوں سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ سیر و سیاحت اور کتب بینی ان کے مشاغل ہیں۔ ان سے ٹوئٹر آئی ڈی @DhillonNida پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔