ناول کورونا وائرس اور قیمتی مہلت کا ضیاع

شاہد افراز  جمعرات 26 مارچ 2020
دنیا نے ناول کورونا وائرس کے دائرہ کار کو صرف چین تک محدود سمجھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا نے ناول کورونا وائرس کے دائرہ کار کو صرف چین تک محدود سمجھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ناول کورونا وائرس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کی کیسز اور شرح اموات میں خطرناک حد تک اضافے نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا واقعی دنیا نے اس مہلک ترین وائرس کے خلاف چین کی فراہم کردہ قیمتی مہلت ضائع کردی؟

اس سوال کے پس پردہ چند حقائق ہیں جن سے آگاہی لازم ہے۔ دسمبر 2019 کے اواخر میں چین کے صوبہ ہوبے اور ووہان شہر میں ناول کورونا وائرس کے کیس سامنے آنا شروع ہوئے۔ چین نے جنوری 2020 کے آغاز میں ہی عالمی ادارہ صحت اور امریکا سمیت دیگر اہم ممالک کے ساتھ وائرس (پیتھوجن) سے متعلق بنیادی معلومات کا فوری تبادلہ کیا تاکہ دنیا کو آنے والے خطرے سے خبردار کیا جا سکے۔ 23 جنوری کو چین نے ووہان کو مکمل طور پر بند کردیا تاکہ اندرون چین سمیت دیگر دنیا میں لوگوں کی آمدورفت روکی جا سکے اور ووہان کو ناول کورونا وائرس کا مرکز قرار دیتے ہوئے فوری اقدامات کا آغاز کیا گیا۔

اس سارے عرصے کے دوران چند مغربی ممالک نے ووہان کی بندش کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا جبکہ ’’لاک ڈاؤن‘‘ کا یہی ماڈل آج دنیا بھر میں انتہائی مؤثر قرار دیتے ہوئے نافذالعمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ووہان کی بندش کے بعد تقریباً دو ماہ کے عرصے میں دنیا کو جو اقدامات کرنے چاہیے تھے، کیا انہیں اہمیت دی گئی؟

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب یورپ ناول کورونا وائرس کا نیا مرکز بن چکا ہے، چین کے بعد اٹلی دوسرا اور امریکا تیسرا ایسا ملک ہے جو کورونا وائرس ’’کووِڈ 19‘‘ سے شدید متاثرہ ہیں۔ دوسری جانب چین میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال اور مثبت پیش رفت کے بعد معمولات زندگی بحال ہورہے ہیں۔ ووہان میں 18 مارچ سے مسلسل پانچ روز تک ’’زیرو کیس‘‘ کے بعد 23 مارچ کو صرف ایک نیا کیس سامنے آیا ہے۔ تازہ ترین پیش رفت یہ بھی ہے کہ چینی حکام نے 8 اپریل سے ووہان کے شہریوں کو بیرون شہر سفر کی اجازت دے دی ہے جبکہ صوبے ہوبے کے دیگر شہروں کےلیے 25 مارچ سے تمام سفری پابندیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ ووہان سے باہر سفر کرنے والے شہریوں کو خصوصی ہیلتھ کوڈ جاری کیے جائیں گے تاکہ منظم ریکارڈ برقرار رکھا جا سکے۔

تاحال صوبے بھر میں تعلیمی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ووہان اور صوبے ہوبے کے دیگر علاقوں میں فعال 42000 سے زائد طبی عملے کی اپنے آبائی علاقوں کو واپسی جاری ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ ووہان اور صوبہ ہوبے کورونا وائرس کے خلاف عوامی جنگ جیت چکے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ دیگر دنیا سے غلطی کہاں ہوئی؟ یا اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے لازمی اقدامات میں تاخیر کردی تو بے جا نہ ہوگا۔ چین کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں یہ لازم تھا کہ ہر ملک اپنے اپنے قومی تقاضوں کے مطابق اقدامات کرتا، الگ سے مخصوص اسپتالوں کا قیام، مسافروں کی محدود نقل و حرکت، عوامی مقامات پر جامع اسکریننگ کا نظام، ناول کورونا وائرس سے متعلق عوام میں آگاہی کا فروغ، یہ وہ تقاضے تھے جن پر ’’سختی‘‘ سے عمل پیرا ہونا ضروری تھا۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ یا تو دنیا نے ناول کورونا وائرس کے دائرہ کار کو صرف چین تک محدود سمجھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں یا پھر انہیں اپنے طبی نظام پر ناز تھا کہ کسی بھی صورتحال سے بخوبی نمٹ لیں گے۔

ترقی پذیر ممالک میں تو ویسے ہی صحت سے متعلق اکثر مسائل سامنے آتے رہتے ہیں لیکن مغرب نے شاید اس وائرس کو بہت ہلکا لیا اور آج پورا یورپ وائرس کے شکنجے میں ہے اور جان چھڑانے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔

امریکا میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔ چین اور امریکا کی سیاسی رقابت سے سبھی واقف ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب تو اپنے کلمات میں ’’چائنیز وائرس‘‘ کہنے سے بھی نہیں چوکتے، لیکن امریکی عوام اس وقت سراپا احتجاج ہیں کہ کیوں بروقت اقدامات نہیں کیے جاسکے۔ نیویارک کے میئر نے تو واضح الفاظ میں وفاقی حکومت کے ناکافی اقدامات کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وینٹی لیٹرز، سرجیکل ماسکس اور طبی نظام کو فعال رکھنے کےلیے درکار ضروری اشیاء کی قلت کے شکوے کیے ہیں۔

مغربی ممالک کی اکثریت اس وقت چین کے کامیاب ماڈل پر عمل پیرا ہے: شہروں کا لاک ڈاؤن کیا گیا ہے، عوامی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد ہیں، قرنطینہ مراکز تشکیل دیئے جارہے ہیں اور سماجی دوری کے تحت وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات جاری ہیں۔

چین میں قیام کے دوران بطور مبصر اور ذاتی مشاہدات کی روشنی میں میرا یہ خیال ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف چین کی فتح میں جہاں متحرک چینی قیادت، جدید طبی وسائل، مالیات کی فراہمی، تکنیکی جدت اور چین کے مضبوط نظام کی برتری کارفرما رہی، وہاں عوامی رویوں نے بھی کلیدی کردارا دا کیا ہے۔ چینی عوام نے خود کو مکمل آئیسولیشن میں رکھا، چین بھر میں عوامی مراکز سنسان ہو گئے، تفریحی مقامات بند کردیئے گئے اور عوام نے حکومتی ہدایات پر من و عن عمل درآمد کرتے ہوئے خود کو گھروں تک محدود کر دیا۔

ایسے ہی رویّوں کی اس وقت پاکستان سمیت دیگر دنیا میں بھی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام اس وقت اگر سماجی دوری اختیار کریں گے تو وہ انفرادی ہی نہیں، بلکہ اجتماعی اور قومی مفاد میں بھی گردانی جائے گی۔ حکومتی ہدایات اپنی جگہ لیکن یہاں آپ کے انفرادی رویّے زیادہ کارگر ثابت ہوں گے، بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے اجتناب برتا جائے، عوامی اجتماعات خود سے منسوخ کردیجیے، جسمانی صحت و صفائی کا خاص خیال رکھیں، معمول کے چیک اپ کےلیے اسپتالوں کا رخ ہر گز نہ کیجیے۔

یہ وہ احتیاطی تدابیر ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چین نے وبا کو شکست دی ہے؛ اور ہم پاکستانی قوم بھی مل کر کورونا وائرس کے خلاف فتح یاب ہوں گے، ان شاء اللہ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد افراز

شاہد افراز

شاہد افراز خان مستقل بنیادوں پر بطور سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان اسلام آ باد سے وابستہ ہیں جبکہ آ ج کل چائنا ریڈیو انٹر نیشنل بیجنگ کی اردو سروس میں بحیثیت غیر ملکی ماہر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کیا جاسکتا ہے @shahidafraz

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔