بھگت سنگھ۔آزادی کا ہیرو

جمیل مرغز  جمعرات 26 مارچ 2020

جس طرح مفاد پرست عناصر نے مسلمانوں کی تاریخ کو جھوٹ کی ملاوٹ سے بھر دیا ہے‘ اسی طرح بر صغیر میں انگریزی سامراج سے آزادی کی تاریخ کو بھی مسخ کردیا گیا ہے۔

ہماری تاریخ بہت سادہ بنادی گئی ہے‘ بس ہندوئوں کے لیڈر گاندھی اور نہروتھے اور مسلمانوں کے لیڈر قائد اعظم ‘لیاقت علی خان‘ نواب بہادر یار جنگ اور ان کے ساتھی تھے ‘انھوں نے انگریز کو بھگایا اورپاکستان اور ہندوستان بن گئے ‘حالانکہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے لے کر 1857کی جنگ آزادی اور اس کے بعد برصغیر کی آزادی تک اس جنگ میں ملک کے ہر طبقے اور ہر قوم نے قربانیاں دی تھیں ‘اس دوران ان ہزاروں شہیدوں‘ انقلابی رہنمائوں اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے‘ جن کی وجہ سے سامراج کو ہندوستان سے بھاگنا پڑا۔

ہندوستان میں کانگریس اور پاکستان میں مسلم لیگ کو حکومت ملی اس لیے آزادی کی تاریخ میں ان کے قصے ہی شامل کر دیے گئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی کی تاریخ سے ان لوگوں کی جدوجہد کو نکال دیا گیا ہے جنہوں نے حقیقی قربانیاں دیں تھیں‘امید تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تاریخ کو صحیح تناظر میں لکھے گی لیکن وہ بھی پانچ سال صرف حکومت ہی کرتے رہے ‘آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والوں میں کرانتی دل ‘غدر پارٹی ‘خدائی خدمت گار تحریک ‘قبائلی پختون‘کمیونسٹ پارٹی‘ جلیانوالہ باغ کے شہدا ‘مجلس احرار ‘خاکسار تحریک، نیشنل موومنٹ اوربنگال کے حریت پسندوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے تاریخ آزادی کو مسخ کردیا گیا ہے۔ آج تحریک آزادی میں جان دینے والے ایک عظیم انقلابی رہنماکو یاد کرتے ہیں۔

بھگت سنگھ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک عظیم ہیرو ہے‘ 27ستمبر1907 بھگت سنگھ کا یوم پیدائش اور 23مارچ1931 کو انھیں سولی پر لٹکایا گیا ‘بھگت سنگھ حقیقت میں برصغیر کی تاریخ کی زندہ جاوید سچائی اور حقیقت ہے ‘وہ ایسی سچائی ہے جس پر افسانے کا گمان ہوتا ہے‘ اس کے سامنے ایک آزاد ملک ‘جاگیردارانہ سماج کے خلاف جدوجہد ‘انگریزی راج کا خاتمہ‘ معاشرے کے مذہبی اور ذہنی جمود کے خلاف عمل ‘سیکولر معاشرہ اور مساوات پر مبنی ترقی یافتہ سماج کا خواب رہا ہے۔اپنی تنظیم کا نام ’’سوشلسٹ ریپبلک آرمی‘‘رکھنے والا بائیں بازو کا یہ نمایندہ خود کو بھی مزدور کسان جیسے پیداواری طبقوں کے ساتھ جوڑنے والا انسان آنے والی نسلوں کے لیے ترقی پسند تحریک کی تخلیق کرتا رہا‘ یہاں تک کہ اس کی موت بھی دوسروں کو قربانی کی تحریک و ترغیب دیتی رہی۔

بھگت سنگھ کا گائوں 66گ ب بنگا (جڑانوالہ) ضلع لائل پور ‘جہاں وہ پیدا ہوا اور پرائمری تک وہاں تعلیم حاصل کی ‘اس کے والد کشن سنگھ اور چاچا اجیت سنگھ کا تعلق غدر پارٹی سے تھا‘بھگت سنگھ کے دو بھائی کبیر سنگھ‘ کائوتار سنگھ تھے۔1929/30کے لاہور سازش کیس کے مقدمے نے عوام کو جس طرح متحرک کیا اس کی مثال نہیں ملتی‘ جس دن اسمبلی میں بم پھینکا گیا اس دن سے لے کر بھگت سنگھ ‘راج گرو اور سکھ دیو کی پھانسی تک سارے برصغیر کی توجہ اس مقدمے پر جمی رہی۔

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی سارے ملک کے ہیرو بن گئے‘ ان کے متعلق بے شمار واقعات اور افسانے مشہور ہوگئے ‘ہر طرف ان کے متعلق نظمیں لکھی جانے لگیں‘ساری فضا انقلابی نعروں اور انقلابی گیتوں سے گونجنے لگی۔بھگت سنگھ پنجاب میں انقلابی تحریک کے روح و رواں تھے اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘قائم کی تھی‘ یہ انقلابی نوجوانوں کی جماعت تھی۔  نومبر 1928میںلاہور کے ASPسانڈرس کو جس نے لاہور میں مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھیاں چلوائی تھیں‘ پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے قتل کردیا گیا‘ ایک دن جب مرکزی اسمبلی میں مزدور سبھائوں کے متعلق ایک بل کے پاس ہونے کے بعد جیسے ہی بم پھٹا ‘بھگت سنگھ ‘راج گرو اور سکھدیو وہیں گرفتار کر لیے گئے۔

جیل میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں پر شدید تشدد کیا گیا‘پانچ ماہ تک مقدمے کا کھیل کھیلنے کے بعد اس عدالت نے اکتوبر 1930میں اپنا فیصلہ سنا دیا‘بھگت سنگھ ‘راج گرو اور سکھ دیو کو پھانسی کی سزا دی گئی‘ سات افراد کو عمر قید اور باقی کو لمبی لمبی سزائیں دی گئیں‘عام طور پر مجرم موت کی سزا کا سن کر خوف کے مارے کمزور ہوجاتے ہیںلیکن عجیب بات یہ تھی کہ بھگت سنگھ کا وزن سزا سننے کے بعد مسلسل بڑھتا گیا ‘پھانسی کے دن حکومت کی خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ ان کی لاشوں سے بھی ڈررہی تھی چنانچہ پولیس کی گاڑی پھانسی کے احاطے میں لائی گئی۔ بھگت سنگھ‘ راج گرو اور سکھدیو کی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بھوسے کی بوریوں میں بھرا گیا‘ ان بوریوں کو فیروز پور لے جاکر چتا میں جلایا گیا یا دریا برد کیا گیا کچھ پتہ نہیں لگا۔

چے گویرا اور بھگت سنگھ دو ایسے انقلابی تھے جن کی لاشوں کا کچھ پتہ نہیں لگا۔ نہ ارتھی اٹھی اور نہ کہیں یادگار بنی  لیکن ان کے پیدا کیے گئے شعور نے بعد میں بہت سی انقلابی تحریکوں کو جنم دیا اور سرمایہ داری اور سامراجی نظام کے خلاف شعوری جنگ آج تک جاری ہے۔بولیویا میں چے گویرا اور پنجاب میں بھگت سنگھ آ ج بھی ہیرو ہیں‘ بلکہ دنیا بھر کے انقلابی ان کی جدوجہد سے روشنی حاصل کرتے ہیں‘یہ جدوجہد کامیابی تک مختلف شکلوں میں جاری رہے گی۔

اب ایک تاریخی واقعہ جو مجھے محترم پروفیسر سرور صاحب نے سنایا ‘میں کسی کام کے سلسلے میں لاہور گیا تھا اور وہاں پر شادمان کالونی میں پروفیسر صاحب کے ہاں قیام تھا‘ ان کا گھر شادمان کے مرکزی چوک کے سامنے دوسری منزل پر تھا اور یہ چوک ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے نظر آرہا تھا‘ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ کیمپ جیل اچھرہ سے شادمان تک پھیلی ہوئی تھی ‘ بعد میں اس جیل کو چھوٹا کرکے یہاں پر شادمان کی بستی تعمیر کی گئی اور نئی جیل لاہور سے باہر کوٹ لکھپت میں تعمیر کی گئی‘پرانی جیل میں پھانسی گھاٹ اسی چوک میں واقع تھا۔

جب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دینے کا وقت آیا تو اس وقت قانون کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل کی تحریری اجازت اور ان کی موجودگی کے بغیر کسی کو بھی پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی‘ اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ جیل ڈاکٹر سوندھی نے پروانہ موت پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا‘ان کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ لاہور کے نواحی شہر قصور کے ایک مسلمان افسر کو تعینات کیا گیا‘ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی نگرانی میں پھانسی دی گئی‘ اسے بعد میں نواب کا خطاب دے کر آنریری مجسٹریٹ بنا دیا گیا تھا۔تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس چوک کے کنوویں میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تھی‘ اسی چوک میں اس  کو گولی مار کر قتل کیا گیا۔

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلوص ‘جان نثاری اور جرات کو سلام ‘ان کا نصب العین سوشلزم تھا، وہ انگریزوں کو ملک سے نکال کر محنت کشوں کا پنچائتی نظام قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ استحصالی طبقوں کی لوٹ مار ختم ہو‘ دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع زمین ‘ فیکٹریاں‘ ملیں اوربنک وغیرہ محنت کشوں کی مشترکہ ملکیت بن جائیںاور ہر شخص کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مہم جوئی اور انفرادی دہشت گردی سے کام نہیں چلتا کیونکہ محنت کشوں کا پنچائتی راج مار دھاڑ سے نہیں بلکہ سماجی انقلاب کے ذریعے وجود میں آتا ہے اور سماجی انقلاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ محنت کشوں اور ان کے حلیفوں کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے ‘انھیں انقلابی فریضوں کی تکمیل کے لیے منظم کیا جائے ‘درمیانہ طبقے کے مٹھی بھر نوجوان خواہ ان میں کتنی ہی لگن کیوں نہ ہو ‘یہ فریضہ تن تنہا سرانجام نہیں دے سکتے۔

مہم جو انقلابیوں کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ وہ عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رہ کر یہ سمجھتے تھے کہ اکا دکا انگریز وں پر بم پھینک کر وہ برطانوی سامراج کو مفلوج کردیں گے اور وہ بوریا بستر باندھ ہندوستان سے بھاگ جائے گا‘حالانکہ افراد کے قتل سے نہ ریاست کی نوعیت بدلتی ہے اور نہ طبقاتی رشتوں میں فرق آتا ہے۔ایک زار مارا جاتا ہے تو دوسرا زار اس کی جگہ تخت پر بیٹھ جاتا ہے‘ ایک ASPسانڈرس ہلاک ہوتا ہے تو دوسرا سانڈرس آ موجود ہوتا ہے ‘یہی غلطی آج کل طالبان بھی کر رہے ہیں جو چند دھماکوں اور بے گناہوں کو مارنے کے بعد اسلامی انقلاب کی توقع کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔