عالمی دہشت گرد کورونا وائرس

شکیل فاروقی  جمعرات 26 مارچ 2020
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

کیا خواص اور کیا عوام، کیا بوڑھے اور کیا جوان آج کل سب کا موضوع گفتگو بلکہ تکیہ کلام صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’کورونا‘‘۔ بلا لحاظ مذہب و ملت ہر کوئی کورونا کا رونا رو رہا ہے۔

انتہا یہ ہے کہ جو تھے اب تک خوف خدا سے عاری ان پر بھی ہے خوفِ کورونا طاری۔ جو کام بڑے بڑوں سے نہ ہو سکا حتیٰ کہ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ بھی کوشش بسیار کے باوجود سرانجام نہیں دے پایا وہ کورونا نے چٹکی بجاتے ہوئے چشم زدن میں کرکے دکھا دیا۔ کورونا نے دنیا بھر کے تمام ممالک اور اقوام عالم کو اپنے تمام اختلافات کو فراموش کرکے بقائے انسانیت کی خاطر ایک ہی پرچم تلے لا کر کھڑا کردیا۔ بہ زبان اقبال:

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

اس اعتبار سے کورونا ہم سب کے لیے خیر مستور یعنی Blessing in Disguise ثابت ہوا۔ گویا کورونا تمام لوگوں کے لیے وہ محبوب عاشقاں اور یگانگت کا ترجمان بن کر وارد ہوا جس کی جانب خوبصورتی سے اشارہ کرتے ہوئے میر صاحب نے فرمایا ہے کہ:

ہم ہوئے‘ تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

کورونا نے دین دھرم کے بھید بھاؤ سے بالکل بالا تر ہوکر اور تمام جغرافیائی حدود و قیود کو پھلانگ کر ایکتا و اتحاد اور صلح و آشتی کے ذریعے انسانیت کے اٹوٹ بندھن میں بندھ جانے کا وہ آفاقی و ابدی پیغام دیا ہے جسے فارسی زبان کے عظیم شاعر حافظ شیرازی نے الفاظ کے قالب میں اپنے منفرد الفاظ میں یوں ڈھالا ہے:

گر وصل خواہی صلح کُل با خاص و عام

با مسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام

قصہ کوتاہ کورونا نے یک بہ یک حملہ کرکے انسانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑ کر بیدار کردیا ہے جوکہ فروعی اختلافات اور خواہ مخواہ کے گروہی تنازعات میں الجھ کر بے یقینی کا شکار اور عدم تحفظ کے اندیشے میں گرفتار ہے۔ ہر طرف ایک نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہوس زر کی اندھی دوڑ میں شریک ہونے کی وجہ انسانیت کی اعلیٰ اقدار بری طرح تیزی کے ساتھ پامال ہو رہی ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص انسانوں کے ہجوم میں گھرا ہونے کے باوجود عملاً خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ بقول ساحرؔ:

نہ دوستی نہ تکلف نہ دلبری نہ خلوص

کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں

منفرد لب و لہجے کے حامل انگریزی زبان کے شاعر رڈیارڈ کپلنگ(Rudyard Kipling) نے دکھی انسانیت کے اس المیے کو یہ کہہ کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے کہ “water water everywhere but not a drop to drink” یعنی ’’ہر طرف پانی ہی پانی لیکن پینے کے لیے ایک قطرہ بھی میسر نہیں۔‘‘

کورونا کے خوف نے اچھے اچھوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے یعنی یہ کورونا، اور یہ نہ کورونا مثلاً اس بات پر اصرار کیا جا رہا ہے کہ ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔ اس پر ہمیں احمد فراز کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

کورونا کے حوالے سے لوگوں سے فاصلہ رکھنے کی تاکید کوئی نئی بات نہیں۔ یہ نصیحت تو ڈاکٹر بشیر بدر بہت پہلے اپنے اس شعر کے ذریعے گوش گزار کرچکے ہیں۔

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

چنانچہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ گزشتہ دنوں جرمنی کے وزیر خارجہ ہورشت زیبوفر نے تمام آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گرد کورونا کے خوف سے گھبرا کر اپنے ملک کی چانسلر انجیلا مارکل سے ہاتھ ملانے سے صاف انکار کردیا اور اس بات کی بھی ذرہ برابر پرواہ نہ کی کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ بقول پروین شاکر:

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

انجام کار وہی ہوا جو ہونا تھا اور جس کا سبب کورونا تھا۔ اگلے روز ان کی یہ تصویر اخبارات کی نمایاں طور پر زینت بنی۔ کورونا وائرس کی دوسری احتیاط نے بڑے بڑوں کو منہ چھپانے پر مجبور کردیا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ منحوس وائرس کہیں دلوں کے فاصلے بھی نہ بڑھا دے۔ اس لیے یہ بات گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن محسوس ہو رہی ہے کہ کورونا کا قاتل وائرس ہمارے وطن کی پگھلا دینے والی گرمی کی تاب نہ لاسکے گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا۔ چنانچہ عزیزم ہم وطنوں کو اب اس قیامت خیز موسم گرما کی آمد کا شدت سے انتظار ہے کہ جس سے وہ پہلے پناہ مانگا کرتے تھے۔

عالمی سطح پر وبائی امراض کی کہانی صدیوں پرانی ہے۔ ان امراض میں طاعون، ہیضہ اور انفلوئنزا جیسے وبائی امراض سرفہرست ہیں۔ کورونا وائرس کا پہلی بار علم 1960 میں ہوا تھا مگر افسوس کہ اس کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس نہیں لیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے تدارک کے لیے نہ تو کوئی دوا تیار کی جا سکی اور نہ کوئی ٹیکہ بنایا جا سکا۔ چنانچہ چین کے صوبے ہوبی کے شہر ووہان میں پھوٹنے والی کورونا وائرس کی حالیہ وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خوردبین کے ذریعے کیے گئے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ گیند نما وائرس کے تمام اطراف کانٹے نما تاج سے بنے ہوئے ہیں۔

اس وائرس کی دیگر پانچ اقسام بھی ہیں۔ اس وبا سے مختلف ممالک میں لوگ سائنوسائٹس، کھانسی، حلق کے درد، بران کائٹس اور بخار میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ان کی بیماری کے خلاف قوت مدافعت کمزور ہوگئی ہے۔ یہ وبائی مرض مریض کی چھینک اور کھانسی کی پھوار یا مریض کے آلودہ ہاتھوں، لباس یا سامان کو چھونے سے دوسروں کو بھی لگ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر مریض نے دروازے کے ہینڈل کو چھوا ہو تو اس سے بھی یہ دوسروں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس مرض نے اب تک چین کے بعد اٹلی اور ایران کے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔

اس وقت پوری دنیا اس وبائی مرض کی دہشت میں گرفتار ہے۔ اس اعتبار سے اسے دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ ہر مرض کی طرح کورونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ صفائی ستھرائی اور طہارت کا خاص خیال رکھیں۔ ہوسکے تو باوضو رہنے کو اپنا معمول بنائیں۔ جہاں تک ممکن ہو گھر کے کھانے کو استعمال کرنے کی عادت اپنائیں اور ہوٹلوں میں جاکر کھانے سے ممکنہ حد تک اجتناب کریں۔ جسم و لباس کی صفائی اور پاکیزگی کا خصوصی طور پر اہتمام کریں۔ حضور پاکؐ کا ارشاد پاک ہے کہ جس علاقے میں کوئی موذی وبا پھیل جائے وہاں جانے سے اجتناب کیا جائے اور جو لوگ پہلے سے وہاں موجود ہوں اور وہ اس سے متاثر ہو جائیں تو وہ اس علاقے سے باہر نہ نکلیں۔ بقول ریحان طائرؔ:

نمازیں پڑھو تم‘ تلاوت کورونا

گناہوں کو چھوڑو‘ عبادت کورونا

’’کورونا‘‘ تمہارا نہ کچھ کرسکے گا

’’کورونا‘‘ کے ’’خالق‘‘ کی طاعت کرو نا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔